افغانستان اور غالب کے زود پشیماں


امریکہ کا 2 عشروں پر محیط قیام افغانستان، جہاں افغانستان میں کم و بیش دو لاکھ انسانی جانوں کی ہلاکت کا باعث بنا وہیں تقریباً تین کروڑ کی آبادی میں تقریباً چالیس لاکھ افغان اندرون ملک در بدر ہوئے اور ایک اندازے کے مطابق ستائیس لاکھ افغان اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ سعادت حسن منٹو کے ”چچا سام“ نے اس مہم جوئی میں مجموعی طور پر 2۔ 26 ٹریلین ڈالرز جھونک دیے۔ اگر ڈالر میں ہی حساب لگایا جائے تو چچا سام نے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا ڈالرز میں۔

ستمبر 2001ء کی ایک شام سے شروع اس چکر ویو نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، وہیں پاکستان پر اس بحران کے اثرات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ نائن الیون کے محض چھبیس روز بعد امریکا نے افغانستان کی راہ لی اور بلا آخر اپنی آمد کی بیسویں برسی سے قبل افغانستان سے انخلا کیا۔

ابھی کل کی بات ہے کے بردار اسلامی ملک افغانستان میں، برادران طالبان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ پر بحال ہوئے۔ سفید و سیاہ، جبہ و قلاہ، ریش مبارک پر داڑھی مونچھ کا تیل لگائے سفید پرنہ (سفید کپڑا) کندھوں پر لئے غازی جب ملکی معاملات چلانے کو منظر پر آئے تو ہم یاروں نے محفل میں تالیاں پیٹ پیٹ، ہتھیلیوں سے لکیریں تک مٹا دیں۔ ابھی ہمارے سرور کا وہ مقام بھی کہاں آیا تھا کہ ہم ہا و ہو میں مست اس لمحے کی سرمستی پر غزل کہتے، قہوہ ٹکراتے اپنے ہونٹوں کو اپنی انگلیوں سے چھوتے، اور بھائیوں کی فتح مبین پر انہیں غیبی فلائنگ کس ( ہوائی بوسہ) دیتے کہ بھائیو دل ٹھنڈا کیتا جے۔

ابھی تو اس طویل صحرائی سفر سے واپسی پر ہم نے ایک دوسرے کا گرد سے اٹا چہرہ دھلے ہوئے بھی نہ دیکھا تھا، ابھی دوران سفر آنکھ میں اٹے ریت کے ذرے ایک دوسرے کی آنکھوں میں پھونک مار کر نکالنا باقی تھے کہ ملن کے کیف کا لمس لیے بغیر وچھوڑے ( جدائی) نے دروازے ہی پاٹ لیے۔ یہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کب ہوا، کچھ معلوم نہیں۔

وہ جن کے آنے سے ہم نے خود کو مکمل جانا تھا، رقص کیا تھا، جوش میں شرٹ کے ٹچ بٹن توڑے تھے، وہ جن کے آنے سے مکمل ہو گئی تھی زندگی، اب ان کے ہونے سے ہمیں اپنی بقاء کا خطرہ کیوں لاحق ہے؟ ایسے کچھ سوالات اور ان کے جوابات میں مزید کچھ سوالات ہمارے آنگن میں اس موسم میں بھی ہریالی کیے ہوئے ہیں۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے قرب میں جوار کی کاشت ہو اور ہم فصل کاٹنے نہ پہنچیں۔ ہم قرب و جوار کی شادی میں عالمی شہرت یافتہ ”عبداللہ دیوانے“ ہیں۔ گویا سرد جنگ کی اٹھان سے نو مولود مملکت خداداد نے ہر بیگانی شادی میں ”دیوانے عبداللہ“ بہتات میں پیدا کیے نہ صرف پیدا کیے بلکہ رقص کی مفت تعلیم ریاست نے اپنی اولین ترجیح بنائی اور خوب نبھائی۔ پڑوسی ملک بھارت، شروع دن سے گھاگ پالیسی پر مامور تھا، پالیسی تھی ”نان الائن موومنٹ“ ۔ غنیم نے ”نان الائن موومنٹ“ کو اپنا کر بھی ہم سے مڈبھیڑ میں عسکری مدد امریکہ، فرانس، برطانیہ اور روس، گویا سب سے لی۔ ہم تب سے نیوٹرل ہونے اور نہ ہونے کے بیچ جھول رہے تھے۔

تب ہم نے فیصلہ کیا، فیصلہ تھا، بھیا ہم نا ہوں گے نیوٹرل، جب کیا ہے پیار تو نبھانا پڑے گا ’تم نہ بھی بلاؤ تو ہمیں مروت میں آنا پڑے گا‘ ۔ ہم نے تب روس کو گرم پانیوں سے روک، خود جولائی میں، امریکی چشموں میں نہانے کی ٹھان لی اور تب سے آج تک ہم نہا رہے ہیں مگر امریکی صابن کی تہہ کندھوں پر ایسے جم گئی ہے کہہ صبح و شام کے مسلسل غسل سے بھی یہ تہہ اتر نہیں رہی۔ گویا ہمارے ساتھ سرد جنگ سے ہی ”پرینک“ ہو رہا ہے اور ہم کیمرے میں ہاتھ ہلا رہے ہیں۔

جاتی بلا کو بغل گیر کرنے اور ہر جگہ سینگ اڑا کر کشور کشائی کرنے اور ہمیش لا ابالی میں رہنے کا ثمر ہم نے آخر پایا اور خوب پایا۔ ملکی سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کی بجائے ہم نے بیرونی لڑائی درآمد کر لی۔ ملک میں بد امنی کے سائے چھائے، تقریباً ساٹھ ہزار انسانی جانوں کو الوداع کیا، بلین ڈالرز کا نقصان اٹھایا، ملکی ساکھ تباہ کی، بے یقینی کی فضا ادھار لی، ملک کا تماشا بنایا اور آخر میں نفس مطمئنہ سے صدا دی اور یہ مثال فٹ کی ”کوئی نی سر سلامت ہے تو ٹوپیوں کی کب کمی ہے“ ۔ سب اچھا ہو جائے گا راوی چین ہی چین لکھے گا اور اگر نہیں لکھے گا تو لکھوا لیا جائے گا۔ مسئلہ نہیں!

افغانستان کی موجودہ صورت نے پورے خطے پر سموگ کے بادل نمایاں کر دیے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری اور دل کا دھڑکا ایک ہا ہا کار برپا کیے ہوئے ہے۔ طالبان حکومت بننے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ جس غیر ملکی مسلح گروہ کا ہوا ہے وہ تحریک طالبان پاکستان ہے۔ حال ہی میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں سے تقریباً ایک سو پچاس سے زائد پاکستانی سیکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ مسلح گروہ کی کارروائیاں سرحدی علاقوں سے نکل کر خیبر پختون خوا کے اندورنی اضلاع تک پھیل گئی ہیں۔

آئے روز یہ طاقت کے متوالے سیکیورٹی اہلکاروں پر شب خون مار رہے ہیں۔ بنوں چھاؤنی میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے پوچھ گچھ مرکز میں زیر حراست ٹی ٹی پی کے انتہائی تربیت یافتہ ملزموں نے تفتیشی عملے کو ہی یرغمال بنا لیا۔ موجودہ حالات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں تحت لاہور کی سرفرازی میں پسینہ بہا رہی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کا باقی ماندہ زور وزارتیں بانٹنے اور مشیران بڑھانے میں صرف ہو رہا ہے۔ معلوم یوں ہوتا ہے کے موجودہ وزیر اعظم مبلغ کلو ’گراٹو جلیبی‘ کی نگرانی میں ایک بٹالین تعینات کرنے کے درپے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک وزرات کا اختراع وہ یوں بھی کریں کے کوئی تو ہو جو ان کو پریس کانفرنس میں مشکل الفاظ کے معانی بتائے۔

کابل میں منسٹری آف ہائر ایجوکیشن کی جانب سے خواتین اور بچیوں کی اعلیٰ تعلیم پر تا حکم ثانی پابندی عائد کر دی ہے۔ منسٹری کا کہنا ہے کہہ بس بہت ہوا، اعلیٰ تعلیم ہماری اقدار کے خلاف ہے اور گھر داری میں نہج حاصل کرنا وقت کی نزاکت کے ع مطابق ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان سابقہ رجعت پسندی چھوڑ دیں گے، ان کے ہاتھ میں اب اینڈرائڈز ہیں، اچھی گاڑیاں ہیں جدید آلات ہیں، اب طالبان آگے کا سفر کریں گے ناکہ پیچھے کا۔ مگر جو ہوا اور ہو رہا ہے اس سے چودہ تو ہو چکے پندرہواں طبق روشن ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان لگ بھگ دو ہزار چھے سو ستر کلو میٹر کی سرحد افغانستان سے جوڑے ہوئے ہے۔ ایسے میں وہاں کی بدلتی صورت حال یہاں کیا کیا لائے گی یہ وقت بتائے گا مگر ہماری مختصر وضاحت یہی ہے کے سیکیورٹی رسک کو قابو میں رکھنے کی ہماری کوئی تیاری نہیں ہے۔ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر براجمان ہوئیں، قائداعظم ثانی ( موجودہ عمران خان صاحب) بھی پش آپس لگانے کے بعد نیشنل ایکشن پلان میں حکومت کے ساتھی بنے۔

عسکری اداروں اور حکومت نے آہنی ہاتھ راجہ بازار ”لوہار بازار“ سے بنوائے اور نکل پڑے شدت پسندوں سے نمٹنے۔ سفر 6 سال جاری رہا نتیجہ نکلا، ہم نے شدت پسندوں کی کمر ”آہنی ہاتھوں سے ننانوے فیصد تک توڑ دی ہے“ ۔ باقی ایک فیصد کمر اس لیے چھوڑ دی گئی ہے کہ مبادا شدت پسند رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد اولاد نرینہ سے مرحوم نہ رہیں۔ یہ فیصلہ بھی ایک پیج پر ملت کے وسیع تر مفاد میں قرین قیاس کیا گیا۔ وہی ایک فیصد ہے جو اب فراوانی میں بٹ رہا ہے اور امکان ہے کہ یہی ایک فیصد ہم جیسوں کو بھی اپنے ریوڑ کی گلہ بانی کے لیے مزارع رکھ لے۔

معلوم یوں ہوتا ہے کہ ہم نے نحوست کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم ہم نے خوب نبھا لی ہے اور آئندہ بھی ہماری خندہ پیشانی مایوس قطعاً نہیں کرے گی۔ معاشی اور سیاسی کینڈی کرش ایک طرف اب سیکیورٹی چیلنج بھی جوبن پر ہے۔ معروضی حالات پر غور کیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے مدارس اور دینی نصاب میں جو (نفرت انگیز) مواد تبدیل کرنے کا فیصلہ نیشنل ایکشن پلان کے چیدہ نکات میں کیا گیا تھا وہ عزم کہیں پیچ دار راستے میں کھو گیا ہے اور نفرت کا بازار مدارس و مساجد سے بھڑ کر معاشرے میں ضم ہو گیا ہے۔ ملکی درس گاہیں قومی مکالمے میں مفاہمت کی بجائے نفرت، عناد اور ضد کا پرتو بن چکی ہیں۔ سیاسی میدان کفر و باطل کا میدان بنا لیا گیا اور ملک کا کوئی گھر، محلہ یہ طبقہ شاید ہی اس آگ کی لپیٹ سے استثناء میں ہو۔

وقت اس بات کا بھی پتہ دیتا ہے کہ غالباً ہم نے مثبت اور تعمیری سوچ سے ”دو فٹ کا سماجی فاصلہ“ کر لیا ہے۔ کوئی بہتر خیال چشم خیال سے نہ گزرے اس کے لیے ہم نے ایسے خیال کی راہ کو بیس سیکنڈ تک رگڑ کر ختم کر دینے کا عہد کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments