سنہ 2022 میں ہم نے کیا پڑھا؟


گزشتہ برس ہم نے سال بھر میں پڑھی جانے والی کتابوں کی فہرست اپنی فیس بک وال پر لگائی تھی۔ جسے بہت سے احباب نے پسند کیا تھا اور کچھ نے تو اسی لسٹ سے کچھ کتابیں بھی خریدی تھیں۔ اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے ہم یہاں پر رواں برس میں پڑھی جانے والی کتابوں سے آپ کو متعارف کرواتے ہیں۔ عہد حاضر میں کتاب کے لیے وقت اور پیسہ دونوں صرف کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ مگر کتاب سے رشتہ جوڑ کر رکھنے سے ہی سیکھنے، جاننے، اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے اور لکھنے کا شوق پورا ہو سکتا ہے۔

کتاب ہمیں آگاہی دیتی ہے۔ ہمیں بتاتی ہے تمہارا سچ ہی آخری سچ نہیں ہے۔ کتاب ہی ہمیں خود احتسابی کی طرف راغب کرتی ہے۔ کتاب صرف علم کا ذریعہ نہیں یہ عمل کرنے پر بھی اکساتی ہے۔ کتاب آپ کو دنیا کی صرف سیر نہیں کرواتی بلکہ کائنات میں چھپے رازوں کو بھی عیاں کرتی ہے۔ کتاب کی اہمیت و افادیت ایک صاحب مطالعہ شخص ہی جان سکتا ہے۔ انہی وجوہات کے پیش نظر اپنی کوشش یہی ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ وقت کتب بینی میں بسر کیا جائے۔

ہم چونکہ کیرئیر میکنگ اور تلاش معاش ایسے اعصاب شکن دورانیہ سے گزر رہے ہیں۔ تو ایسے میں کتب بینی اور لکھنے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کچھ لمحات نکلنا کٹھن کام ہوتا جا رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے ہم پچھلے سال کی نسبت رواں برس کم کتابیں پڑھ سکے ہیں۔ رواں برس ہم نے کتاب میلہ لاہور اور لٹریچر فیسٹیول لاہور میں شرکت بھی کی اور وہاں سے بھی کچھ کتب خریدیں۔ ایسے ایونٹس میں شرکت کرنے کا اپنا لطف ہے۔ جو بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ فراہم کرتے ہیں۔

لاہور کتاب میلہ سے ہم نے فرانسیسی ادیب بالزاک کا ناول ”تاریک راہوں کے مسافر“ خریدا۔ جس کا اردو ترجمہ مشہور صحافی رؤف کلاسرا نے کیا ہے۔ جبکہ رؤف کلاسرا کی کتاب ”شاہ جمال کا مجاور“ بھی وہی سے خریدی۔ اسی لاہور بک فیئر میں ہم نے رؤف کلاسرا صاحب سے بالمشافہ ملاقات کی اور ان کی کتابوں پر آٹوگراف بھی لئے۔ رؤف کلاسرا ہمیں صحافی سے زیادہ بطور مصنف اچھے لگتے ہیں اور ان کی تحریر رواں اور جاذب ہوتی ہے۔ ابھی رؤف کلاسرا کا ناول ”گاڈ فادر“ پر کیا گیا اردو ترجمہ نئے ایڈیشن میں بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔ جس کو پڑھنے کے لیے اپنی بک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔ جبکہ رؤف کلاسرا کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ”گمنام گاؤں کا آخری مزار“ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ”داڑھی والا“ سے شہرت حاصل کرنے والے حسنین جمال صاحب سے بھی لاہور بک فئیر میں ملاقات ہوئی۔ حسنین جمال روزمرہ کے موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں اس طرح خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ قاری کو اپنے اندر جکڑ لیتے ہیں۔ حسنین جمال اردو انڈیپینڈنٹ کے لیے کالم اور بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

ہم نے ان کی دوسری کتاب ”سوچتے ہیں“ پڑھی ہے۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مشہور روسی ادیب میکسم گورکی کے شاہکار ناول ”ماں“ نے تو گویا اپنے سحر میں مبتلا کر دیا اور ہم اسے دو بار پڑھنے پر مجبور ہو گئے۔ انقلاب روسی اور طبقاتی جہدوجہد کو سمجھنے کے لیے یہ ناول معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کی خود نوشت ”یادوں کا جشن“ کا ہم نے دوسری بار مطالعہ کیا ہے۔ اردو زباں کا منفرد ذائقہ چکھنے اور تقسیم ہندوستان سے قبل اور بعد کے سیاسی، علمی، ادبی اور معاشرتی حالات کی جانکاری کے لیے یہ خودنوشت بہت معاون ہے۔ ہم نے قدرت اللہ شہاب کا ”شہاب نامہ“ اور جوش ملیح آبادی کی خود نوشت ”یادوں کی برات“ کا مطالعہ بھی کر رکھا ہے مگر کنور سنگھ بیدی کو پڑھنا ایک منفرد سواد ہے۔

ہیرلڈلیم کی ”چنگیز خان“ ، جس کا اردو ترجمہ سید ذیشان نظامی نے کیا ہے۔ یہ بھی ایک دوست کے توسط سے ہم تک پہنچی تو ہم نے اسے بھی پڑھ ڈالا۔ جس میں منگول دور کی کچھ نایاب تصویریں بھی ہیں۔ یہ کتاب منگول سلطنت اور منگول جنگجوؤں کی طاقت، وحشت اور بربریت کو عیاں کرتی ہے۔ عصمت چغتائی کے افسانوں کا مجموعہ بھی پڑھا ہے۔ یہ پی ڈی ایف فائل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ جو واقعتاً فوقتا پڑھ لیتا ہوں۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب کا سفرنامہ ”یاک سرائے“ جس میں موت سے مکالمہ شامل ہے۔

یہ سفرنامہ ہمیں تارڑ صاحب کے پہاڑوں اور شمال پر لکھے جانے والے سفرناموں میں سب زیادہ اچھا لگا ہے۔ یہ سفر نامہ ایک ایڈوینچر کی کہانی ہے۔ ہم خود کو متاثرین تارڑ میں شمار کرتے ہیں۔ تارڑ صاحب ہمارے محبوب ادیب ہیں۔ ان کے ناولز میں، پیارا کا پہلا شہر، بہاؤ اور راکھ جبکہ سفرناموں میں سنہری الو کا شہر، ماسکو کی سفید راتیں، یاک سرائے، نیو یارک کے سو رنگ آسٹریلیا آوارگی کے ساتھ اور سندھ بہتا رہا ہم نے پہلے سے پڑھ رکھے ہیں۔

اردو کتب کے ساتھ ساتھ کچھ انگریزی ناولز اور کتابیں بھی ہمارے زیر مطالعہ رہی ہیں۔ جن میں دنیا میں ہونے والی جنگ و جدل کے احوال پر لکھی گئی کتاب ”دی ورلڈ ان کنفلیکٹ“ یعنی دنیا تنازعات میں ’جس کے رائٹر جان اینڈریو ہیں۔ جان پرکنز کی ”اقتصادی غارت گر کے اعترافات“ ۔ اگر کوئی امریکہ، آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے طریقہ واردات کو سمجھنا چاہتا ہے۔ تو وہ یہ کتاب

”The New Confessions of an Economic Hitman“

کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جس نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ امریکہ اور دوسرے اداروں کے ساتھ گزارا اور دوسروں ممالک میں حکومتیں بدلنے، سیاستدانوں کو مروانے، ان سے دھمکی، عورت، پیسہ، اور اقتدار سے کام کروانے میں ماہر رہا۔ جان پرکنز کے ضمیر نے خلش کی اور جان نے یہ کتاب اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا کر لکھ ڈالی۔

یوں وہ دنیا کے سامنے چھپے راز لائے۔ اقوام عالم نے اس کتاب اور ان حقائق سے کتنا اور کیا کچھ سبق سیکھا؟ یہ الگ کہانی ہے۔ لیکن امریکہ دنیا کے ساتھ کیا اور کیسے کرتا ہے؟

یہ کتاب آپ پر بہت سے پوشیدہ راز عیاں ضرور کرتی ہے۔ اس کا کتاب اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ معروف امریکی سفارتکار اور مصنف ہنری کسنجر کی کتابیں ”ڈپلومیسی“ اور ”دی ورلڈ آڈر“ ہم نے پڑھ رکھی ہیں۔ رواں برس ہمارے دوست عقیل عمر نے کسنجر کی نئی کتاب ”قیادت“ فراہم کی تو اسے بھی کچھ پڑھا ہے۔ جس کو ابھی مکمل تو نہیں پڑھ سکا۔ اس کتاب میں پچھلی صدی کے چھے لیڈرز پر تحقیقی اور تجزیاتی احوال قلمبند کیا گیا ہے۔ جن سے مصنف ہنری کسنجر کا کسی نا کسی حوالے سے واسطہ رہا ہے۔

”الکیمسٹ“ اور ”گیارہ منٹ“ ناولز سے شہرت پانے والے عہد حاضر کے نامور ادیب پائلو کوئیلو کا ناول ”دی پرم اور شیطان“ پڑھنا شروع کیا تو اسے درمیان سے ہی چھوڑ دیا۔ اپنا تو کتاب پڑھنے کا یہی انداز ہے جو بک شروع سے اپنے سحر میں گرفتار نہ کر سکے، اسے درمیان سے ہی الوداع کہہ دیتے ہیں۔ آئندہ برس پائلو کوئلو کا ناول ”ویرونیکا کا موت کا فیصلہ“ پڑھنے کا ارادہ ہے۔ کیونکہ کیمیا گر اور گیارہ منٹ کی وجہ سے کوئلو ہمیں کافی پسند ہیں۔

ان کے علاوہ رواں سال کے اواخر میں پچھلی صدی کے بڑے ناولز میں شمار کولمبیائی مصنف گیبریئل گارسیا مارکیز کا ناول ”تنہائی کے سو سال“ زیر مطالعہ ہے۔ یہ چند ایک کتابوں کی فہرست ہے۔ جو ہم نے دو ہزار بائیس کے اندر پڑھی ہیں۔ کتاب دل، دماغ اور جسم کے درمیان ربط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ دماغ کے بند دریچوں کو کھولتی ہے۔ جس سے انسان خالق کائنات کی تخلیقات کو سمجھتا ہے۔ کتاب پڑھنا کیسا ہے؟ کتاب کا مطالعہ کرنے والا دنیا کو کس زاویے سے پرکھتا ہے؟ اور کتاب کس طرح لطف دیتی ہے؟ یہ سب تب ہی عیاں ہوتا ہے جب آپ کتاب پڑھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments