رجب علی بیگ سرور اور فسانہ عجائب کا تعارف


قصہ یا کہانی انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ کائنات کے کینوس میں کہانی کے جرثومے اس وقت ظاہر ہوئے جب آدم کو مسجود ملائک ٹھہرایا گیا اور عزازیل نے آدم کو مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ کہانی کی تخلیق کے بعد انسان نے اس کو بیان کرنے کے لیے کئی ڈھنگ اپنائے۔ کسی نے داستان کو چھیڑا تو کسی نے ناول کے پنوں میں زندگی کی شمع روشن کی۔ کوئی کہانی کا رخ موڑ کر اسے ڈراما کے آنگن میں لے گیا تو کسی نے اسے افسانے کی فضا سے متعارف کروایا۔ ان چار عناصر کے مجموعے کو افسانوی ادب کا نام دیا جاتا ہے، کیونکہ ان سب کا مرکز ایک ہے اور وہ ہے کہانی۔

داستان کہانی کی سب سے اولین اور قدیم قسم ہے۔ اصطلاح میں داستان وہ قصہ کہانی ہے جس کی بنیاد تخیل اور مافوق الفطرت عناصر پر ہو۔ جس میں مرکزی قصہ ایک ہی ہوتا ہے مگر اس ایک قصے سے رفتہ رفتہ اتنے قصے وابستہ ہو جاتے ہیں کہ داستان مختلف کہانیوں کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یوں قصہ در قصہ ایک طویل سلسلہ رواں رہتا ہے۔ اور انہی کے توسط سے داستان تشکیل پاتی ہے۔

رجب علی بیگ سرور کی داستان ”فسانہ عجائب“ اردو کے داستانی ادب میں کئی حوالوں سے اہم ہے۔ یہی وہ ادب ہے جیسے داستان اور ناول کے درمیان کی کڑی کہا جاتا ہے اور جس نے اپنی لسانی اور فنی خوبیوں کا لوہا ناقدین ادب سے منوایا ہے۔ اس کی ہر دلعزیزی اور دلکشی کا یہ عالم ہے کہ ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی اسے بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ رجب علی بیگ سرور کی عظمت اور ماہر فن ہونے کی یہی دلیل ہے کہ اگر چہ وہ زبان جیسے سرور نے استعمال کیا ہے آج متروک سمجھی جاتی ہے۔ اور موجودہ دور کا نیا ادیب اسے پڑھ کر الجھتا ہے، کبھی اس زبان کو اجنبی سمجھ کر ثقیل، مشکل اور غیر مانوس ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ پھر بھی وہ اس سے اجنبیوں کی طرح دامن نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں بھی اس میں جدت پسندی کے کچھ ایسے نقوش تلاش کر لیتا ہے، جنھوں نے آگے چل کر جدت اور ترقی کی نئی عمارتیں تعمیر کی ہیں اور جنھوں نے نئے لکھنے والوں کو کہانی کے ذریعہ سے حقیقت پسندی کا دامن تھام کر انقلاب عظیم کی راہیں دکھائی ہیں۔

یہ سب کچھ اس ہے کہ رجب علی بیگ سرور ایک پختہ ذہن، عقل رسا اور جدید شعور رکھتے تھے۔ انہی اوصاف نے انہیں ایک کامیاب داستان نگار بنا دیا اور قصہ گو کی صف میں لا کھڑا کیا اور ان کے قلم سے ”فسانہ عجائب“ جیسی داستان لکھائی جس نے انہیں نہ صرف عظمت بخشی بلکہ ابدیت کے مقام پر پہنچا کر ان کے نام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اردو ادب میں زندہ کر دیا۔

یہ عظیم فن کار 12 سو ہجری/ 1786 عیسوی کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور رجب علی بیگ نام رکھا گیا، سرور تخلص تھا۔ ان کے والد کا نام مرزا اصغر علی بیگ تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی میں ہوئی جس کا ذکر خود سرور نے ”شگوفہ محبت“ کے دیباچہ میں کیا ہے۔ عربی و فارسی کے علاوہ آپ کو اردو زبان و ادب پر قدرت حاصل تھی۔ شاعری میں انہیں آغا نوازش حسین خاں عرف مرزا خانی نوازش شاگرد میر سوز سے تلمذ حاصل تھا۔ شعری ادب کے علاوہ نثری ادب خصوصاً افسانوی ادب، موسیقی، خوش نویسی، علم نجوم کے ساتھ فن سپہ گری میں بھی کمال حاصل تھا۔

سرور نے دو شادیاں کی۔ پہلی شادی کے بعد غازی الدین حیدر نے 1824 میں سرور کو ایک قتل کے الزام میں جلا وطن کر کے کانپور بھیج دیا۔ جہاں ان کی ملاقات حکیم سید اسد علی سے ہوئی جن کی صحبت سے ان کے ادبی ذوق میں نکھار پیدا ہوا۔ غازی الدین حیدر کی وفات کے بعد نصیر الدین حیدر نے سرور کا قصور معاف کر کے انہیں لکھنؤ آنے کی اجازت دے دی، جس سے سرور کو اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا۔ وقت کے پرندے کی تیز رفتار کے سامنے راجے اور نواب زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور ایک کے بعد ایک ریاست لکھنؤ کا خاکی بادشاہ اپنے حقیقی مالک سے جا ملا۔

مختلف بادشاہوں کے انتقال کے بعد سرور کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر واجد علی شاہ نے سرور کو پچاس روپے ماہانہ پر درباری شعراء میں داخل کر لیا جس سے کچھ ایام سکون اور اطمینان سے گزرے، ابھی سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ دوسری بیوی انتقال کر گی جس کے غم میں نیم پاگل ہو کر رہ گے کہ اچانک پہلی بیوی کانیور میں سخت بیمار ہو گی۔ یہ خبر سن کر وہ پہلا غم بھول کر کان پور گئے۔ اور جب اہلیہ کو افاقہ ہوا تو پھر لکھنؤ واپس آئے۔ یہاں سے ان کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا۔ سرور نے میرٹھ اور دہلی کا سفر کیا تو کبھی بنارس کا رخ، لکھنؤ سے بنارس اور بنارس سے لکھنؤ آنے جانے کے سلسلے کے ساتھ سرور ادبی کام بھی سر انجام دیتا رہا آخر 30 اپریل 1869 کو مرض نے جان لی اور آپ نے عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھارا۔

اگر چہ سرور کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا تھا اور انھوں نے بہت سے اشعار کہے لیکن جب ان کی مایہ ناز تصنیف ”فسانہ عبرت“ مکمل ہوئی اور انہیں ایک صاحب طرز نثر نگار کا درجہ حاصل ہوا تو وہ نظم سے اپنا دامن بچا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نثر کے ہو گے۔ چنانچہ نثر کی کئی کتابیں ان کے قلم کے مرہون منت ہیں۔ ان کی نثری تصانیف میں ”فسانہ عجائب، شگوفہ محبت، گلزار سرور، شبستان سرور، شرر عشق، فسانہ عبرت، سرور سلطانی، انشائے سرور اور نثر نثرہ نثار“ ہیں۔

ان تمام کتابوں میں ”فسانہ عجائب“ ہی سرور کی ایسی تصنیف ہے جس نے انہیں ایک صاحب طرز نثار کا درجہ عطا کیا اور داستانوی ادب میں ایک اہم مقام پر پہنچایا اور اس تصنیف نے اپنے عہد کے دوسری تصانیف اور زبان و ادب پر ایسا گہرا نقش ڈالا کہ سرور کے اس رنگ کو دوسرے لکھنے والوں نے ایک روایت اور ادبی سند سمجھ کر اپنانے کی کوشش کی اور سرور کے اسلوب کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا۔

سرور نے ”فسانہ عجائب“ کی تصنیف کے بارے میں اس کے دیباچہ میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ کیا اسباب و محرکات تھے جنھوں نے انہیں فسانہ عجائب لکھنے پر مجبور کیا۔ فسانہ عجائب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ وقت گزاری کے لیے دوستوں نے قصہ کی فرمائش کی۔ سرور نے قصہ بیان کیا۔ کچھ عرصہ بعد سرور کو جلا وطن کر کے کانپور بھیج دیا گیا تو لکھنؤ اور دوستوں کی جدائی کا غم بھلانے کے لیے 1824 میں فسانہ عجائب تصنیف کی۔ فسانہ عجائب سرور اور شمالی ہند کی پہلی طبع زاد داستان ہے۔ سرور نے یہ داستان میر امن کی کتاب ”باغ و بہار“ کے جواب میں لکھی اور اس کے دیباچے میں میر امن کا مذاق بھی اڑایا ہے۔

اس داستان کے ماخذ کے بارے میں ایک بات تو صاف معلوم ہوتی ہے کہ مصنف نے قدیم قصوں کی روایت کا تتبع کرتے ہوئے مختلف داستانوں، قصوں اور کہانیوں سے استفادہ کیا ہے، جن میں ”گلشن نو بہار، بہار دانش، داستان امیر حمزہ، سحر البیان اور بوستان خیال“ قابل ذکر ہیں۔ جان عالم کے فراق میں اس کے ماں باپ کا روتے روتے بینائی سے محروم ہو جانا اور پھر بیٹے کی آمد پر باپ کا بینائی کا واپس آ جانا۔ حضرت یعقوب و یوسف کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اسی طرح ساحرہ کا جان عالم کو محبت کے لیے مجبور کرنا اور اپنی جانب ملتفت ہونے کی دعوت دینا، زلیخا اور حضرت یوسف کی یاد دلاتا ہے اور یہ دونوں سورہ یوسف سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ درج بالا آراء سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سرور نے ”فسانہ عجائب“ کی تصنیف سے قبل رائج الوقت تمام داستانوں کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا تھا اور ان کہانیوں سے جو تاثر قبول کیا تھا اور ان میں جو جو اجزاء اور کڑیاں انہیں زیادہ پسند آئی تھیں، انہیں خاص سلیقہ اور ادبی ذوق کے ساتھ ایک داستان کی شکل دے کر ہمارے سامنے ایک مربوط شکل میں پیش کیا ہے۔

سرور نے اس داستان میں قدیم داستانوی روایت کو قائم رکھا ہے اور اپنی اس تصنیف کو فوق الفطرت عناصر سے رنگین بنانے کی کوشش کی ہے۔ قدیم داستانوں میں طلسم و اسرار، عشق و محبت اور جنگ و جدال کا مقبول ترین عناصر میں شمار ہوتا تھا۔ سرور نے بھی ان بنیادی عناصر کو پیش نظر رکھ کر اپنی داستان کا خمیر انہی عناصر سے اٹھایا اور عقل میں نہ آنے والی سائنسی حقیقت پر پوری نہ اترنے والی اشیاء کو اس داستان میں جگہ دی۔ طوطے کا انسانوں کی طرح گفتگو کرنا، انسانوں کو مختلف جون بدلنا، نقش سلیمانی اور لوح طلسم کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر انجام دینا، جادو گروں اور دیوؤں کا حیرت انگیز کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسی باتیں جو انسان کی عقل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کہانی کی ان طلسماتی کڑیوں اور حیرت زاد اجزا کی وجہ سے ہی سرور نے داستان کا نام ”فسانہ عجائب“ رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments