موساد کا عراقی مگ 21 اسرائیل پہنچانے کا منصوبہ کیسے کامیاب ہوا


عراقی ائر فورس کے پائلٹ کے ہاتھوں عراقی مگ اکیس کے اسرائیل پہنچنے کی تاریخ

آج مگ اکیس بیشتر ایشیائی اور افریقی ممالک میں اپنی سروس لائف پوری کرچکے ہیں، بہت جلد تاریخ بن کر عجائب خانوں یا چوراہوں پر سجانے کے لئے ہی رہ جائیں گے، لیکن ایک وقت تھا جب آواز سے دگنی رفتار کا حامل یہ طیارہ فضاء میں میں ایک دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا، روس اس طیارے کو اسی طرح بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کرتا تھا جیسا امریکہ 80 s میں ایف سولہ کی ڈیل پیش کر کے کیا کرتے تھے، یہ سوویت یونین (آج کے روس) کی طاقت کی علامتوں (پاور سمبلز) میں ایک تصور کیا جاتا تھا۔

اس وقت کے بہترین اسلحہ نظاموں سے لیس ان طیاروں کا حصول کسی بھی ائر فورس کی ترجیح ہوا کرتی تھی۔ مشرق وسطیٰ 60 اور 70 کی دہائیوں میں جنگوں کی وجہ سے اسلحہ آزمانے کا مرکز بنا ہوا تھا، تیل کی دولت سے مالامال ملک دنیا بھر سے ہتھیار خریدا کرتے تھے۔ ایک جانب مصر، عراق اور شام سے روس سے حاصل شدہ مختلف اقسام کے مگ اڑا رہے ہوا کرتے تھے، دوسری جانب اسرائیل کو امریکہ اور فرانس سے اس وقت کے بہترین طیاروں کے حصول میں مصروف تھا۔

ہر ہتھیار ہر حربے میں جہاں کوئی خاص بات ہوتی ہے اس خامیوں اور کمزوریوں کو جاننے کے لئے اس کو قریب سے دیکھنا، اس کو پرکھنا ضروری ہوتا ہے، یہی معاملہ اسرائیلی ائر فورس کو بھی پیش آیا، اسرائیل کے لئے مگ طیاروں کو سمجھنا اہم تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ یہ مگ حاصل کہاں سے کیا جائے؟ اسرائیلی موساد نے اس سلسلے میں 1962 ء پہلے مصری فضائیہ سے تعلق رکھنے والے پائلٹ ادیب ہنا کو پھانسنے کی کوشش کی گئی، کہ اپنا مگ 17 اسرائیل لے آؤ اور ایک ملین ڈالر انعام پاؤ، (اس زمانے میں مگ اکیس مصر کے پاس نہیں تھے )، جس نے مصری انتظامیہ کو اس ایک ملین ڈالر کی پیشکش کے حوالے آگاہ کر دیا، جس کی وجہ سے دسمبر 1962 میں موساد ایجنٹ جین تھامس کو اپنے والد کے ہمراہ سزائے موت دیدی گئی۔ ساتھ دینے والے دیگر ملزمان کو عمر قید کی سزا ملی۔

اب اگلی کوشش کے سلسلے میں عراقی پائلٹ کو گھیر نے کا پروگرام بنا، لیکن اس بار یہ بھی کوشش کی گئی کہ اب کی بار عراقی پائلٹ مصری پائلٹ کی طرح شور مچا کر اسرائیلی ایجنٹس کو پھنسوا نہ دے۔ 1964 ء میں ایک یہودی نے تہران میں واقع اسرائیلی سفارتخانے سے رابطہ کر کے آگاہ کیا (شاہ ایران کے دور میں ایران اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار دوستانہ تعلقات ہوا کرتے تھے ) کہ ایک عراقی کرسچن پائلٹ نے ایک یہودی لڑکی سے شادی کی، اور وہ پائلٹ یہ گلہ کرتا ہے کہ میری ترقی عراقی ائر فورس میں اس لیے نہیں ہو رہی کہ میں ایک مقامی عیسائی ہوں۔ یہ پائلٹ کیپٹن منیر ریڈفا تھا جس کا تعلق عراقی فضائیہ کی گیارہویں اسکواڈرن سے تھا اور وہ اپنی اسکواڈرن میں ڈپٹی کمانڈر تھا۔

اس کے اپنے طیارے کے مفرور ہونے کے حوالے سے دو نظریات ہیں، ایک اسرائیلی انٹیلی جنس کا دوسرا عراقی اور مصری جانب سے آنے والا۔ اسرائیلی ورژن میں میں منیر ریڈفا کے لئے یہ بات رکھی گئی، کیوں کہ اس کا تعلق عراقی اثیری مسیحی طبقے (میرونائٹ کرسچن) سے تھا اس وجہ سے ترقی نہیں مل رہی تھی، مزید اس کو بغداد میں اپنے گھر والوں سے دور رکھا گیا۔ جبکہ دوسرے فریق (یعنی عراقی اور مصری) کہتے ہیں اس کو ہنی ٹریپ میں پھنسا گیا، ظاہر ہے پہلے کی طرح اپنے ایجنٹ کو پھانسی لگوانے کی خواہش تو اسرائیل والوں کی نہیں رہی ہوگی۔

اب کہانی میں ایک خوبصورت دوشیزہ کی انٹری ہوتی ہے۔ اس امریکی اسرائیلی خاتون کو منیر ریڈفا کو بہلانے پھسلا کر گھیر لانے کا پلان دیا جاتا ہے، اس کو کہا جاتا ہے اے خوبصورت حسینہ جاؤ اور اپنی حسین اداؤں سے منیر ریڈفا کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا کر لے آؤ۔ ظاہر ہے اسرائیلی ہنی کے پاس منی یعنی پیسے کی آفر تھی، یہ سب کیسے ہوا اور ہوتا چلا گیا۔

عراقی مگ 21 نیچے عراقی سیریل نمبر کے ساتھ، اسرائیلی ائر فورس چیف وزیر دفاع موشے دایان کے ہمراہ، اوپر سیدھے ہاتھ پر اداکار شان کانری اسرائیلی ایئیر چیف مگ
عراقی مگ 21 نیچے عراقی سیریل نمبر کے ساتھ، اسرائیلی ائر فورس چیف وزیر دفاع موشے دایان کے ہمراہ، اوپر سیدھے ہاتھ پر اداکار شان کانری اسرائیلی ایئیر چیف مگ

اس اسرائیلی ہنی کا نام لیزا براٹ ہے جو محبت کے وعدوں کے بعد جولائی 1966 ء منیر ریڈفا کے ہمراہ یورپ کی دلفریب یاتراء پر تشریف لے گئیں، جہاں انہوں نے منیر کی ملاقات اسرائیلی اعلیٰ افسران سے کرائی گئی۔ کیمرے سے اس ملاقات کی تصاویر بھی لیں گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ محبت بلیک میلنگ میں بدل گئی۔ مطالبہ تھا ہمارے ساتھ اسرائیل چلو۔ منیر صاحب لیزا براٹ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ اسرائیل تشریف لے گئے۔

محترمہ کا کام یہیں تک تھا اب منیر اگر پیچھے ہٹتے تو ان کی تصویر عراقی حکام تک پہنچانے کی دھمکی دی گئی، مرتا کیا نہ کرتا والا معاملہ ہوا، منیر صاحب پریشان تو ہوئے ہوں گے، پھر فیملی کو کیسے بچایا جائے یہ بھی سوچا ہو گا۔ اسرائیلی موساد نے اس کا پلان بھی تیار کر رکھا تھا۔ منیر ریڈفا کے گھر والوں کو کرد باغیوں کی مدد سے ایرانی سرزمین اسمگل کیا گیا جہاں سے وہ اسرائیل باآسانی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا کہ شاہ ایران رضا پہلوی کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات تھے۔

سگنل کے طور پر اسرائیلی ریڈیو کی عربی نشریات میں مخصوص ایک عربی گیت نشر کیا جاتا جس کے بول ”مرحبا یا مرحبا“ ہوا کرتے تھے، جس کا مطلب خوش آمدید خوش آمدید ہے۔ اور 16 اگست 1966 ء کے دن اپنے مگ میں اتنا ایندھن مل گیا کہ وہ آسانی سے اردن کے راستے اسرائیل فرار ہو جائے۔ منیر ریڈفا نے اسرائیلی ریڈیو کے خفیہ پیغام پر آفرین آفرین کہا، اسرائیلی بارڈر پر دو فرانسیسی ساختہ میراج 3 ان کو اسرائیل میں خوش آمدید کرنے کے لئے موجود تھے۔ اگر عراق کی طرف سے ان کا پلان خراب کرنے کی کوشش کی جاتی تو اسرائیلی میراج جوابی کارروائی کرتے۔

اسرائیل میں منیر ریڈفا کو ایک ملین ڈالر ملے، شہریت ملی، مستقل ملازمت دی گئی، اور کیا چاہیے تھا اس کو، منیر ریڈفا کی موت 1998 میں امریکہ میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ ان کے بارے میں اس زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔

اسرائیلی موساد کی تاریخ میں یہ مشن یہالوم کہلاتا ہے جس کا عبرانی زبان میں مطلب ہیرا ہے اس لئے اگر آپ اس کو انٹرنیٹ پر سرچ کرنا چاہیں تو مناسب الفاظ یہی ہوں گے ۔ منیر ریڈفا جس مگ اکیس کے ہمراہ اسرائیل فرار ہوئے اس کا عراقی ائر فورس میں سیریل نمبر 534 تھا، جو اسرائیل میں تبدیل کر کے 007 ہو گیا۔

حقیقی منیر ریڈفا اور اسرائیلی ایجنٹ لیزا براٹ کی واحد دستیاب تصویر

عراق ہمیشہ سے روس کا اتحادی نہیں تھا، لیکن 1958 ء میں فوجی بغاوت کے بعد عراق روس کا اتحادی بن گیا۔ اس سے قبل عراقی پائلٹ ویسے ہی امریکہ جایا کرتے تھے جیسے بہت سارے ممالک کے پائلٹ ٹریننگ کے لئے جاتے ہیں۔ بعد میں نئی انتظامیہ میں برگیڈیئر جنرل جواد الاوقاتی ائر فورس چیف بنے، جو روس گئے، روس میں ان کو اس وقت کے جدید مگ انیس، مگ اکیس اور ٹوپولو سولہ کی پیشکش کی گئی۔ عراق عرب ممالک میں پہلا ملک بن گیا جو اس وقت روس سے جدید لڑاکا طیارے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ روسی نواز حکومت بہت وقت قائم نہ رہ سکی، آٹھ فروری 1963 ء کو ایک اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں نئی حکومت بنی جو مغرب نواز تھی، جس نے تمام سوویت مشیران کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

سابق ائر چیف کے ہمدردوں کو پابند سلاسل کیا گیا، لیکن منیر ریڈفا کا شمار ان پانچ عراقی پائلٹس میں ہوتا تھا، جنہوں نے اپنی پروازیں جاری رکھیں۔ یعنی منیر ریڈفا اور اسرائیلی دعوے دونوں مکمل طور پر غلط ہیں۔ منیر ریڈفا بھی جولائی 1966 ء میں امریکہ اسٹاف کورس کے لئے چنے گئے۔ اگر منیر کسی تعصب کا شکار ہوا ہوتا تو وہ اس کورس کے لئے منتخب ہی کیسے ہوتا۔ ( لنک 2 ) اسرائیل دہشت گردی کے علاوہ چوری جیسے الزام کا کیسے دفاع کرتا تو انھوں نے ریڈفا کو مظلوم ظاہر کر کے ایک تیر سے دو شکار کرلئے ایک چوری کے الزام سے خود کو بے گناہ ثابت کر لیا پھر چور مچائے شور کی طرح عراقی حکومت اور معاشرت پر سوال اٹھا دیا۔ پھر اسرائیل اس پوزیشن لینے کی وجہ سے منیر ریڈفا کو عراق واپس نہ کرنے کی پوزیشن میں بھی آرام سے چلا گیا۔

ایک اور بیان اسرائیل کے بہترین لڑاکا پائلٹ کی جانب سے سامنے آیا جس کا نام ڈینی شفیرا ( 3 ) جو منیر کے فرار اور اسرائیل میں اس کو خوش آمدید کے حوالے سے بتا رہے ہیں، لفظ ڈیفیکٹر کا استعمال ہوا۔

اسرائیل نے اس مگ اکیس کو حاصل کرنے کے بعد اس کو اپنے ہوابازوں کی جنگی تیاری میں خوب استعمال کیا، یہاں تک اسرائیلی پائلٹ اس کی کمزوریوں اور خامیوں سے اچھی طرح آگاہ ہو گئے یہ تجربہ ان کو آگے آنے ولی جنگوں بہت کام آیا، ان کے لئے اب مگ اکیس کوئی نئی چیز نہیں رہ گیا تھا، جو عرب اتحادیوں کا سب سے اہم ہتھیار تھا، اگلے بلاگ میں اس جنگ میں اور کیا کچھ ہوا اس حوالے سے بات ہوگی۔

واقعہ کے حوالے سے بننے والی ہالی وڈ فلم اسٹیل دی اسکائی کا پوسٹر اور چند مناظر
واقعہ کے حوالے سے بننے والی ہالی وڈ فلم اسٹیل دی اسکائی کا پوسٹر اور چند مناظر

واقعے کے حوالے سے ہالی وڈ کی فلم اسٹیل دی اسکائی

ہالی وڈ کے لئے اس کہانی میں وہ سب کچھ تھا، جس پر 1988 ء میں فلم بنائی جا سکتی تھی، ڈائرکٹر جان ڈی ہیکوک نے منیر ریڈفا واقعی فلمی شہزادہ لے لیا، ایک منحرف پائلٹ کو گلوریفائی ( یا نمایاں ) جو کرنا تھا، جیسا تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے منیر ریڈفا کوئی خاص شخصیت کے حامل نہیں تھے، پھر فلم سازوں کو مگ اکیس کے بجائے مگ سترہ ملا جو دیکھنے میں ہی خاصہ مختلف طیارہ ہے، میوزک مشہور میوزک کمپوزر یانی کا ہے۔ ورنہ فلم میں قابل ذکر مواد کم ملا۔

حوالہ جات (References )

https://warisboring.com/in-1966-israeli-intelligence-convinced-an-iraqi-pilot-to-defect-with-his-mig-21/ (1

https://medium.com/war-is-boring/in-1966-israeli-intelligence-convinced-an-iraqi-pilot-to-defect-with-his-mig-21-fcfdf9fe4547 (2

(3 https://www.israeldefense.co.il/en/content/iaf-marks-50-years-operation-yahalom

(4 https://www.warhistoryonline.com/history/israel-stole-mig-21.html?chrome=1&Exc_TM_LessThanPoint001_p1=1

(5 https://www.linkedin.com/pulse/silver-lead-why-munir-redfa-defected-mig-21-israel-tom-cooper/

(6 https://www.f-106deltadart.com/pdf-files/Project-Have-Doughnut-When-Israels-Mossad-Stole-A-Iraqi-Mig21-Story-Of-Munir-Redfa-by-unknown.pdf

(7 https://warriormaven.com/history/1966-israeli-intelligence-convinced-an-iraqi-pilot-to-defect-with-his-mig-21

8 ) https://www.jewishvirtuallibrary.org/stealing-a-soviet-mig
9 ) https://elpoderdelasgalaxias.wordpress.com/2017/10/07/mikoyan-mig-21f-13-from-iraq-with-love/
فلم اسٹیل دی اسکائی کا ٹریلر
(10 https://www.youtube.com/watch?v=Z3VS7apbKIw


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments