افریقی ایشیائی اتحاد: آزاد بلاک کے خواب کو ڈسنے والے آستین کے سانپ


پچھلے برس دنیا میں عمران خان کے ”ایبسولوٹلی ناٹ“ کے نعرہ کی گونج میں جو پاکستان پہ بیتی وہ میرے سامنے ساٹھ کی دہائی میں انڈونیشیا کے سوئیکارنو کی دھتکار ”جہنم میں جائے تمہاری امداد“ اور ایوب خاں کے ”فرینڈز، ناٹ ماسٹرز“ کی للکار لے آئی۔ اور ساٹھ کی دہائی میں استعماری چنگل سے نکلنے کوشش کرنے والے اکثر ممالک کے رہنماؤں کا انجام نظروں میں گھومنے لگا۔ کہیں بالکل اپنے، مگر کرسی اور اقتدار کی خاطر ملکی مفاد بیچ جانے والے نظر پڑے، اور کہیں دوسروں کے ہاتھوں یکے بعد دیگرے تھوڑے عرصے میں ہی کٹتی گردنوں اور گرتی حکومتوں اور زندان خانوں کے کھلتے دروازے یا آئے۔ یہ پرانی کہانی نئے آنے والوں کے ہاتھوں مدفون کی جا چکی۔ مگر یہ اپنے سامنے گزرے واقعات کی کہانی ہے۔ میری اکیس برس کی عمر کے بعد کی داستان ہے۔

پچھلی آٹھ دہائیوں میں تاریخ کے اوراق بے شمار صفحے پلٹ چکے۔ جنگ عظیم دوم سے قبل دنیا کے بہت سے ممالک بلکہ خطے استعماری طاقتوں کے چنگل میں پھنسے آزادی کی سانس کی آس میں تگ و دو کرتے جئے جا رہے تھے۔ جنگ عظیم کا عظیم احسان کہ استعماری طاقتوں، انگلینڈ، پرتگال، سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، روس وغیرہ کا بھرکس نکل چکا تھا۔ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے آزادی کی تحریکیں ہر محکوم قوم میں اتنی آگے نکلیں کہ رفتہ رفتہ، باری باری، تمام مقبوضات کو آزادی دینے کا سلسلہ جنگ کے فوری بعد شروع کرنا پڑا۔ پچاس کی دہائی کے اواخر تک شمالی افریقہ، مشرق وسطی کے بیشتر ممالک، انڈونیشیا، برصغیر ہند و پاکستان کلی یا جزوی آزادی حاصل کر چکے تھے۔ رہے سہے اکثر، ساٹھ کی دہائی میں اپنے آزاد پرچم لہرا چکے تھے۔

فرانس پر دوسری جنگ عظیم کے ہیرو مرد آہن کہلانے والے جنرل ڈیگال کی حکومت تھی۔ ایک طرف وہ امریکہ روس کی سرد جنگ میں نو آزاد ملکوں میں ان دونوں کی اپنے مفاد کے لئے جوڑ توڑ سے تنگ تھے تو دوسری طرف امریکہ برطانیہ کی طرف سے فرانس جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پر بھی اپنی مرضی ٹھونسنے اور تھانیداری دکھانے پر سر عام نالاں بھی۔ ان سے متنفر بھی تھے اور ان کے چنگل سے نکلنے کے لئے کوشاں بھی۔ جنرل ڈیگال کی حکومت اپنی نو آبادیوں میں پہلے ہی نرم رویہ اختیار کر چکی تھی اور مقامی لیڈروں کو حکومت میں کچھ نہ کچھ نمائندگی مہیا کر دی تھی۔

پانچ جولائی انیس سو باسٹھ کو الجزائر کو فرانس سے آزادی ملی تو احمد بن بیلا پہلے وزیر اعظم اور اگلے سال پندرہ ستمبر سے بحیثیت صدر سربراہ بنے۔ آزادی کی جنگ میں طویل جدوجہد کرنے والا یہ مجاہد لمبی قید، جلاوطنی وغیرہ اور آزادی کی جدوجہد کا روح رواں ہونے کے باوجود جنرل ڈیگال کی بھی نظروں میں تھا اور وہ اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ اور الجزائر کی آزاد حکومت سے خوشگوار تعلقات کی پالیسی پر گامزن بھی۔ آزادی کے فوراً بعد ہی بن بیلا کے اقدامات سے ظاہر ہونا شروع ہو گیا کہ وہ افریقی ملکوں کے اتحاد اور اس اتحاد کی لیڈر شپ کے خواہش مند ہیں وہ مسلم ممالک کا اتحاد کرانا چاہتے ہیں۔ وہ افریقی ایشیائی اتحاد کے لئے کوشاں ہیں۔

اب پتہ نہیں امریکی و روسی پالیسی سے شدید اختلاف رکھنے والے جنرل ڈیگال کی پھونکی تجویز تھی یا بن بیلا کا اپنا خواب تھا کہ امریکہ روس کے اثر سے آزاد افریقی ایشیائی اتحاد یا بلاک بنایا جائے تا یہ ممالک بطور خود ترقی کی اور حقیقی آزادی کی راہوں پر گامزن ہو سکیں۔ بہر حال ڈیگال کی بظاہر لاتعلقی کے اظہار کے باوجود واضح تھا کہ اس کوشش میں ڈیگال کی مکمل پشت پناہی اور ہلا شیری بن بیلا اور اس کے ہم خیال بنتے افریقی ایشیائی رہنماؤں کو حاصل تھی۔

جلد ہی بن بیلا کو افریقہ میں گھانا کے نکرومہ۔ گنی کے سیکو طورے ( شاید شیخ طور ہو ) ۔ نائیجیریا کے الحاج ابوبکر توفا بیلاوا۔ انڈونیشیا کے سوئیکارنو اور پاکستان کے ایوب خان کی سرگرم حمایت حاصل ہو گئی۔ ایوب خان امریکہ کے دورے پر بہت ہی سرگرم استقبال کے باوجود امریکہ کے دوستانہ کی بجائے حاکمانہ رویہ سے بد دل ہو چکے تھے اور اشاروں کنایوں میں اس نتیجہ پر پہنچتے جانے کا احساس دلانا شروع ہو چکے تھے جو بعد میں ”فرینڈز، ناٹ ماسٹرز“ ( آج کا ایبسو لوٹلی ناٹ تو اس بھی سخت تھا ) کی صورت کتابی شکل اختیار کر گیا۔

ادھر چین کے چو این لائی بھی روس امریکہ کا زور توڑنے کے خواہشمند ہوتے پیٹھ ٹھونکنا شروع ہو چکے تھے۔ بن بیلا یوگو سلاؤ یہ کے مارشل ٹیٹو اور کیوبا کے چی گویرا سے بھی قریبی تعلقات استوار کر چکے تھے۔ باسٹھ کے اواخر سے پینسٹھ کے اواخر تک اور پھر کچھ اور عرصہ تک کے ان ممالک کے اخبارات کی فائلوں کو کوئی محنتی محقق چھاننا شروع کریں تو ان تمام لیڈروں کے آپس کے رابطوں، ملاقاتوں کی تفصیل سے یہ دفن شدہ کہانی سامنے آ سکتی ہے جو پاکستان کی طرح ان تقریباً تمام ممالک کی مسخ کردہ تاریخ سے، اور بہت سے حقائق کی طرح، خارج کی چکی اور اندھیروں میں سما چکی۔

جلد ہی احمد بن بیلا کے اس خواب کو لیبیا کے شاہ ادریس، مراکش کے شاہ حسن، اور چند مزید ملکوں کی خاموش حمایت حاصل ہو گئی۔ اور دن بدن اس کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ روس امریکہ کے ہاتھی جنگل میں اپنے شکار کو کسی اور پناہ ڈھونڈنے کو کیسے برداشت کرتے۔ ان کی ریشہ دوانیاں شروع ہو گئیں پیٹھ میں چھرا گھونپ سکنے والے آستین کے سانپوں کو دودھ ملنا شروع ہوا۔ اب وہ ہوا جو اس سے پہلے بھی ہوتا رہا اور اب تک ہوتا چلا آ رہا ہے۔

بن بیلا نے بالآخر ان تمام متفق ملکوں اور ساتھ کچھ دوسروں سے مشورہ کرنے اور امریکہ روس کے چنگل سے آزاد ایشیائی افریقی اتحاد کے بلاک کی بنیاد رکھنے کے لئے سربراہی کانفرنس الجزائر میں بلانے کا پروگرام بنایا۔ ابھی اس سلسلے میں فہرست، رابطے اور انتظامات ہی کا دور تھا کہ انیس جون انیس سو پینسٹھ کے دن بن بیلا کو اس کا معتمد ترین ساتھی اور وزیر دفاع حواری بومدین حکومت کا تختہ الٹتے ہی کسی تہہ خانہ میں قید تنہائی میں ڈال چکا تھا۔ آستین کا سانپ نہ صرف بن بیلا کا تختہ الٹ چکا تھا بلکہ یہ زہر لگا چھرا ایشیائی افریقی اتحاد اور آزاد بلاک کے خواب کو ملیا میٹ کر چکا تھا۔

ہاتھی کا غصہ اور انتقام اس تحریک کے بانیوں اور حامیوں، ہلکی یا تیز بہت تیز رفتار سے آگے جاتے ملکوں کے سربراہوں کو کیسے پڑا، انتہائی مختصر بیان کرنا چاہوں گا۔

موجودہ گھانا پہلے گولڈ کوسٹ کے نام سے جانا جاتا تھا انیس سو انچاس کے لگ بھگ داخلی خود مختاری سے انیس سو ستاون میں مکمل آزاد ہونے کے بعد کوامے نکرومہ سربراہ مملکت بنا۔ وہ ملکی آزادی کے لئے ایک طویل جدوجہد کر چکا تھا اور افریقی اتحاد کا سرگرم داعی ہوتے مغربی طاقتوں کی آنکھ میں کانٹا بن چکا تھا۔ بن بیلا کے ساتھ افریقی ایشیائی اتحاد کے آزاد بلاک کی تحریک کا سر گرم رکن بن چکا تھا۔ اس کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ انیس سو اکسٹھ میں ملکہ برطانیہ گھانا کے دورہ پر آئیں تو اس نے ملکہ کا ہاتھ پکڑے اس کے ساتھ ڈانس کر کے پوری دنیا میں شہرت حاصل کی تھی۔

گو اس کے خلاف ریشہ دوانیاں تو ستاون سے شروع تھیں مگر بن بیلا کا ساتھ کون برداشت کرتا۔ ستاون سے چھیاسٹھ تک اس پر چھ قاتلانہ حملے ہوئے۔ مگر بچ گیا۔ چوبیس اکتوبر انیس سو چھیاسٹھ کو چین کے دورہ پر تھا کہ اس کی اپنی فوج اور پولیس نے بغاوت کردی۔ اسے معزول کر دیا گیا۔ وہ پہلے مصر کو لوٹا اور وہاں سے اپنے دوست گنی کے سیکو طورے کی دعوت پر وہاں پہنچا اور علامتی نائب صدر کا اعزاز حاصل کیا۔ انیس سو بہتر میں کینسر سے وفات ہوئی۔

ہالینڈ کے مقبوضہ انڈونیشیا پر جنگ عظیم دوم میں جاپان نے قبضہ کر لیا تھا۔ جاپان کی شکست کے فوراً بعد ملکی آزادی کے لئے طویل جدوجہد کرنے والا لیڈر سوئیکارنو ہالینڈ کے دوبارہ قبضہ سے پہلے سترہ اگست پینتالیس کو آزادی کا اعلان کر چکا تھا۔ طویل جد و جہد کے بعد انیس سو انچاس ستائیس دسمبر کو ہالینڈ کو دعوے سے دستبردار ہوتے انڈونیشیا کے مکمل آزاد ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ فوری امریکہ معاشی مدد کو آیا اور حسب روایت پنجے گاڑنے اور قرضوں میں جکڑنا شروع کر دیا۔

سوئیکارنو کو ادراک تھا۔ ایک طرف اس نے کمیونسٹ ممالک چین روس سے تعلق بڑھاتے انیس سو باسٹھ میں امریکہ کو ”جہنم میں جائے تمہاری امداد“ کے تاریخی الفاظ کہے اور ساتھ ہی افریقی ایشیائی آزاد بلاک تحریک میں بن بیلا کا سرگرم ساتھی شمار ہونے لگا۔ فوری شورشوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ تیس ستمبر انیس سو پینسٹھ کو مغربی حمایت سے اٹھی فوجی بغاوت ہوئی۔ اس کی اپنی فوج کا جنرل سہارتو ماسٹر مائنڈ تھا۔  چھ جرنیلوں کے قتل کے بعد شورشیں بڑھتی گئیں۔

امریکہ کی پشت پناہی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ آخر گیارہ مارچ انیس سو چھیاسٹھ کو سوئیکارنو کے اپنے دست راست سمجھے جانے والے جنرل سہارتو نے اسے معزول کر کے خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ مگر سوئیکارنو کی عوامی مقبولیت کے باعث اس کی حمایت میں اٹھنے والی تحریکوں کے نتیجے میں مارچ سڑسٹھ میں اسے قائم مقام صدر اور اڑسٹھ میں صدر کا عہدہ دیا گیا گو عملاً وہ سوہارتو کے ہاتھوں میں یرغمال اور صدارتی محل میں نظر بند تھے۔ انیس سو ستر میں وفات پائی اور پابندیوں کے باوجود جنازے پہ پانچ لاکھ اور تدفین پہ دو لاکھ سے زائد کا مجمع تھا۔

یکم اکتوبر انیس سو ساٹھ کو مکمل آزادی حاصل کرنے والا ملک نائیجیریا اپنے انتہائی مدبر رہنما اور سربراہ حکومت الحاج سر ابوبکر تفاوا بلیوا کی قیادت میں ترقی کے سفر پہ گامزن تھا کہ بن بیلا کی افریقی ایشیائی اتحاد کے آزاد بلاک کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ سرگرم ہو گیا۔ اکتوبر پینسٹھ سے ہی ملک میں گڑ بڑ اور شورش اٹھنا شروع ہوئی۔ پندرہ جنوری چھیاسٹھ کو فوج نے بغاوت کی۔ الحاج ابوبکر کی لاش آٹھ روز بعد ایک ویران سڑک کے کنارے ملی۔ بعد میں اس ملک میں بدامنی اور حصے بخرے کا جو دور چلا، وہ عبرت ناک کہانی الگ ہے۔

لیبیا تین ٹکڑے ہوا۔ وہ انگلینڈ فرانس اور اٹلی کی عملداری میں تھا۔ ایک بہت دلچسپ اور دور اندیشانہ سفارت کاری جس کا سہرا پاکستانی وزیرخارجہ سر ظفراللہ کے سر جاتا ہے۔ مسلم دنیا میں پاکستانی وقار کو نمایاں مقام دلا گیا، انیس سو اکاون میں اسے کامل آزادی دلا گیا۔ انتیس سال سے مصر میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے شاہ ادریس سریر آرائے تخت ہوئے۔ تیل کی دولت نکلی تو ترقی کی رفتار بھی تیز ہوئی۔ اس دولت پر للچائی نظریں دیکھتے وہ بڑے محتاط انداز سے اس آزاد بلاک کی حمایت کرتے رہے۔ گو فعال نہ ہوئے۔ لہذا کچھ وقت مل گیا۔ یکم ستمبر انیس سو انہتر جب وہ علاج کے لئے ترکی میں تھے، ستائیس سالہ کرنل قذافی نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ شاہ پھر جلاوطنی میں چلے گئے۔ یہی قذافی جب اپنے ان ہی آقاؤں کی نظروں سے گرا تو چند سال قبل کے عبرت ناک مناظر تاریخ کا حصہ بنا گیا۔

انیس سو اکاون سے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف اور بعد میں ساتھ ہی وزیر دفاع کا عہدہ رکھنے والے ایوب خاں کو انیس سو اٹھاون میں میجر جنرل اسکندر مرزا نے حکومت برطرف کرتے مارشل لا نافذ کرتے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ تین ہفتہ بعد ہی ایوب خان نے اپنے پرانے ساتھی، ملکی سربراہ اور محسن کو برطرف کرتے خود ملک کی کمان سنبھالی اور اسکندر مرزا جلاوطن ہو گم نامی میں جا بیٹھے۔ لیاقت علی خان کے وقت سے ہی پاکستان امریکہ کی گود میں بیٹھ چکا تھا۔ سیٹو، معاہدہ بغداد وغیرہ کے ہار بھی تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں دورۂ امریکہ میں ان کی بے مثال پذیرائی اور عزت افزائی ہوئی تھی۔ تاہم واپسی کے جلد بعد ہی انہیں امریکی محبتیں گلے کی زنجیریں اور ملک کے مستقبل کے لئے تباہ کن نظر آنے لگیں۔ اب وہ بھی بن بیلا کے ساتھ آزاد بلاک کی مہم میں انتہائی سرگرم ساتھی بن گئے۔ اسی دوران ”فرینڈز، ناٹ ماسٹرز“ کے کتابی عنوان کا غلغلہ اٹھا۔ اٹھارہ جنوری انیس سو پینسٹھ کے نیو یارک ٹائمز میں پاکستان کی شرح نمو امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ قرار دی گئی۔

تاہم ”فرینڈز، ناٹ ماسٹرز“ اور بن بیلا کا ساتھ دینے کے اچار کا سواد شروع ہو چکا تھا۔ ملک نو اپریل انیس سو پینسٹھ سے رن آف کچھ، پانچ اگست سے کشمیر اور چھ ستمبر سے انڈیا کے ساتھ بھر پور جنگ میں کود چکا تھا یا دھکا دے پھینکا گیا تھا۔ تاہم محض خدائی فضل اور جاں فشاں فوج کی بہادری سے ملک اس انجام سے بچ چکا تھا جس کی توقع اس جنگ سے تھی۔ ایوب خاں سے چھٹکارا نہ ہوا۔ تب اچانک مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب اپنے مطالبات لے کر اگرتلہ سازش تک پہنچے اور ادھر وزیر خارجہ بھٹو ( امریکہ سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ) کچھ بدلے بدلے رہنے لگے۔

روس کی کوشش سے ہونے والے تاشقند مذاکرات بہانہ بنے۔ یہ مذاکرات ادھر شاستری جی کی جان لے گئے اور ادھر بھٹو صاحب کے ہاتھ بوری بند تاشقند کی بلی پکڑا گئے۔ جس کے پاس تاشقند کا کوئی خفیہ معاہدہ تھا۔ اور ہر جلسہ میں تاشقند کے راز کا چرچا ہوا۔ گو آج تک وہ بلی باہر نہ آئی تاہم بھٹو اس ایوب خاں کو  گدی سے اتروانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ گو ایوب خان سترہ اکتوبر انیس سو انہتر کو استعفے دے کے بھی کمان فوری بھٹو کے ہاتھ نہ آنے کا سامان کرتے دوبارہ یحییٰ ’خان کو دے گئے۔ اور پھر ادھر تم ادھر تم کا دما دم مست قلندر سامنے آ کے ملک ہی توڑ گیا۔ جو ملک کے ساتھ بعد میں ہوا اور ہوتا آ رہا ہے وہ الگ داستان ہے مگر بن بیلا کا ایک اور فعال ساتھی مست ہاتھی کے پاؤں نیچے کچلا جا چکا تھا۔

گنی کا سیکو طورے جانے کیسے خوش قسمت رہا کہ ملکی قیادت کرتا ہی اللہ کے حضور حاضر ہوا۔ دوسرے کئی اور ملک ساتھ ہوں گے مگر شاید اخبارات کی فائلوں میں ہی ملیں۔

جنرل ڈیگال امریکہ برطانیہ سے کھلے عام نفرت کی سزا ستاون سے چھیاسٹھ تک صرف اکتیس مرتبہ قاتلانہ حملوں کی صورت بھگت چکا تھا۔ معجزانہ سلامت رہا تھا اور قوم اسے ہر بار چنتی آ رہی تھی۔ مگر چھیاسٹھ میں ہی شروع ہو جانے والی شورشیں اور مظاہرے اڑسٹھ میں ریفرینڈم میں اسے شکست دلوا گئے۔ جلد ہی مستعفی ہو گھر بیٹھ گیا اور ستر میں وفات پائی۔

دوران تعلیم انٹرنیشنل افیئرز جیسے مضامین پڑھے مشہور تاریخی و سیاسی محقق، کئی سیاحتی کتب کے مصنف، تمغۂ فضیلت سے فضیلت یافتہ عزیزم اسد سلیم شیخ سے اس سلسلہ میں علم ہونے کا پوچھا تو انہیں صرف اتنا یاد تھا کہ ان کے تعلیمی دور میں احمد بن بیلا کی افریقی ایشیائی اتحاد والے آزاد بلاک کی تحریک دراصل دنیا بھر کے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کے قیام کو جنرل ڈیگال اور ساتھیوں کی طرف سے سبوتاژ کرنے کی تحریک تھی جو اپنی موت مر گئی۔ ظاہر ہے ان کی تعلیم کا دور اسؔی کی دہائی کا تھا۔ اور اس وقت تک تاریخ کی ہڈیاں بھی قبروں سے شاید ادھیڑ پھینکی جا چکی ہو۔

لطف کی بات ہے کہ مصر کے جمال عبد الناصر، پنڈت نہرو اور ساتھیوں کی شروع کردہ اس ( بعد میں این اے ایم – غیر وابستہ ممالک کی) تحریک کو انیس سو پچپن میں بنڈونگ کانفرنس میں افریقی ایشیائی کانفرنس کے نام سے تنظیم کی طرف لایا گیا۔ اس وقت انتیس ممالک کے دنیا کی چون فیصد آبادی کے نمائندے شریک تھے اور اس کی کامیابی اور فعالیت اور یک جہتی کا اندازہ چین کے ماؤزے تنگ کے پنڈت نہرو کے متعلق ایک ریمارک سے ظاہر ہیں ”میں نے پنڈت نہرو جیسا ایروگنٹ شخص ( مغرور، بد دماغ، رعونت سے بھر پور اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا ) زندگی بھر نہیں دیکھا۔ اس تحریک کی تو صحیح تشکیل ہی انیس سو چھہتر میں ہوئی اور اب ایک سو بیس ممالک شامل ہیں۔ اور سوائے کچھ اور ذیلی کمیٹیوں، تنظیموں کے قیام کوئی مثبت نتیجہ لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

لطف کی بات یہ بھی ہے کہ بنڈونگ کانفرنس میں بعد میں بن بیلا، ڈیگال کی تحریک میں شامل ہونے والے اس وقت تک آزاد ہونے والے اکثر ملک معہ پاکستان شریک تھے۔ مگر جون انیس سو پینسٹھ سے شروع ہو اگلے دو اڑھائی سال تک انہی ملکوں کی حکومتیں الٹی گئیں، سربراہ اپنے یا پرایوں کے ہاتھوں مارے گئے، معزول ہوئے، قید ہوئے یا جلا وطن ہوئے یا ملکوں کو پاکستان کی طرح جنگ اور شورشوں کے ذریعہ اس طرح دیوار سے لگا دیا گیا کہ اپنی ہی پڑ گئی، جو اس تنظیم کے فعال یا ہمدرد رکن تھے۔

احمد ندیم قاسمی کے ایک افسانہ کا عنوان تھا۔ ”عورت کبھی نہیں بولتی، عورت کبھی نہیں بھولتی“۔ جی ہاں ”ہاتھی بھی کبھی نہیں بھولتا“ ۔ کبھی ایبسولوٹلی ناٹ، جہنم میں جائے تمہاری امداد یا فرینڈز، ناٹ ماسٹرز کا نعرہ لگا کے تو دیکھو۔

تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف دیکھو گے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ پاؤں کے چھالے کو دیکھو گے تو اپنی ہی آستین میں پلے سانپ کا کاٹا نظر آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments