نکاح، ہیٹر اور گیزر


نکاح ایک معاہدہ ہے، ہمارے سماج میں نکاح کو مقدس بھی مانا جاتا ہے اور دینی فریضہ بھی۔ النکاح من السنتی۔ نکاح سنت ہے۔ یعنی فرض نہیں ہے لیکن بہر حال انسان کی فطری خواہشات کو پورا کرنے کے لئے مہذب طور و سماجی ذمہ داری ہے جو دو انسان مکمل رضامندی کے ساتھ سب کے سامنے یا چند قریبی رشتے دار و دوستوں کے سامنے قبول کرتے ہیں۔

مشہور شخصیات کے نکاح و شادی کی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس میں پھیل جاتی ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے جب بھی کسی مشہور شخصیت کے نکاح کی خبر آتی ہے، سوشل میڈیا پر عوام الناس یاوہ گوئی شروع کر دیتے ہیں۔ لغویات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے، اور اس سلسلے کے ذریعے یہ اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر معاملے کی طرح ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی نکاح و ازدواجی تعلقات کے معاملے میں بھی کورے و بد تہذیب ہیں۔

نکاح کو مقدس بندھن بھی کہتے ہیں اور کسی کے نکاح کو صرف اور صرف جنسی فعل سے جوڑ کر ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مشہور شخصیت کی شادی کی تصاویر میڈیا میں نظر آنے کے بعد لاتعداد بے ہودہ جملے و سطور سوشل میڈیا پر نظر آئے، سر فہرست یہ جملہ تھا
”خاتون نے سردیوں کے لئے ہیٹر کا انتظام کر لیا“

افسوس کا مقام یہ ہے کہ جملہ کئی خواتین بھی لکھتی رہیں، اس سے پہلے جب مذکورہ خاتون کی شادی ہوئی تھی تو گیزر والے کئی لطائف و فحش جملے بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے تھے اور اب بھی یہی بد تہذیبی و بدتمیزی و بد گوئی نظر آتی رہی۔

انسانی نفسیات و شعور کے نظریے سے دیکھا جائے تو ساتھی کی خواہش ہر انسانی کی فطری جبلت میں شامل ہے اور شادی ایک ایسی کیمپین شپ کا نام ہے، جو اگر محبت سے شروع ہو تو شکل و صورت، عمر اور جنس کی ثانوی حیثیت رہ جاتی ہے۔

ہم سفاکیت کی حد تک خود غرض لوگ ہیں، لوگ خود تو عام سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں، گھریلو ہیں، لیکن خود نمائی و مشہوری کے لئے نہ صرف اپنی بلکہ پورے خاندان کی تصاویر شیئر کرتے رہتے ہیں۔ بزرگوں کی برسیاں بھی دہراتے رہتے ہیں فاتحہ کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔ بیماری کی حالت میں، سالگرہ کی صورت میں، سیاحت کی صورت میں، حتی کہ کھانے پکانے کی صورتحال میں بھی اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں لیکن دوسرے انسان کی خوشی برداشت نہیں ہے، اور اگر وہ انسان کوئی ”عورت“ ہو پھر تو وہ وہ تاویلات سامنے آتی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ لوگ دوسرے فرد کے معاملات میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں کہ فحش کلامی پر اتر آئے ہیں۔

اگر کوئی انسان اپنی فطری خواہشات کی تکمیل کے لئے نکاح کر رہا ہے تو اعتراض چہ معنی دارد ہے، یعنی خود تو اپنے پارٹنر کے ساتھ رہو دوسرا انسان تنہائی بھگتے؟ یہ تو صریح نا انصافی ہے کہ کوئی انسان دوسرے فرد کی تنہائی پر خوش ہو، لیکن ہم واقعی ظالمین میں سے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیات میں بھی ان لوگوں کو ظالمین کہا گیا ہے جو میاں بیوی میں جدائی کرنے کی کوشش کریں یا کسی کے نکاح میں رکاوٹ ڈالیں۔

ویسے تو سب کہتے اور لکھتے رہتے ہیں کہ ”عورت“ تنہا نہ رہے شادی کر لے، اور جب کوئی عورت اپنی شادی کی تصاویر شیئر کر دے تو اعتراضات کی پوٹلی کھول لیتے ہیں۔

گویا ہم صرف باتیں بنانے اور بیڈ جوکس شیئر کرنے کے شوقین ہیں۔ باعمل مسلمان بننے اور خود کو ایسا کہنے میں بہت فرق ہے۔ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ازدواجیات اور سماجی تعلقات کے مضامین کو شامل نصاب ہونا چاہیے تا کہ آنے والی نسلیں مہذب طور پر پرورش پا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments