ادریس قریشی


ادریس قریشی اپنی ذات میں انجمن ہیں لیکن کہتے ہیں بعض ادیبوں کا ایک شعر ان کے باقی تمام کام کے سامنے دیوار بن کر بلکہ آہنی دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔

ہمارا دل تمہاری ہی محبت کے لیے ہے
مگر یہ پیش کش محدود مدت کے لیے ہے

ہم سے ان کا تعارف خوشاب کے ایک مشاعرے میں ہوا جہاں وہ باقی شعراء کے ساتھ پھیکی شاعری پڑھنے یعنی مزاحیہ شاعری پڑھنے تشریف لائے تھے۔ ایک ملاقات ہی دوستی میں بدلنے کے لیے کافی تھی۔ آپس میں نمبر شیئر کیے گئے اور فیس بک پر دوستی قائم ہو گئی۔ ہم بھی بے وزن شاعری کرتے تھے اور ابھی بھی کرتے ہیں تو ہم نے اپنی قافیہ و ردیف پیمائی ان کو دکھائی جو انھوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے تولنے کے بعد با وزن کر دی لیکن ان کی اس مہربانی کا ہم پر یہ اثر ہوا کہ ہم مزید بے وزن لکھنے لگے کیوں کہ شاعری ایک نازک صنف ہے، جب تک اس کو سیکھا اور ریاض نہ کیا جائے تو آپ اس سے دور رہیں۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شاعری کوئی پیدائشی مرض ہوتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کوئی بھی ایسا مرض پیدائشی نہیں ہو سکتا کیوں کہ زبان پہلے سیکھی جاتی ہے پھر بولا جاتا ہے پھر شاعری ہوتی ہے اور اس کو بعد میں گایا جاتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ کسی بھی شخص میں اپنے خیال کو دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کی کتنی طلب ہے جو محرک بنتی ہے اس کو سیکھنے اور سمجھے کی۔ ادریس قریشی کہیں پیچھے رہ گئے اور ہماری شاعری آگے نکل گئی۔ ادریس قریشی ہمارے نزدیک ’عروضی شاعر‘ ہیں۔ ان کو عروض پر مکمل دست رس حاصل ہے۔ وہ کوئی بات بھی با وزن کہ سکتے ہیں اور لکھ سکتے ہیں۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ وہ ہنستے بھی اور روتے بھی با وزن ہوں گے اور آواز آتی ہو گی ’فعولن فعولن فعولن‘ ۔

ادریس قریشی کا تعلق درس و تدریس سے ہے، اس لیے ان میں تمام استادانہ مرض بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ جہاں بیٹھتے ہیں وعظ دینا نہیں بھولتے۔ ’غلط اور درست کیا ہے اور آپ کو کیا رویہ اپنانا چاہیے‘ ان کے بہترین اور پسندیدہ موضوعات ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے سب سے پہلے بچوں کا ادب لکھا اور بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کی کوشش کی اور اپنی کتاب ’چچا حیرت‘ ، ’چکی والا فوارہ‘ لکھی جن کو بچوں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا اور پڑھ کر ان کو خوب داد دی لیکن ان کی پند و نصائح پر کوئی عمل نہ کیا لیکن کتابیں بک گئیں جو ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

آپ بیش تر بڑے رنگین کپڑے پہنتے ہیں۔ سرخ، طوطے کے رنگ کا سبز، پیلا، نیلا وغیرہ وغیرہ۔ مشاعرے میں جاتے تو ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتے جو انکل عرفی پہنا کرتے تھے اور کہتے رہتے تھے ’چقو ہے میرے پاس‘ ۔ قریشی صاحب پھندنے والی ٹوپی پہن کر بالکل مضحکہ خیز لگتے کہ لوگوں کو ان کی شاعری سننے سے پہلے ہی ان پر ہنسی آ جاتی اور لوگ کہتے نظر آتے کہ یہ کیا مخول ہے۔ اس طرح ان کا آدھا کام ہو جاتا۔ ہم نے بعض لوگوں سے کہتے یہ بھی سنا ہے کہ وہ مزاحیہ شاعر نہیں بلکہ ہجو گو ہیں اور جعفر زٹلی کے پیروکار لگتے ہیں۔

کہنے والے تو کچھ بھی کہتے رہتے ہیں ہم اس پر غور نہیں کرتے بلکہ چپ رہتے ہیں۔ قریشی صاحب بالکل دبلے پتلے سے ہیں۔ ان میں کوئی کرنٹ دوڑتا ہے۔ ایک منٹ میں ادھر اگلے منٹ میں کدھر۔ دبلا ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی عمر سے بہت چھوٹا لگتا ہے اور لوگ آپ کی غلطیوں سے در گزر کر لیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ابھی بچے تو ہیں۔

جناب ادریس قریشی ایک ادبی تنظیم ’مجلس فکر و فن‘ کے صدر بھی ہیں اور اس کے تحت اکثر مشاعرے اور دیگر ادبی پروگرام کراتے رہتے ہیں۔ ہم ان کے مشکور ہیں کہ ہماری تین کتابوں کی پذیرائی بھی آپ نے کرائی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں اور ان کے پاس فضول کام کرنے کے لیے بہت سا وقت ہے جس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اکثر ان کا سیکریٹری جنرل یا وائس پریزیڈنٹ کافی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جس کا فکر و فن سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا لیکن اس کو اپنی واہ واہ چاہیے ہوتی ہے جو اس تنظیم کے ذریعے پوری ہوتی رہتی ہے۔ ہم نے اس تنظیم کے کافی مشاعروں میں بھی شرکت کی ہے۔ ان مشاعروں میں منڈی بہاء الدین کے تمام شعراء شرکت کرتے ہیں۔ شاعر ہی شاعر کا سامع ہوتا ہے اس لیے یہاں پر شاعروں کو داد نہیں ملتی کیوں کہ شاعری کا ایک اصول ہے کہ دوسرا کوئی شاعر نہیں سوائے ہمارے۔

بقول غالبؔ
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

اس شعر میں غالبؔ نے کسر نفسی سے کام لیا ہے کہ اور شاعروں کو کم از کم مان تو لیا ہے لیکن منڈی بہاء الدین کے شاعر کیوں کہ غالبؔ سے بڑے شاعر ہیں اس لیے وہ دوسرے کو شاعر ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔

لیکن ادریس قریشی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ’مزاح محبت‘ اور ’لے جا سخیا‘ کے بعد ان کا شاعری میں تیسرا پڑاؤ کس جگہ پر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments