نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں رضوان کھیلیں گے یا سرفراز؟


sarf and riz
پاکستان کرکٹ کے لیے گذشتہ ایک ہفتہ خبروں کے اعتبار سے خاصا مصروف رہا ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی نئی خبر شہ سرخیوں کی زینت بن رہی ہے۔

پہلے پاکستان کو انگلینڈ کے ہاتھوں کراچی میں کھیلے جانے والے سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، پھر چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو برطرف کرتے ہوئے نجم سیٹھی کی سربراہی میں 14 رکنی مینجمنٹ کمیٹی نے پی سی بی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان کیا جس کی سربراہی شاہد آفریدی کو سونپی گئی ہے۔

اس سلیکشن کمیٹی کی جانب سے جمعے کو پاکستان کے 16 رکنی سکواڈ میں کپتان بابر اعظم کی مشاورت سے مزید تین کھلاڑیوں فاسٹ بولر میر حمزہ، شاہنواز دھانی اور آف سپنر ساجد خان کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

تاہم جو سوال اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام مداحوں کے ذہن میں ہے وہ یہ کہ کیا کل نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں محمد رضوان ٹیم کا حصہ ہوں گے یا ان کی جگہ سابق کپتان سرفراز احمد کو لگ بھگ چار برس بعد ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا جائے گا۔

عام طور پر سلیکشن کمیٹی کی جانب سے حتمی سکواڈ کے اعلان کے بعد میچ سے ایک روز قبل، یا ٹاس سے پہلے پچ دیکھنے کے بعد پلیئنگ الیون کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن سنیچر کو پریس کانفرنس کے دوران بابر اعظم کی جانب سے دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فائنل الیون کا فیصلہ چیف سیلیکٹر سے مشاورت کے بعد کچھ دیر میں کیا جائے گا۔‘

بابر کی پریس کانفرنس کے بعد شاہد آفریدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ سرفراز اور میر حمزہ کو ممکنہ طور پر ٹیم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

riz

انھوں نے نیشنل سٹیڈیم کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے معلوم ہوا کہ نسیم شاہ پوری طرح سے فٹ نہیں ہیں اس لیے دو فاسٹ بولرز کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی کی غیر موجودگی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک لیفٹ آرم پیسر کی بھی ضرورت تھی تاہم انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

اسی طرح شاہد آفریدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کھلاڑیوں کے ورک لوڈ کے بارے میں بابر بات کر چکے ہیں۔ ایسے کھلاڑی ہیں جو ایک عرصے سے تینوں فارمیٹس کھیل رہے ہیں، بہت سارے سینیئر کھلاڑی باہر بیٹھے ہیں اور ہمیں اپنا بینچ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کوئی ٹیم سے نکلے بھی تو زیادہ فرق محسوس نہ ہو۔‘

سرفراز احمد تنیوں فارمیٹس میں پاکستان کی کپتانی کر چکے ہیں اور انھوں نے 49 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے جس میں انھوں نے 36 کی اوسط سے 2657 رنز سکور کیے ہیں اور تین سنچریاں سکور کی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے وکٹ کے پیچھے 146 کیچ پکڑنے کے ساتھ ساتھ 21 سٹمپنگز بھی کی ہیں۔

تاہم اس موقع پر سرفراز احمد کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے چہ مگوئیاں دراصل محمد رضوان کی ٹیسٹ میچوں میں خراب فارم کے باعث ہو رہی ہیں۔

محمد رضوان کی حالیہ ٹیسٹ میچوں میں قدرے خراب فارم کے باعث سرفراز کی واپسی کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ رضوان نے گذشتہ چھ ٹیسٹ میچوں میں نصف سنچری سکور نہیں کی ہے لیکن رواں سال ان کی کراچی ٹیسٹ میں بنائی گئی 104 ناٹ آؤٹ کی اننگز نے پاکستان کو وہ ٹیسٹ میچ ڈرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

محمد رضوان نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو سنہ 2016 میں بطور بلے باز نیوزی لینڈ میں کیا تھا لیکن پھر تین سال تک بینچ پر بیٹھنے کے بعد انھیں سنہ 2019 میں باقاعدہ طور پر ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا جس کے بعد سے وہ تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

انگلینڈ کی سیریز کے دوران محمد رضوان کے آف سائیڈ کھیل اور اس حوالے سے ٹیکنیکل مسئلے کے بارے میں خاصی بات ہوئی تھی اور اس کے بعد چند ویڈیوز میں بیٹنگ کوچ محمد یوسف کو ان کے ساتھ کام کرتے بھی دیکھا گیا تھا۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں رضوان کو سال 2021 کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا تھا اور ان کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اعداد و شمار بھی بہترین رہے ہیں۔ تاہم ان کی ٹیسٹ میچوں میں کارکردگی کے بارے میں میڈیا پر پہلے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

اس مرتبہ انگلینڈ کی سیریز کے دوران انھوں نے چھ اننگز میں 23 اعشاریہ پانچ کی اوسط سے صرف 262 رنز سکور کیے اور جہاں پاکستان کو انگلش بولنگ کے خلاف مڈل آرڈر میں تجربہ کار بلے باز کی ضرورت تھی، وہاں وہ اپنا کردار بخوبی نہ نبھا سکے۔

https://twitter.com/MazherArshad/status/1606376142679703552?s=20&t=ijDMQjRg4_sEhCFJ-6De1Q

دوسری جانب سرفراز احمد نے حالیہ قائد اعظم ٹرافی میں سندھ کی ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے 43 کی اوسط سے آٹھ میچوں میں 394 سکور کیے جس میں ایک سنچری اور تین نصف سنچریاں شامل تھیں۔

جہاں اس وقت سوشل میڈیا پر سرفراز کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے مطالبے زور پکڑ رہے ہیں وہیں ایک رائے یہ بھی ہے کہ رضوان کو مزید موقع دینا چاہیے اور جلد بازی میں فیصلے سے گریز کرنا چاہیے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار اور کرکٹ کے اعداد و شمار پر گہری نظر رکھنے والے مظہر ارشد نے کہا کہ گذشتہ دو برس میں پاکستان نے 13 نئے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ کیپ دی ہے اور 17 میچوں میں 29 مختلف کھلاڑیوں کو کھلایا ہے جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’ایک یا دو بری سیریز کے بعد کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے کے مطالبے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس سے پہلے وہ کتنا اچھا پرفارم کرتے آئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ رضوان پر بھروسہ کریں گے۔‘

کرک وک نامی ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے مظہر ارشد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رضوان کی بطور وکٹ کیپر کوئی بھی سیریز بری نہیں گزری، صرف حالیہ سیریز میں انگلینڈ کے خلاف وہ بیٹنگ میں پرفارم نہیں کر سکے۔‘

دوسری جانب بعض صارفین سرفراز احمد کی ٹیم میں شمولیت کے حق میں بھی دکھائی دیے۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’میں سرفراز کا مداح ہوں اور میرے نزدیک انھیں ٹیم کا حصہ ہونا چاہیے بجائے رضوان کے۔

’رضوان ٹی ٹوئنٹی کے اچھے کھلاڑی ہیں لیکن ون ڈے اور ٹیسٹ میں سرفراز کو کھلانا چاہیے۔‘

اکثر صارفین کو بابر اعظم کی چیف سیلیکٹر سے پوچھ کر ٹیم کا اعلان کرنے کی بات بھی نہیں بھائی اور کچھ نے یہ پیشگوئی کی کہ اب بابر اعظم بھی صرف ’ڈمی کپتان‘ ہی رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments