فون سیکس سے جنسی تسکین پانے والا خود ساختہ مجسمہ پارسائی


تقریباً پونے چار سال تک حکومت کی صورت میں راج کرنے والا سسٹم کا چہیتا اور حکومت میں آنے سے پہلے ”سرپرستی“ کی صورت میں خداوندان سسٹم کی لیبارٹری سے اپنی شخصی سرجری کروانے کے بعد منظر عام پر لایا جانے والا عمران خان نیازی آج کل جنسی تفریح کے بعد جنسی احساسات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جیسی آڈیو لیک کی زد میں ہے اور لگتا ہے کہ شاید یہ سلسلہ ابھی رکنے والا نہیں ہے۔ اس موضوع پر مزید آگے بڑھنے سے پہلے اپنا دو ٹوک موقف پیش کرنا چاہوں گا کہ لوگوں کے آئیڈیاز پر گفتگو کرنا اور دل کھول کر تنقید کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ ڈسکشن و ڈائیلاگ سے معاشرے و افراد آ گے ہی بڑھتے ہیں پیچھے نہیں مگر کسی کی نجی زندگی میں کیمرے یا فون کال ٹیپ کے ذریعے سے گھسنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں فرد کے ”پبلک فیس“ سے واسطہ رکھنا چاہیے نہ کہ اس طرف اپنی توانائیاں خرچ کرنے میں لگ جائیں کہ ”وہ بیڈ روم میں کیا کرتا ہے اور اس کی جنسی پرفارمنس کیسی ہے یا وہ ایک ساتھ کتنوں کے ساتھ سوتا ہے“

یہ سب معاملات ہر انسان کا انتہائی نجی معاملہ ہوتے ہیں اور ان کے متعلق کسی کو بھی فکر مند ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرنی چاہیے، ہاں اگر اس کی نجی زندگی اس کی پبلک ڈیلنگ پر اثر انداز ہوتی ہے تو کھل کر تنقید ہونی چاہیے۔ مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے ہم نے تقریباً چار سال تک اس بندے کے منہ سے ریاست مدینہ کی گردان، ایاک نعبدو جیسے متبرک الفاظ، فلسفہ رومی و اقبال اور نہی عن المنکر جیسے بلند و بانگ دعوے متواتر سنے ہیں تو سننے کی مشقت جھیلنے والوں کا کچھ تو گلہ بنتا ہے۔ ہم مجسمہ پارسائی کے وہ الفاظ کیسے بھول جائیں یا نظر انداز کر دیں جو انہوں نے موٹروے پر ہونے والی جنسی درندگی کے تناظر میں کہے تھے کہ ”خواتین کے قابل اعتراض لباس کی وجہ سے ریپ ہوتے ہیں“ ۔ جب آپ اپنے علاوہ سب کو مجسمہ شیطان ثابت کر کے اور خود پر حاکمان نظام سے صادق و امین کی مہر لگوا کر عوام کی عدالت میں پہنچے ہوں تو خود کی ذات کو اوپر اٹھا کر رکھنا اور باقیوں کی غلاظتوں سے سے خود کو بچانا بھی آپ ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کسی اور کی نہیں، اور اگر آپ بھی ”پہلوں“ جیسے ہی نکلتے ہیں تو عوامی رسپانس کا سامنا تو کرنا پڑے گا اور جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔

خود کو آسمان سے ذرا نیچے رکھ کے پیش کرنے والے کو خود پر اٹھنے والی انگلیوں کا مقابلہ تو کرنا پڑتا ہے، بلند ظرف عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ماضی پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور رہنمائی کی غرض سے عوام کی عدالت میں آنے کے بعد محتاط روی اختیار کرتے ہوئے اپنا فرض نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ گھٹیا ظرف ”رہنما“ بننے کے باوجود بھی اپنے ماضی پر اترانے سے باز نہیں آتے اور اپنے اسی ”لوی ڈوی“ والے فیز میں مدہوش رہتے ہیں اور حال میں بھی اسی روش کا انتہائی ڈھٹائی سے دم بھرتے نظر آتے ہیں، اس قسم کے لوگ نہ تو اپنے ماضی میں سنجیدہ رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی لمحہ موجود میں سنجیدہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی زندگی کا مطمح نظر محض اپنی ذات کے گرد گھومنا یا طواف کرنا ہوتا ہے، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ایسے بندے ”سیلف پروکلیمیڈ یا سائیکوپیتھ“ بن جاتے ہیں۔ ہر قسم کی بلیک میلنگ اور اخلاقی پہرہ داری کی مذمت ہے لیکن نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آپ عوامی رہنما کا تاج اپنے سر پر سجا چکے ہیں، بچیوں کے کپڑوں کو ریپ کا ذمہ دار گرداننے والے رہنما کی اپنی اخلاقیات پر بھی تو سوال اٹھے گا؟ کم از کم خداوندان نظام و سیاست کی ذہنی لیاقت اور سطح بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے جو ”پک اینڈ چوز“ کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے محض وقتی مفادات کا دم بھرنے کے لیے کسی کو بھی نیچے سے اٹھا کر مذہبی چولا پہناتے ہیں اور عوام کے حضور میں پیش کرتے دیتے ہیں۔

حالانکہ اس قسم کے وقتی بندوبست میں بھی واضح ”ڈائیکاٹمی“ یا تضاد ہوتا ہے وہ اس وجہ سے کہ لانے والے سب کچھ جانتے ہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے منظر کو ”اسموک اسکرین“ کر دیتے ہیں چونکہ اسموکنگ گن طاقت وروں کے ہاتھوں کا کھلونا ہوتی ہے۔ بچ بچا کے عوام کے حصے میں آڈیو لیک جیسی گندگیاں رہ جاتی ہیں جن کے ذریعے ان کو تھوڑی بہت اپنے رہنما کے حقیقی چہرے سے آشنائی ہو جاتی ہے۔ ان سب نادانیوں کو بھی زندگی کا ”انتہائی پرائیویٹ“ حصہ گردانتے ہوئے نظر انداز کیا جا سکتا ہے مگر کس قیمت پر؟

بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود ڈلیور بھی کچھ نہ کیا ہو اور خود ستائی کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھے کا نام نہ لے رہا ہو تو پھر ہم جیسے سادہ لوح منظرنامہ کو کیسے نظر انداز کریں؟ دوسری طرف بے وقوفیوں اور لمبی لمبی چھوڑنے کا لامتناہی سلسلہ قسط وار چل رہا ہو تو بندہ کیا کرے؟ اخلاقیات کے اس بلند مرتبت نمونے نے گزشتہ دنوں ایک عجیب و غریب بات کر کے ایک بار پھر ورطہ حیرت میں ڈال دیا ارشاد فرماتے ہیں کہ ”کائنات کا سب سے کرپٹ شخص موجودہ الیکشن کمشنر ہے“

بڑے کمال کی بصیرت ہے، اہل ایمان شیطان کو سب سے زیادہ کرپٹ سمجھتے ہیں مگر سلسلہ عمرانیہ کے مرشد موجودہ الیکشن کمشنر کو سمجھتے ہیں۔ ہر کوئی کرپٹ ہے سوائے ”ٹرائیکا خان“ کے یا سلسلہ روحانیت کی تکون کے۔ چیف الیکشن کمشنر شاید مہاتما کی نظروں میں اس لیے بھی راندہ درگاہ ٹھہرا کہ وہ فارن فنڈنگ کیس کے دوران ان کی گرج دار دھمکیوں کے باوجود بھی ”در عمرانیہ“ پر ماتھا ٹیکنے نہیں پہنچا اور راز و نیاز کر کے معاملہ کو دبانے کی سعی نہیں فرمائی۔ مگر سرکار مبالغہ آ رائی میں بھی کچھ تو محتاط روی برتنی چاہیے

”مطلب پاکستان کا نہیں بلکہ کائنات کا سب سے کرپٹ شخص“

ویسے کمال کی فراست ہے اور بعید نہیں کہ کچھ دنوں میں ہمیں یہ بھی سننے کو ملے گا کہ ”مجھے پرویز الہی بھی دو نمبر ملا تھا“

اس کے علاوہ میری پارٹی کے تمام محمود و ایاز بھی جعلی نکلے حتی کہ وہ تمام ہنگامی بندوبست بھی جعلی نکلا جس کے کندھے پر سوار ہو کر آئے تھے ورنہ ایسے بھلا کیسے ہو سکتا تھا کہ فیض کے ہوتے ہوئے بھی کوئی بے فیض رہ جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کرشمہ فیض تھا ورنہ تقریباً 22 سال تک اکیلے سیاست کے خاردار میدان میں خاک چھاننے کے باوجود بھی عوام نے گھاس نہیں ڈالی تھی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments