برازیل میں سوشلسٹ صدر اور لاطینی امریکہ میں نئی انقلابی لہر


نئے سال کا سورج طلوع ہوا تو جنوبی امریکہ کے سب سے بڑے ملک برازیل میں سوشلسٹ راہنما لوئیز اناسیو لولا حلف اٹھا رہے تھے۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی آ رہی تھی کہ معزول ہونے والے دائیں بازو کے صدر جیر بولسونارو اپنے خالق حقیقی، یعنی امریکہ بہادر کے ہاں مستقل قیام کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا پر دھونس جمانے اور اقوام عالم کو سامراجی مفادات کے تابع رکھنے کے علم بردار امریکہ بہادر کے گھر میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔

لاطینی امریکہ کے ممالک میں قومی آزادی اور انقلابی تبدیلیوں کی ایک ایسی لہر امڈ آئی ہے، جس نے گزشتہ چار برسوں میں لاطینی امریکہ کے چھ اہم ممالک میں انتخابات کے ذریعے سوشلسٹ صدر منتخب کر کے اس نیم براعظم میں قومی آزادی اور عوامی بہبود کے لیے سوشلسٹ اصولوں کو اپنانے کی راہ اپنا لی ہے۔ اس لہر کا نقطۂ آغاز میکسیکو میں یکم جولائی 2018 ء کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات سے ہوا، جہاں بائیں بازو کے اتحاد ”نیشنل ری جنریشن موومنٹ“ کے راہنما آندرس مینوئل لوپیز اوبراڈور نے 31 پوائنٹس کے بھاری مارجن سے لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کر کے آئندہ 6 برس کے لیے ملک کے صدر منتخب ہو کر کیا۔

اسی عرصہ میں ارجنٹائن کو کساد بازاری نے اپنے گرفت میں لے رکھا تھا، تو اکتوبر 2019 ء میں ارجنٹائن کے قومی انتخابات منعقد ہوئے تو عوام نے بائیں بازو کو قوم کی رہنمائی کی ذمہ داری سونپتے ہوئے سوشلسٹ رہنما البرٹو فرنانڈیز کو ملکی صدر منتخب کر لیا۔ ادھر بولیویا میں امریکی سامراج کی کھلی مداخلت کے باوجود اکتوبر 2020 ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بولیوین عوام نے موومنٹ فار سوشلزم کے راہنما کامریڈ لوئس آرس کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروا کر سامراجی ممالک کو سرپرائز کر دیا۔

یہ وہی سامراجی ممالک ہیں جنہوں نے 2019 ء کے انتخابات کو دھونس اور پراپیگنڈہ مہم سے متنازعہ بنا دیا تھا۔ بولیویا میں متنازعہ اور کالعدم ہونے والے انتخابات کے بعد بھاری اکثریت سے سوشلسٹوں کی دوبارہ جیت نے لاطینی امریکہ کے ممالک میں نئے سوشلسٹ ابھار کی راہیں متعین کر دیں۔ یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں، بلکہ جولائی 2021 ء میں پیرو میں انتخاب ہوئے تو ملکی عوام نے سوشلسٹ راہنما پیڈرو کاسٹیلو کو ملک کا اگلا صدر منتخب کر لیا، ۔

بعد ازاں نومبر 2021 ء میں ہونڈوراس کت عوام نے سوشلسٹ راہنما محترمہ زیومارا کاسترو کو ملک کی صدر منتخب کر کے سامراجی ایوانوں میں نئی ہل چل مچا دی۔ پھر دسمبر 2021 ء میں پابلو نیرودا کے دیش چلٔی میں انتخابات ہوئے تو 36 سالہ سوشلسٹ راہنما گیبریل بورک نے میدان مار لیا۔ اب اکتوبر 2022 ء میں برازیل میں انتخاب ہوئے تو ورکرز پارٹی برازیل کے راہنما اور اسٹیل ملز یونین کے سابق صدر لوئیز اناسیو لولا نے صدارتی انتخاب جیت کر عالمی منظر نامے پر ایک نئی ہل چل پیدا کر دی، اور یکم نجوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

امریکہ کی طرف سے غیر قانونی ناکہ بندی کے دوران کیوبا کی مسلسل متاثر کن موجودگی، اور ہیوگو شاویز کے بعد سے وینزویلا کی کوششوں کے ساتھ ساتھ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خطہ فیصلہ کن تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان چھ ممالک میں بولیویا، ارجنٹائن، کولمبیا اور برازیل بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ بولیویا میں تیل و گیس، میں چاندی اور ٹن کے وسیع ذخائر تو تھے ہی، لیکن چند برس قبل وہاں دنیا کے سب سے بڑے اور اعلی ترین معیار کی لیتھیم دھات کے ذخائر دریافت ہوئے تو سرمایہ دار دنیا اور اس کا ان داتا امریکی سامراج فوری حرکت میں آ گئے۔

لیتھیم وہی دھات ہے جس سے ری چارج ایبل بیٹری بنتی ہے، جس پر نئی ابھرتی ہوئی عالمی الیکٹرک کار انڈسٹری کا مکمل انحصار ہے۔ بولیویا میں چاندی اور ٹن کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں، لیکن ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں آنے والے سالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لیتھیم کی بہت اہمیت ہے۔ سامراجی ممالک نے بولیویا میں لیتھیم کے ذخائر کو ہڑپنے کے لیے کھربوں ڈالر لگا کر خطے میں میڈیا پراپیگنڈہ کا ایسا جال بچھا تھا، جس کا نشانہ بولیویا کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد کے ممالک بالخصوص وینزویلا کو بھی بنایا گیا تھا، جہاں 5 مارچ 2013 ء کو نامور انقلابی راہنما اور ملک کے صدر ہیوگو رافیل شاویز کے انتقال کے بعد بغاوت کروانے کے لیے سافٹ ٹارگٹ تصور کیا جاتا تھا۔

سامراجی ممالک نے وہاں ڈالروں کی برسات کر کے سیاسی بحران پیدا کرنے اور عوامی بغاوت کروانے کی کوششیں کیں۔ پھر کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے لوکل میڈیا تک رسائی کرتے ہوئے ڈالروں کے بہاؤ سے بولیویا اور وینزویلا میں پراپیگنڈہ کا ایسا جال بچھایا گیا اور جھوٹ اس تواتر کے ساتھ بولا گیا کہ ان ممالک سے سچ ناپید ہونے لگا۔ انہی حالات میں جب اکتوبر 2019 ء میں بولیویا میں قومی انتخابات منعقد ہوئے، اور سوشلسٹ صدر ایوو مورالس کو فاتح قرار دے دیا گیا، تو مغربی میڈیا نے ان انتخابات کو متنازعہ بنا دیا اور الیکشن میں دھاندلی کا اس قدر پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے۔

بولیویا میں 21 روز جاری رہنے والے مظاہروں کے نتیجے میں ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا، اور نو منتخب صدر ایوو مورالس نے 10 نومبر کو نئے انتخابات کروانے کا بھی وعدہ کر لیا تھا، لیکن سامراجی چالیں کارگر ثابت ہوئیں اور ملکی صدر مورالس اور ان کے نائب صدر الوارو گارسیا کو پولیس اور فوج کی بغاوت کے ذریعے ان کے عہدوں سے استعفوں پر مجبور کر دیا گیا۔ بعد ازاں بولیویا میں امریکی سامراج کی کھلی مداخلت کے باوجود اکتوبر 2020 ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بولیوین عوام نے موومنٹ فار سوشلزم کے راہنما کامریڈ لوئس آرس کو 28 فیصد کے مقابلے میں 55 فیصد کی بھاری اکثریت سے کامیاب کروا کر امریکی سامراج اور اس کے حواریوں کے منہ پر زور دار طمانچہ دے مارا۔

دنیا میں گوریلا انقلابی تحریکوں کی علامت کامریڈ چی گویرا کے دیش اور جنوبی امریکہ کے دوسرے بڑے ملک ارجنٹائن میں بھی انقلابی تحریکوں کی لمبی تاریخ ہے، جس نے وقفے وقفے سے خطے میں سامراجی نیو کالونیل مفادات کو چیلنج کیا۔ ارجنٹائن میں 1896 ء میں پہلی سوشلسٹ پارٹی قائم ہوئی تھی، جو اپنے سماجی انصاف اور معاشی برابری کے پروگرام کی بدولت جلد ہی ملک کی بڑی عوامی پارٹی بن گئی۔ اس تحریک میں بہت سے سوشلسٹ مفکرین تھے، جن میں جوآن بی جسٹو، اور نکولس ریپیٹو قابل ذکر ہیں۔

بعد ازاں 1904 ء میں سوشلسٹ پارٹی کے رکن الفریڈو پالاسیوس ارجنٹائن کے انتخابات میں ملک کے پہلے سوشلسٹ نائب منتخب ہوئے۔ اس زمانے سے آج تک ارجنٹائن خطے میں سامراج مخالف اور انقلابی تحریکوں کا مرکز بنا آ رہا ہے۔ مختلف ادوار میں سینٹرل لیفٹ کی سیاسی پارٹیوں کی حکومت بنی تو انہوں نے ملک میں زرعی اصلاحات اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو قومی ملکیت میں لینے کے لیے کچھ اقدامات کرنے کی بھی کوشش کی۔ گزشتہ دنوں قطر میں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں ارجنٹائن کے لیونیل میسی نے اپنے ملک کو ایک بار پھر عالمی خبروں کا مرکز بنا دیا۔

اس سے قبل 1986 ء میں ڈیاگو آرمانڈو میراڈونا بھی کم نہ تھے۔ میراڈونا ایک کھلاڑی کے ساتھ ساتھ انقلابی بھی تھے۔ وہ 2014 ء میں ایک عالمی امن میچ کے دوران پوپ سے ملے، جب وہ سکولاس فاونڈیشن کے تحت ضرورت مندوں کی دیکھ بھال کے لیے فنڈ ریزنگ امن میچ کھلنے اٹلی گئے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ پوپ نے انہیں کہا کہ آپ نوبل کاز کے لیے کام کر رہے ہیں، جبکہ میرے پاس کچھ عملی کام کرنے کے مواقع محدود ہیں۔ اس پر میراڈونا نے پوپ سے کہا کہ یہ جو چھتیں اور دروازے آپ نے سونے کے لگوا رکھے ہیں، انہیں بیچ کر بھوک سے بلکتے بچوں کو خوراک کیوں نہیں مہیا کر دیتے۔ ایسا کرنے سے تو آپ کو کوئی نہیں روکتا اور نہ ہی خدا کو سونے، چاندی کی ضرورت ہے۔ اسی لیے تاریخ دان لکھتے ہیں کہ ارجنٹائن میں قومی آزادی اور سوشلسٹ اصلاحات نے دنیا میں قوموں کی شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جون 2022 ء میں کولمبیا میں ہونے والے انتخابات میں سابق گوریلا راہنما گسٹاؤ پیٹرو کی فتح نے خطے میں واقعی ترقی پسند سیاست کو مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں۔ کولمبیا ایک عرصہ سے عالمی سطح پر منشیات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اور وہاں ایک دہائی پر محیط خانہ جنگی سے 3 لاکھ افراد ہلاک اور 20 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کولمبیا ہمیشہ سے امریکی سامراج کے تسلط میں رہا، اور وہاں تاریخ میں پہلی بار ایک سوشلسٹ راہنما کا الیکشن کے ذریعے اقتدار سنبھالنا ایک بڑی پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔

گسٹاؤ پیٹرو کے بائیں بازو کے پلیٹ فارم نے ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے، تعلیم اور صحت کے ضمانت دینے، ملک میں خانہ جنگی ختم کر کے امن عمل کو منتقی انجام تک پہنچانے، سوشل ویلفیر کا مضبوط نظام مرتب کرنے اور اسے وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان انتخابات میں گسٹاؤ پیٹرو کے ساتھ ساتھ ان کی ساتھی محترمہ فرانسیا مارکیز بھی ملک کی نائب صدر منتخب ہوئی ہیں، جو ملکی سیاست میں پہلی سیاہ فام افریقی کولمبین راہنما کے طور پر سیاسی میدان میں اتری تھیں۔

اکتوبر 2022 ء میں جنوبی امریکہ کے سب سے بڑے اور معاشی طور پر مضبوط ملک برازیل میں انتخاب ہوئے تو ورکرز پارٹی برازیل کے راہنما اور اسٹیل ملز یونین کے سابق صدر لوئیز اناسیو لولا نے صدارتی انتخاب جیت کر عالمی منظر نامے پر ایک نئی ہل چل پیدا کر دی۔ برازیل رقبے کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں اور آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک ہے۔ سات ستمبر 1822 ء کو پرتگال سے برازیل کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا، لیکن باقاعدہ طور پر غلامی سے نجات حاصل کرتے ہوئے 1888 ء میں برازیل غلامی ختم کرنے والا براعظم امریکہ کا آخری ملک تھا۔

1889 ء میں ایک فوجی بغاوت نے پہلی برازیلی جمہوریہ قائم کی اور ملک کو آئین کے ذریعے حکمرانی والی جمہوریہ میں بدل دیا۔ اس کے بعد کے برسوں میں ملک پر منتخب صدور کے ساتھ ساتھ فوجی بغاوتوں کے حکومت رہی، خاص طور پر 37۔ 1945 ء تک ورگاس دور اور 85۔ 1964 ء تک براہ راست فوج کی حکومت رہی۔ لولا دا سلوا 2002 ء میں پہلی بار ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ ملک کے پہلے ورکنگ کلاس صدر تھے اور 2010 ء تک 2 بار صدر رہے۔

اس وقت دنیا بھر میں اقتصادی بدحالی عروج پر ہے، کھانے پینے اور عام استعمال کی چیزیں ناپید کر دی گئی ہیں۔ پہلے کوویڈ 19 کی وبائی مرض کے آڑ میں سامراجی ممالک کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کارپویشنوں نے اپنے منافعوں میں کئی گنا اضافہ کیا، اور پابندیوں کر جواز بنا کر پلاننگ کے ساتھ کھانے پینے اور روزانہ استعمال کی اشیاء کا بحران پیدا کر کے دیگر ممالک اور خطوں میں اشیاء کی قلت کر دی۔ بعد ازاں یوکرین روس جنگ کو بنیاد بنا کر ان اشیاء کی مصنوعی قلت کے ذریعے عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔

دوسری طرف ترقی پذیر ممالک میں سامراجی ممالک نے اپنے پپٹ حکمرانوں اقتدار میں لا کر ان کی اکانومی کو ورلڈ بینک اور ایم ایف کے تسلط میں دے دیا ہے۔ ایسے حالات میں لاطینی امریکہ کے ممالک میں بائیں بازو کے صدور کا ایک گروپ اقتدار سنبھال رہا ہے، جو ان ممالک اور وہاں کے ترقی پسندوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ قرضوں میں جکڑی معیشتوں میں اکانومی کے مزید گرو کرنے، روزگار کو مواقع پیدا کرنے، بنیادی ضرورتیں اور سوشل سروسز مہیا کرنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں تا وقتٔ کہ ملکی معاشی ڈہانچے کو توڑ کر دولت کی منصفانی تقسیم کی بنیاد پر تشکیل نو نہ کی جائے۔

کسی بھی ملک کی قومی آزادی کی تکمیل ایسے بنیادی اقدام کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام اور سامراجی غلامی کے سائے میں آزادانہ معیشت کا قیام اور سماجیصضورتیں مہیا کرنے کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے۔ یہی غلطی اس سے قبل برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا سے اپنے 2002 ء سے 2010 ء تک کے دور اقتدار کے دوران کی تھی، یا پھر انہیں انتقال اقتدار ہی مشروط بنا دوں پر محدود اختیارات کے ساتھ کیا گیا تھا۔

لینن نے ایک بار کہا تھا کہ سرمایہ ایک بین الاقوامی طاقت ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے، ایک بین الاقوامی مزدور اتحاد، ایک بین الاقوامی مزدور بھائی چارے کی ضرورت ہے۔ مارکس اور اینگلز نے بھی کمیونسٹ مینی فیسٹو میں دنیا کے محنت کشوں کو متحد ہونے کا کہا تھا۔ ان ممالک کے اردگرد بچھے ہوئے سامراجی جال اور قرضوں کی خودکش مائینز میں رہتے ہوئے سوشلسٹ راہنماؤں کے اپنے کارکردگی کا لوہا منوانے کے خواب ادھورے ہی رہتے ہیں، تا وقت کہ بنیادی اصلاحات نافذ کر کے طاقت کے توازن کو غیر طبقاتی بنیادوں پر مرتب نہ کیا جائے۔

اس قسم کے سامراجی شیطانی جبر کے مقابلہ میں انتخابی فتح بہت سی جگہوں پر معمول بھی رہا ہے اور متاثر کن بھی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کے لیے انتہائی انقلابی ہے جنہوں نے خود کو دائیں بازو کی حکمرانی کی گرفت سے آزاد کر لیا ہے۔ ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی لاطینی امریکہ کی سیاست میں بائیں بازو کی اس فتح کو بغیر کسی چیلنج کے جانے نہیں دیں گے۔ وہ اس خطے میں آنے والی اس نئی اور اہم تبدیلی کو کمزور کرنے اور شکست دینے کے لیے ہر حربا اور اپنے اختیار میں ہر آمرانہ آلے کا استعمال کریں گے، جس میں بلاشبہ مین اسٹریم میڈیا میں ان کے ایجنٹ بھی شامل ہیں۔

یہ ہم سوشلسٹوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان تبدیلیوں سے سبق سیکھیں، جو ہم لاطینی امریکہ سے اپنی جدوجہد کے لیے حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ ہم دنیا میں کہیں بھی ہوں، جب لاطینی امریکہ کے ممالک پر دائیں بازو والے اور سامراجی ممالک حملہ آور ہوں تو ان نئی حکومتوں کی حمایت کے عملی طریقوں کی نشاندہی کریں۔

لاطینی امریکہ کے ان ممالک میں جہاں بائیں بازو کی جماعتوں نے انتخابات جیت کر اقتدار حاصل کیا ہے، بائیں بازو کے وہ رہنما عموماً معاشی اور سماجی مسائل پر مہم چلا کر جیتتے ہیں۔ اب جب کہ وہ اقتدار میں ہیں، انہیں ایک طرف خطے کے سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنا ہو گا، تو دوسری طرف گزشتہ ناکامیوں کے سیاسی نتائج سے نمٹنا ہو گا، چاہے وہ ان کے لیے ذمہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ ابھی بھی اس خطے میں دائیں بازو کی حکومتیں ایکواڈور، یوراگوئے اور پیراگوئے کو کنٹرول کرتی ہیں۔

جبکہ بعض ممالک میں منشیات کی تجارت عروج پر ہے، خاص طور پر کولمبیا میں، جہاں کوکین کی پیداوار عروج پر ہے۔ انہی حالات نے ملک میں تشدد کو ہوا دی ہے اور براعظم کے مختلف حصوں میں ریاستی جواز کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دریں اثنا، جنوبی امریکہ کی معیشتیں، جو پہلے ہی کورونا وائرس وبائی مرض سے سخت متاثر ہیں، روس یوکرین جنگ کے بعد مزید ہنگامہ آرائی کا شکار ہیں۔ اب عملی طور پر ڈلیور تو لاطینی امریکہ کے نو منتخب سوشلسٹ حکمرانوں نے کرنا ہے اور یہ ان کا کٹھن امتحان ہے۔ پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ دنیا کے دیگر خطوں، بالخصوص ایشیاء کے محکوم ممالک اور قرضوں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے عوام لاطینی امریکہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے جدید نوآبادیاتی غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی تکمیل کے جانب بڑھتے ہیں یا پھر غلامی کی ان زنجیروں کو ماضی کی طرح چومتے رہیں گے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments