رتی اور جناح: اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا


آج پچیس دسمبر ہے۔ جب پوری پاکستانی قوم اپنے رہبر قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منا رہی ہے۔ مجھے قائد کی ذات سے جڑی ایک جیسی کومل سی حسین لڑکی کا خیال آ رہا ہے۔ جس کو اولوالعزم اور ثابت قدمی سے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے بظاہر سخت دل لیڈر نے اپنا دل دیا تھا۔ اس پھولوں جیسا حسن رکھنے والی کم سن لڑکی کی اپنے محبوب کے ساتھ پریم کہانی کی ابتدا تو بہت تصوراتی پریوں جیسی ہے مگر انجام ایسا کہ جس پہ رونا آئے۔ اس حسین لڑکی کا نام رتی تھا۔

رتی کی پرکشش شخصیت نے جناح کو اس حد تک متاثر کیا کہ ان کی سنجیدہ اور ریزرو شخصیت کے گرد کھنچی مضبوط فصیل بالآخر ٹوٹ گئی اور انہوں نے اسے اپنانے کا فیصلہ کیا جس نے پورے ہندوستان کو ششدر کر دیا۔ گو شادی کے صرف گیارہ برس بعد ہی اس شادی کا انجام صرف 29 سالہ کی عمر میں رتی کی دردناک موت پہ ہوا مگر جناح تاحیات ان کی یاد کو دل سے نہ کھرچ سکے۔ اور پھر کبھی بھی شادی نہ کی۔

رتی اور جناح کی محبت کی یہ کہانی اتنی عجیب و غریب نہ ہوتی اگر ان کے درمیان مذہب، عمر اور ثقافت کا اتنا تضاد نہ ہوتا۔

رتی یعنی رتن بائی 20 فروری 1900 ء کو بمبئی کے پارسی گھرانے میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے والد سر ڈنشا پٹیٹ بمبئی انڈیا کے متمول کروڑ پتی تھے جن کا محل نما گھر پٹیٹ ہال کا فرانس کے فرنیچر اور ایران کے قالینوں سے آراستہ تھا۔ بچے انگریز گورنس پالتیں اور جب یہ گھرانا یورپ سیر و تفریح کو جاتا تو نوکروں کی فوج بھی ساتھ جاتی۔

جناح ایک کامیاب قانون دان، وائسرائے کے امپیریل لیجسلیٹو کونسل کے ممبر اور لندن سے تعلیم یافتہ بہت نامور اور کامیاب قانون دان تھے۔ وہ رتی کے والد سے تین سال چھوٹے اور بہت اچھے دوست تھے اور ان کے گھر اکثر آنے جاتے رہنے کی وجہ سے رتی کو بچپن سے جانتے تھے۔

جناح کی پیدائش 1876 ء کراچی میں ایک شیعہ اثنا عشری خوجہ گھرانے میں ہوئی۔ وہ بہت کامیاب وکیل کے ساتھ خوش لباس، ہینڈ سم، متاثر کن اور کم کھلنے والی ریزرو اور بظاہر جذباتی طور پہ سرد شخصیت تھے۔ جو ساؤتھ کوٹ باقاعدگی سے ٹینس اور شطرنج کھیلنے جاتے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ ایکٹنگ اور خاص کر شیکسپئیر کے ڈراموں کے شوقین تھے۔ اور انہیں گھڑ سواری کا بھی شوق تھا۔

رتی کتابوں کی دنیا میں مگن، بہت حساس، جان کیٹس کی شاعری کی اسیر اور خود بھی اچھی شاعری اور نثر نگاری کرتیں۔ بہترین لباس پہنتیں۔ ان کی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے انہیں ”انڈیا کا پھول“ کا لقب دیا گیا۔

پہلی بار جناح اور رتی کا رومانس دارجلنگ میں پروان چڑھا۔ اس وقت رتی سولہ اور جناح کی عمر 39 سال کیتھی۔ دونوں کی عمر میں چوبیس سال کا فرق ہونے کے باوجود گھڑ سواری اور ملک کی سیاست سے دلچسپی کا شوق مشترکہ تھا۔ اس کے علاوہ دونوں آزاد مغربی فکر کے دلدادہ ہونے کے باوجود ملک میں برطانوی تسلط کے خلاف باغی اور جدوجہد کا جذبہ رکھنے والے وطن پرست تھے۔

جب جناح نے اپنے دوست کو ان کی بیٹی رتی کے رشتے کا پیغام دیا تو وہ غصہ میں آ گئے اور جناح کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا۔ عمر کے ساتھ مذہب اور ثقافتی فرق ان کے لیے ناقابل قبول تھا۔ گو اب جناح کا رتی کے گھر داخلہ پہ پابندی تھی لیکن دونوں کی درمیان خفیہ ملاقاتیں جاری تھیں۔ اسی دوران رتی کی سالگرہ آئی جو ان کے والدین نے بہت دھوم دھام سے تاج محل ہوٹل میں منائی گئی۔ لیکن تقریب کے آخر میں رتی نے اپنے باپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مہمانوں کو بتایا کہ انہوں نے جناح کا رشتہ قبول کر لیا ہے۔ جس کے بعد پورے شرکاء کو سانپ سونگھ گیا۔

29 فروری 1918 ء کو قانونا رتی بالغ تھیں اور شادی کرنے کی مجاز۔ اس وقت جناح کی عمر بیالیس اور رتی اٹھارہ سال کی تھیں۔

1918 ء میں رتی نے اسلام قبول کیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا۔ اور بمبئی کی جامعہ مسجد میں ان کا نکاح محمد علی جناح سے بہ عوض سوا لاکھ انجام پایا۔ ابوالحسن نجفی نے نکاح پڑھایا اور گواہان میں میں راجہ صاحب محمود آباد بھی تھے۔ اس کے بعد 19 اپریل 1918 ء میں شادی کی مختصر تقریب جناح کے گھر ساؤتھ کورٹ مینشن مالابار ہل بمبئی میں انجام پائی۔ جو رتی کے گھر سے بہت قریب تھا۔ رتی کے والدین کو اس شادی کی خبر 20 اپریل کو بمبئی کرانیکل سے ملی۔

رتی کا گھر ان کے والدین کے گھر سے قریب تھا لیکن پارسی پنچایت کے فیصلہ کے مطابق ان کا مسلمان سے شادی کرنے کی بناء پہ کمیونٹی سے بالکل ناتا توڑ دیا گیا۔ یہی نہیں ان کے والدین پہ بھی دباؤ تھا کہ وہ بیٹی سے رشتہ منقطع کر لیں ورنہ ان کا بھی ناتا توڑ لیا جائے گا۔

رتی کا والدین رشتہ داروں اور کمیونٹی کے دوستوں سے رشتہ ٹوٹنا یقیناً بہت تکلیف دہ رہا ہو گا۔ کم عمری میں وہ تنہائی کا شکار ہو گئی ہوں گی۔ پارسی کمیونٹی میں اس نکاح کے دن کو بلیک فرائڈے قرار دیا کیونکہ جمعہ کو انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔

اسی طرح جناح کو ان کے سیاسی مخالفین نے اس شادی کو سیاسی مخاصمت کی وجہ بنائی۔ خاکسار تحریک، مجلس ابرار اور دارالعلوم ہند دیوبندی نے شدید مخالفت کی۔ سیاست میں جناح کے دشمن بھی بہت تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کے سب سے اہم لیڈر کے طور پہ مقبول ہو رہے تھے۔

بعد میں 1945 ء میں نیشنل الیکشن میں مجلس احرار کے مظہر علی اظہر نے مسلم لیگ کو ہرانے کے لیے اس شادی کو نشانہ بنا کر یہ نعرے بھی لگائے

اس کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ قائد اعظم ہے یا کافر اعظم

اس شدید مخالفت اور ذہنی دباؤ کی فضا سے دور نیا جوڑا نینی تال ہنی مون منانے چلا گیا۔ شادی کے بعد جناح کا گھر خوشیوں اور قہقہوں سے سرشار رہا۔ رتی جناح کو جے کہہ کے پکارتی تھیں۔ جناح نے شاہانہ انداز میں پلی بڑھی اپنے دل کی ملکہ رتی کی ہر خوشی کے لیے فیاضی سے پیسے خرچ کیے۔

رتی جناح کے مقابلہ میں اپنے جذبات کا کھل کے اظہار کرتی تھیں۔ وہ میاں کی سیاسی سرگرمیوں میں ساتھ دینا چاہتی تھیں۔ 1919 ء میں رتی نے فرسٹ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس میں بہت پراثر تقریر کی۔ پندرہ اگست 1920 ء میں ان کی بیٹی ڈینا پیدا ہوئیں۔ تاہم بتدریج جناح کی بحیثیت مسلمان لیڈر سیاسی مصروفیات بڑھتی چلی گئیں۔ جو رتی کو تنہا کرتی گئیں۔ گھر والوں اور کمیونٹی سے رشتے پہلے ہی کٹ چکے تھے۔ گو ان کی دوستی سروجنی نائیڈو اور ان کی بیٹیوں اور بہت سوں سے تھی جن سے وہ دل کا حال سناتیں۔ شاعری پڑھتیں، شاعری لکھتیں اور اپنے پالتو جانوروں سے اپنا دل بہلاتیں۔

حالانکہ جناح نے اورینٹ کلب جہاں بلیئرڈ اور شطرنج کھیلتے تھے وہاں جانا پہلے ہی کم کر دیا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ وہ اپنے روزمرہ کے روٹین اور طریق میں کسی تبدیلی کے خواہشمند نہ تھے۔ وہ اظہار کے معاملے میں قدرے سرد اور غیر جذباتی تھے۔ جذبات سے دوری اور منطق سیاسی لیڈر شپ کی حکمت عملی میں شمار ہوتا ہے لیکن یہ رویہ تنہائی بھی پیدا کرتا ہے۔ قانون اور سیاست نے اس خلیج کو جنم دینا شروع کر دیا جس کا انہیں احساس بھی نہ ہوا۔ رتی کو جناح کی محبت اور توجہ کی طلب تھی۔ اس سے محرومی کا نتیجہ ڈپریشن، چڑچڑاۂٹ اور شدید تنہائی کا احساس تھا جس نے رشتے میں دراڑیں ڈالنی شروع کر دیں۔ ان کے درمیان جھگڑے ہونے لگے اس کا تعلق جسمانی اور جسمانی دونوں بیماریوں سے ہو گا۔ کیونکہ ڈپریشن کے ساتھ اب انہیں کینسر کی تشخیص بھی ہو گئی تھی۔ بچی اب کچھ اور بڑی ہو گئی تھی۔ ننھیال نے اب ملنا شروع کر دیا تھا۔

جون 1928 ء سے دونوں علیحدہ رہنے لگے۔ رتی جناح کا گھر چھوڑ کے اپنی آٹھ سالہ بچی کے ساتھ تاج محل ہوٹل منتقل ہو گئی تھیں۔ لیکن اس علیحدگی کا مطلب طلاق نہیں تھا۔

20 فروری 1929 ء اپنی سالگرہ والی دن رتی کا انتقال ہوا اس دن صبح کو ان کو تاج محل ہوٹل کے مالک کی جانب سالگرہ کا کیک بھیجا گیا۔ وہ انتیس سال کی ہو گئیں تھیں۔ لیکن وہی دن ان کی موت کا بھی تھا۔ اس دن ان کی بہت حالت خراب تھی اور وہ کوما میں چلی گئیں تھیں۔ ان کے بھائی اور ماں ان کے پاس تھے جبکہ اس وقت جناح دلی میں تھے۔ ان کو اطلاع دے دی گئی تھی اور وہ ٹرین میں تھے۔ ان کے انتظار میں رتی کے جسم کو برف خانے میں رکھا گیا۔ علامہ حسن نجفی نے نماز جنازہ ادا کی وہی جنہوں نے نکاح پڑھایا تھا۔

جناح مضبوط اعصاب کے مالک تھے لیکن جب رتی کو قبر میں اتارا اور ان سے مٹی کی پہلی مٹھی پھینکنے کو کہا گیا تو وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رو دیے۔ تنہا اور کسی کے کاندھے کا سہارا لیے بغیر۔ ہمیشہ کی طرح تنہا اور کسی دوست کے بغیر۔ دو سری بار جناح لوگوں کے سامنے 1947 ء میں اس وقت روئے جب وہ پاکستان جانے سے پہلے آخری بار رتی کی قبر پہ خدا حافظ کہنے گئے۔

بقول ان کے دوست کانجی کے ”جناح نے اس موت کو اپنی زندگی کی ناکامی اور ذاتی شکست قرار دیا۔“

موت کے بعد انہوں نے رتی کو بہت یاد کیا۔ ان کے شوفر کے مطابق سالوں وہ ایک بڑی پرانی لکڑی کے صندوق کو کھلواتے جس میں رتی اور بیٹی کے کپڑے تھے ان کپڑوں کو نکال کے قالین پہ بچھاتے اور خاموشی سے انہیں دیکھتے پھر ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔

مرنے کے کئی سال بعد جناح نے رتی کے متعلق تاسف سے یہ بات کہی ”وہ ایک بچی تھی مجھے اس سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔“

آخر میں رتی کا لکھا وہ خط جو انہوں نے انڈیا سے پیرس جاتے ہوئے بحری جہاز میں پانچ اکتوبر 1928 ء جناح کو بھرپور محبت اور جذبات سے بھر پور خط لکھا تھا۔ جو ان کی بہترین ادبی صلاحیت کا ثبوت تھا۔

انہوں نے ابتداء میں ان کا شکریہ ادا کیا

”ڈارلنگ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا اس کا شکریہ۔ میرے عزیز جب کوئی زندگی کی حقیقت یعنی موت سے اتنا قریب ہوتا ہے جتنی میں ہوں تو وہ صرف خوبصورت اور محبت بھرے لمحات کو یاد کرتا ہے اور باقی سب غیر حقیقت پسندی کے دھندلکے میں چھپ جاتا ہے۔ میرے محبوب مجھے اس پھول کی مانند یاد رکھیے جسے آپ نے توڑا نہ کہ وہ پھول جسے آپ نے مسل دیا۔

میرے سویٹ ہارٹ میں نے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کو ٹوٹ کے چاہا۔ میری اذیت میرے پیار سے ہرگز کم۔ میری آپ سے اتنی التجا ہے کہ ہمارا یہ المیہ کہ جس کا آغاز پیار سے ہوا ہے اس کا انجام بھی پیار پہ ہو۔ میری جان شب بخیر اور خدا حافظ
رتی

S. S. Rajputana,
Marseilles 5 Oct 1928

Darling – thank you for all you have done. If ever in my bearing your once tuned senses found any irritability or unkindness – be assured that in my heart there was place only for a great tenderness and a greater pain – a pain my love without hurt. When one has been as near to the reality of Life (which after all is Death) as I have been dearest, one only remembers the beautiful and tender moments and all the rest becomes a half veiled mist of unrealities. Try and remember me beloved as the flower you plucked and not the flower you tread upon.

I have suffered much sweetheart because I have loved much. The measure of my agony has been in accord to the measure of my love.

Darling I love you – I love you – and had I loved you just a little less I might have remained with you – only after one has created a very beautiful blossom one does not drag it through the mire. The higher you set your ideal the lower it falls.

I have loved you my darling as it is given to few men to be loved. I only beseech you that the tragedy which commenced in love should also end with it.

Darling Goodnight and Goodbye

Ruttie

I had written to you at Paris with the intention of posting the letter here – but I felt that I would rather write to you afresh from the fullness of my heart. R.

ریفرنس

https://youtu.be/N-QONqOUxco
https://dailytimes.com.pk/704503/the-last-days-of-mrs-jinnah/amp/
https://m.thewire.in/article/books/ruttie-jinnah-the-woman-who-stood-defiant-review/amp


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments