کتاب: دروازے، مصنف عرفان جاوید صاحب


کتاب: دروازے
مصنف: عرفان جاوید صاحب
تبصرہ: عرفان علی ڈنور

عرفان جاوید صاحب کی کتاب ”دروازے“ جو ادارہ سنگ میل پبلشرز نے شایع کی ہے۔ ایک 256 پنوں پر مشتمل کتاب ہے، بڑی سائز کے چوڑے پنے۔ جس کو میں نے پہلی مرتبہ مطالعے کے لیے اٹھایا، پہلا خاکہ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کا تھا، اور چند ایک سطریں پڑھ کر رکھ دیا سرہانے۔ وہ سطریں یوں شروع ہوتی ہیں۔

” دو منظر ہیں، ان میں صدی بھر کا فاصلہ ہے۔
پہلا منظر بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی راج کے لاہور کا ہے۔

ایک متناسب فونٹ سائز اور قدرے بڑی سائز کے صفحات پر عرفان جاوید صاحب کی ہنر مندی کہیں یا تحریر پھیلی ہوئی ہے اور تصویر بن رہی ہے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی۔

کچھ روز گزرے اور پھر پڑھنے کے لیے اٹھایا لیکن، وہی پہلا صفحہ وہی چند سطور پڑھ کر پھر رکھ دیا اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہوا تو میں نے سوچا کہ یہ کتاب پوری توجہ مانگتی ہے شاید، اس دوران چار پانچ ماہ گزر چکے تھے۔

پھر میں نے کتاب پڑھنا شروع کی اپریل کے مہینے میں، مجھے نہیں معلوم کہ صاحب کتاب اسکیچنگ اور ڈرائنگ میں کس درجے پر ہیں لیکن، جو اب تک خاکے پڑھے ہیں ان میں بہترین انداز میں جو خطوط کھینچے ہیں اور شیڈز اور رنگوں کی بھرائی کی ہے وہ کاریگری عرفان جاوید صاحب کا ہی خاصہ ہو سکتی ہے۔

میں یہی انداز لگا سکا ہوں کہ ایک اچھا اور بہترین مصنف آپ کو ساتھ لے کر چلتا ہے، ویژیوئل چلنے لگتے ہیں، وہ باتیں بتاتا جاتا ہے جیسے گزرے زمانے تھے وہی دکھاتا ہے اور آپ اس زمانے کی بھینی خوشبو اور سلگتی مہک محسوس کر سکتے ہیں۔

ذرا ملاحظہ کیجیے۔

” دوسرا منظر اسی صدی کے اواخر کا ہے۔ نرسنگھ داس کی وہی کوٹھی، اور وہی ٹھنڈی سڑک جو اب مال روڈ کہلاتی ہے۔

اور میں پوچھتا ہوں کہ پہنچ گئے نہ ٹھنڈی سڑک پر؟

”نوے کی دہائی کا واقعہ ہے۔ ایک طالب علم دروازہ کھٹکھٹا کر کمرے میں جھجکتا ہوا داخل ہوتا ہے اور میز کے قریب کھڑا ہو جاتا ہے۔ بزرگ نوجوان کو استفہامیہ نظروں سے دیکھتا ہے اور شائستگی سے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے“

میں اس بزرگ کی عینک کے پیچھے سے دیکھتی استفہامیہ نظروں کو دیکھ رہا تھا پاس کھڑے ہو کر میں اس وقت اس کمرے میں پہنچ چکا تھا

”لمبے لٹکتے ہوئے پرانے پنکھے کی گھرر گھرر، روشن دان سے آتی سنہری دھوپ کی ترچھی کرنیں“ عجیب سماں پیدا کر رہی تھیں۔

اور میں پڑھتا چلا گیا، جو یادیں رقم ہیں، جو حوالہ جات ربط میں لکھے گئے ہیں ان میں ان کے ہم عصروں کی باتیں، کچھ نوسٹیلجیا اور باقی احمد ندیم قاسمی صاحب کی شاہکار کاریگری جس کی وجہ سے جناب عرفان جاوید صاحب کو اس روڈ پر چلنے میں دشواری محسوس نہ ہوئی کہ ایسے عظیم لوگوں کے ساتھ وہ بیٹھے، صبحیں، شامیں اور دوپہریں گزاریں، صحبت نشیں رہے ان لوگوں کے جن کے اندر صدیاں سانس لے رہیں تھی جو ادیب گر تھے۔ جو ادیب میکر تھے جو گوہر شناس تھے۔ جو اگر اس بات پر آئیں تو کہہ اٹھیں گے بے خود ہو کر کہ ”پارس“ تھے۔ کتنی اہم نصیحتیں ہیں ذرا دیکھیے احمد ندیم قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ :

” مسلسل مطالعہ بہت اہم ہے۔ ہر ادیب کو یہ عادت بنا لینی چاہیے کہ وہ کچھ وقت مطالعے کو ضرور دے۔ اس سے نہ صرف تازہ ترین ادبی تخلیقات اور رجحانات سے آگہی رہتی ہے بلکہ سوچ اور تخلیق کا نیا مواد بھی سمانے آتا رہتا ہے“

مجھے پڑھنے کے دوران محسوس ہوا کہ میرے ہاتھ کتاب نہیں واقعی کوئی ٹائم ٹریول کا دروازہ آ گیا ہے اور میں اس دروازے کو کھول کر وقت کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر بیتے ہوئے وقتوں میں گھوم پھر رہا ہوں موتی چن رہا ہوں گوہر دیکھ رہا ہوں اور باتوں کے مہکتے پھولوں کی خوشبوؤں سے خود کو اور خود کے ذہن کو معطر کر رہا ہوں۔

یہی نہیں، جس شخصیت کا خاکہ لکھا جا رہا ہے اس میں اضافی معلومات مختلف ادیبوں، محققوں، شعراء، نفسیات دانوں اور لکھاریوں کی بھی شامل کی جا رہی ہے کہ اس تناظر میں فلاں نے کیا بات کی، فلاں نے کیا مثال دی ہے، مطلب ایک وسیع و عریض اراضی پر باتیں ہو رہی ہیں جو مکمل کر رہی ہیں ایک تصویر اور تصور کو جس میں کہیں کوئی بھی جگہ آپ تھک کر بیٹھ سکتے ہیں۔ اور چہل قدمی کرتے دیکھ سکتے ہیں اس شخصیت کو آپ کسی بھی جگہ بوریت محسوس نہیں کر سکتے یہ کوالٹی ایک گہرے اور اچھے ادیب کی ہوتی ہے۔ اس میں یہی نہیں کہ صرف تعریفوں کے پل باندھے گئے ہیں شخصیات کی زندگیوں کا کافی زاویوں کی حد تک احاطہ کیا گیا ہے جس میں ان کی کمیاں کجیاں اور کمزوریاں بھی خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ جیسے منصورہ احمد کا تذکرہ ہے۔

”منصورہ احمد نے اسی کی دہائی کے اوائل میں منسلک میں ملازمت اختیار کی اور جلد ہی قاسمی صاحب کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں کچھ اتراہٹ اور تلخی آ گئی۔ اگر یہ حد اعتدال میں رہتی تو مناسب تھا لیکن اس کے باعث قاسمی صاحب کے احباب کو شکایات بھی پیدا ہوئیں“ ۔

درحقیقت احباب، ٹائم ٹریول کا یہ دروازہ جو میرے ہاتھ لگ گیا تھا اور میں کھول کر اندر داخل ہو تو بیٹھا تھا، وہ مجھے مخلتف شخصیات تک رسائی دے رہا تھا ماضی کی عظیم شاہکار ہستیاں جو پاکستان کے حصے میں آئی تھیں لیکن بارڈر کی حدود سے آزاد تھیں۔ انہیں کوئی سرحد نہیں روک رہی تھی نہ روک سکتی تھی وہ سب، جن میں اے حمید صاحب، احمد فراز صاحب، مستنصر حسین تارڑ صاحب، عبداللہ حسین صاحب، احمد بشیر صاحب، عطاء الحق قاسمی صاحب، شکیل عادل زادہ صاحب، تصدق سہیل صاحب، نصیر کوی صاحب، جاوید چوہدری صاحب یا محمد عاصم بٹ صاحب۔

یہ سب وہاں موجود تھے، میں انہیں دیکھ رہا تھا سراپا ان کے سامنے موجود تھا، زمان و مکاں سے آزاد کسی ایسی جگہ کو آپ کتابوں میں ہی پا سکتے ہیں مطالعہ خطہ ہے، جہاں آپ وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں اور کتابیں ٹائم ٹریول دروازے ہیں کھولیے اور زمان و مکان سے آزاد ہو کر بنا کسی چنتا کے دنیا کی سیر کیجیے کبھی آج، کبھی گزرا ہوا کل اور کبھی آنے والا کل گھومیے، اے حمید صاحب کی باتیں سنیے ذرا،

”موسیقی کے بغیر ادیب نا مکمل ہے۔ ہندو بالکل درست کہتے ہیں“ سر ایشور ہے ”۔ یورپ میں پیانو گھر کا لازمی حصہ رہا ہے، گرجا گھروں میں موسیقی ہوتی ہے اور مندروں میں گھنٹیوں کے جلترنگ ہے۔ موسیقی ایک لہر ہے جو آدمی کو اٹھاتی ہے اور بلندی پر بادلوں کے بیچ لے جاتی ہے جہاں ایک طلسمی دنیا آباد ہے“ ۔

فراز صاحب بھٹو صاحب کے نزدیک رہے اور بے نظیر بھٹو کے لیے نرم گوشے رکھتے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیراعظم بنے تو ان سے یہ کہتے ہوئے ناراض ہو گئے ”جتوئی نے بے نظیر کی جگہ لی ہے“ ۔

فراز احمد فراز کی شخصیت پرکشش تھی طلسماتی تھی۔ محبت کرنے والے محبتوں کو بانٹنے والے جاذبیت تھی کمال تھی، زندہ دل، اپنے بڑوں کا ادب اور احترام کرنے والے اور جو یہاں دروازے میں بیان ہے وہ تو زبردست ہے ان کی بات سنیے۔

”سچا آدمی ہی بہادر ہوتا ہے“
میں ایک کامیاب سرمایہ کار ہوں ”

اسی طرح ”کاہن“ یعنی مستنصر حسین تارڑ صاحب کو جان جاتے ہیں آپ جو عرفان جاوید صاحب کی نظر میں کاہن ہیں۔ تارڑ صاحب مقناطیسی شخصیت ہیں، بڑے ادیب ہیں۔ ان کی باتیں، ان کے ڈرامے، ان کے افسانے اور کہانیاں یا سفر نامے وہ ان کا انداز جو ہمیں یاد ہے ہم تو صرف ایک حوالے سے جانتے تھے انہیں پی ٹی وی کے مارننگ شو میں میزبان بنے ہوئے ”چچا جی“ ۔ پھر پتہ چلا کہ تارڑ صاحب کیا ہی بڑی ہستی ہیں وہ خود ہی کہتے ہیں

” یار میری زندگی میری کتابوں میں بکھری پڑی ہے وہاں سے چن لو“ وہ پہاڑوں کے آدمی ہیں، سیاحت کے دلدادہ اور تحریروں کے بادشاہ جادوگر وہ کیسے بنتے جاتے ہیں کہانیاں افسانے ناول سفر نامے۔

یہاں ان شخصیات سے تو روشناس کرایا ہے عرفان جاوید صاحب نے ہمیں یا اپنے قاری کو۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ انتہائی سادگی سے بالکل چپکے چپکے ہمیں اضافی معلومات کا بھی خزانہ دے بیٹھے ہیں۔ مختلف شعراء، فلسفی، ادیب، مصنف، نفسیات دان، سائنسدان وغیرہ کے اقوال اور حوالہ جات جگہ جگہ آپ کو بکھرے ملیں گے اور آپ حیران پریشان کہ ساری کتاب کو اندر لائن کردوں / ہائی لائٹ کردوں یا کچھ جگہ چھوڑ دوں۔ ہے تو بارہ شخصیات کے خاکوں پر مبنی کتاب لیکن۔

آپ کو یہیں پر ٹالسٹائی بات کرتے ملیں گے، گلزار صاحب شعر سناتے ملیں گے، فیودور دوستوفسکی کا ضخیم ادب، میکسم گورکی کی بات بھی ہوگی فرائڈ کے حوالہ جات ملیں گے، نیرودا کی بات ہوگی تو ییٹس کی کوٹیشن بھی۔ تی ایس ایلیٹ کا قول ملے گا، یونانی عربی، چینی، روسی، فرانسیسی اور ہندی کہاوتوں اور حکایات کی ورائٹی کی آوازیں پڑھنے کو ملیں گی۔ گرٹروڈسٹین کا حوالا آئے گا جارج آرویل کی دلیل پر مبنی بات ہوگی امریکی نکتہ سنج مارک ٹوئن کا کوئی نکتہ کھلے گا۔ کسی فکشن میں سے بات نکلے گی تو سمرسٹ ماہم کا تذکرہ بھی ہو گا اور ارنیسٹ ہیمنگوئے کی باتیں بھی سننے کو ملیں گی۔ وہیں پچیس کروڑ کاپیوں کی تعداد میں بکنے والی ”اینڈ دیئر بائی ہینگز اے ٹیل“ کے مصنف جیفری آرچر کا رفرنس ملے گا۔ جارج برنارڈ شا اور کافکا کی خوبصورت باتیں پڑھنے کو ملیں گی۔

کہیں پھر تارڑ صاحب کی آواز گونجتی سنائی دے گی
” شریف آدمی بڑا ادیب نہیں ہو سکتا“

برٹرینڈ رسل کی نصیحت یا رسول حمزہ توف کے منفرد بیان اور باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں اس دروازے میں داخل ہونے کے بعد کہ آپ اس کتاب کے ٹرانس اور کرزما سے نہیں نکل سکتے۔

میں جیسے جیسے ورق الٹتا جا رہا تھا میری حیرانیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ مجھے اپنے اس وقت پر افسوس ہو رہا تھا جس وقت میں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ باتیں کرتے رہتے ہیں ہم۔ میں جب کوئی کتاب پڑھتا ہوں یا کسی مصنف کی کوئی تصنیف تو میں بالکل کورا ہو کر پڑھتا ہوں کہ ایسا نہ ہو سیکھنے پڑھنے کے بجائے سکھانا اور پڑھانا شروع کردوں۔ بس یہی پاکستان کی روایات، پراڈکٹس کی ابتدائی زمانوں اور باتوں کھیتوں کھلیانوں کے تزکروں سے خالی نہیں دروازے۔

میں لکھتے لکھتے بھول بیٹھا کہ صرف دو خاکوں تک پہنچا ہوں ایسا نہ ہو کہ پوری کتاب نقل کرنے لگ جاؤں۔ آپ اس کتاب کا مطالعہ کریں۔ اور پھر اپنے تاثرات مطالعے کے جذب ہونے کے بعد خود تحریر کریں مجھے یقین ہے آپ بھی اس کو ٹائم ٹریول دروازہ ہی کہیں گے۔ دروازے، ایک ثبوت ہے مصنف کے عرق ریزی سے کیے گئے مطالعے کا، کہ عرفان جاوید صاحب نے وسیع مطالعے کو اپنایا ہے، ادیب شخصیات کے ساتھ رہ کر فیض پایا ہے، تخلیقی شخصیت و ذہن کے مالک ہیں۔ جتنی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے یقیناً وہ قابل تحسین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments