داستان ”رانی کیتکی کی کہانی“ کا موضوعاتی مطالعہ
” رانی کیتکی کی کہانی“ انشاء اللہ خان انشاء کی طبع زاد داستان ہے جو انہوں نے 1803 میں لکھی۔ جب فورٹ ولیم کالج میں بہت زور و شور سے مختلف زبانوں کی قدیم داستانوں کا ترجمہ کیا جا رہا تھا یا پھر ان داستانوں کو اردو کا جامہ پہنایا جا رہا تھا۔ انشاء کے والد کا نام ماشاءاللہ تھا۔ ماشاءاللہ نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی۔ انشاء ہفت زبان اور مختلف علوم و فنون سے واقف تھا۔ انشاء اردو کے دوسرے شاعروں کی طرح محض ایک شاعر نہیں بلکہ اردو کے ارتقائی سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انشاء کا سب سے بڑا کارنامہ ”دریائے لطافت“ ہے اس کے علاوہ داستان ”رانی کیتکی کی کہانی“ جس میں عربی اور فارسی کا ایک بھی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ خالص ہندوستانی یا ہندوی زبان کی کہانی ہے۔ انشاء نے صنعت غیر منقوط میں ایک کہانی ”سلک گوہر“ بھی لکھی۔ آپ نے ایک ایسا قصیدہ بھی لکھا جس میں پورے کے پورے مصرعے عربی، فارسی، ترکی، پشتو، پنجابی، انگریزی، فرانسیسی اور اس زمانے کی تمام قابل ذکر زبانیں شامل ہیں۔
رانی کیتکی کی کہانی جس دور میں لکھی گی، اس وقت کے رواج کے مطابق کسی قدیم داستان کا ترجمہ تو نہیں ہے لیکن اس داستان میں جن موضوعات کو قلم بند کیا گیا ہے وہ نئے بھی نہیں ہیں بلکہ اس میں قدیم داستانوں کے موضوعات ہی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثلا: عشق و محبت، تہذیب و ثقافت، سماج اور سیاست، جنگ اور جدل، رقص و موسیقی وغیرہ کو باقاعدہ موضوع بنایا گیا ہے۔
” رانی کیتکی کی کہانی ایک عشقیہ داستان ہے اس میں رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کے محبت کی داستان بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر اس زمانے میں ایسی کہانیاں زیادہ مقبول ہوتی تھیں، جس میں کہانی کا ہیرو اپنے محبوب کے پیار میں فنا ہو جائے یا پھر کامیاب ہو جائے۔ اس کہانی میں بھی یہی ہوا ہے۔ اس کہانی کا ہیرو اودے بھان رانی کیتکی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اسے ابتدا میں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ تمام مشکلات کا جوان مردی کے ساتھ سامنا کرتا ہے۔ بالآخر دونوں کا ملاپ ہو جاتا ہے اور کہانی اختتام کو پہنچتی ہے۔
’رانی کیتکی کی کہانی‘ میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بہترین عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ انشاء نے اس کہانی میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو پیش کرنے کے لیے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ پوری طرح ہندوستانی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انشاء نے اس کہانی کو لکھنے سے پہلے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا بھرپور مطالعہ و مشاہدہ کیا تھا اور اپنے تجربات کی روشنی میں اس کہانی کو تخلیق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’رانی کیتکی کی کہانی‘ میں جا بجا ہندوستانی تہذیب صاف طور پر نظر آتی ہے۔ اس کہانی میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت، ان کے رہن سہن، ان کی عورتوں اور مہارانیوں، راجکماریوں کے انداز گفتگو، شادی بیاہ کا ذکر، گنگا جمنا، چند، ٹیکا، ان کی بولی ٹھٹھولی وغیرہ کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔
داستان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم ہندوستانی سماج میں بھی سیاست کا عمل دخل بہت تھا۔ اس عہد میں بھی طبقاتی امتیازات کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ ہندوستانی سماج میں اس وقت بھی ذات پات، اونچ نیچ اور بھید بھاؤ کے بندھن میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کہانی میں اعلی اور ادنیٰ طبقے کے افراد کے رہن سہن، بول چال اور سماجی حیثیت میں نمایاں فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس سماجی تفریق کو انشاء اللہ خان انشاء نے بہت اچھے ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔
جب راجہ سورج بھان اپنے بیٹے کنور اودے بھان کے لیے راجا جگت پرکاش کی بیٹی رانی کیتکی کا ہاتھ مانگنے کے لیے ایک برہمن کو اس کے پاس بھیجتے ہیں تو راجہ جگت پرکاش بڑی حقارت سے انہیں دیکھتا ہے اور راجہ سورج بھان کے تئیں بہت سخت جملے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح انشا نے دوسرے سماجی اور سیاسی مسائل کو بھی اس کہانی میں بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
بیشتر داستانوں میں راجا مہاراجہ ہی کو موضوع بنایا گیا ہے اور جہاں راجا مہاراجہ ہوں گے وہاں پر جنگ و جدل کا ہونا لازمی ہے۔ اس داستان میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ جب اودے بھان اپنے ماں باپ سے رانی کیتکی سے شادی کرنے کے لیے کہتا ہے تو اودے بھان کا باپ سورج بھان کہتا ہے کہ اگر رانی کیتکی کے ماں باپ آسانی سے تمہاری بات مان گے تو وہ ہمارے سمدھی اور سمدھن ہو جائیں گے اور دونوں راج بھی ایک ہو جائیں گے اور اگر نہیں مانیں تو چاہے تلوار یا ڈھال کے بل پر تمہاری شادی کرنی پڑے، لیکن تمہاری دلہن رانی کیتکی ہی بنے گی۔
جب سورج بھان رانی کیتکی کے گھر ایک برہمن کو اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے بھیجتا ہے تو رانی کیتکی کا باپ اس برہم کو دھتکار کر واپس بھیج دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کا ہمارا مقابلہ نہیں ہے۔ اس کے باپ دادا ہمارے قدموں میں رہا کرتے تھے۔ برہم واپس آ جاتا ہے اور پورا ماجرا سورج بھان کو سناتا ہے۔ برہم کی باتیں سن کر سورج بھان کو غصہ آ جاتا ہے اور وہ رانی کیتکی کے باپ سے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے اور دونوں مہاراجوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے
جنگ و جدل کے علاوہ اس کہانی میں مہمان نوازی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے جب اودے بھان جنگل میں رات کے وقت سہارا تلاش کر رہا ہوتا ہے تو ایک طرف امریوں کے پاس لڑکیوں کا جھنڈ نظر آتا ہے۔ رات گزارنے کے واسطے ان کے پاس جا کر کہتا ہے کہ بھٹک گیا ہوں سہارا چاہے تاکہ رات گزار سکوں۔ پہلے تو کافی نا، نوں ہوئی لیکن پھر رہنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی تمام چیزیں بھی دی گئیں۔
داستان رانی کیتکی کی کہانی میں ان بیان کردہ موضوعات کے علاوہ بھی موضوع، عورتوں کے نکھرے، پردے کا اہتمام، بادشاہوں کی نفسیات، والدین کی محبت، مذہب کا پرچار وغیرہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ داستان مختصر لیکن اپنے لوازمات کے اعتبار سے داستان کہلانے کی مستحق ہے۔
- ”سرخ رنگ“ کا تجزیاتی مطالعہ - 04/01/2025
- موپاساں کے افسانہ ”بدنصیب روٹی“ کا کرداری مطالعہ - 22/03/2024
- رول نمبر چار سو بیس - 10/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).