عورتوں سے نفرت آن لائن اتنی مقبول کیوں ہے؟


خاتون
رومانیہ میں انسانی سمگلنگ، منظم جرائم اور ریپ کے الزام میں گرفتار ہونے والے متنازع برطانوی نژاد امریکی آن لائن انفلوئنسر آندرے ٹیٹ نے خود کو ’خواتینکا قطعی مخالف‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ’ممکن ہی نہیں کہ آپ حقیقی دنیا میں ہوں اور جنسی تفریق نہ کریں‘۔

لیکن 36 سالہ سابق کک باکسر، جنھوں نے آن لائن دنیا بھر میں شہرت حاصل کی، کسی نہ کسی شkل میں  انٹرنیٹ پر خواتین مخالف خیالات کا اظہار کرنے والے واحد شخص نہیں ہیں۔  تاہم بہت سے دوسرے لوگوں کے برعکس ٹیٹ کے سوشل میڈیا پر لاکھوں  مداح جمع ہیں۔

وہ با اثر افراد کے ایک گروپ میں سے ہیں جنھوں نے ایک ایسے طرز زندگی کی وکالت کرکے مقبولیت یا بدنامی حاصل کی ہے جس میں خواتین کو مردوں کے ماتحت ہونے تک محدود کردیا جاتا ہے۔

صرف ٹک ٹاک پر #AndrewTate ہیش ٹیگ والی ویڈیوز کو 12.7 ارب سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اس میں انفلوئنسر پر تنقید کرنے والے افراد کی بنائی گئی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔

ٹیٹ

توجہ کا حصول

الفاظ سخت اور واضح ہوسکتے ہیں لیکن یہ خیالات نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کرتے دکھائی دیے رہے ہیں۔

یہی بات والدین، اساتذہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ٹیٹ کے بعض بیانات سے بڑھ کر پریشان کررہی ہے۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے ریڈیو پروگرام ’دی ریئل سٹوری‘ سے بات کرتے ہوئے نتاشا والٹر کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ بات انتہائی تشویش ناک لگتی ہے کہ بہت سے نوجوان اس قسم کی شخصیت کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ’ایک انتہائی پریشان کن بات یہ ہے کہ کچھ حالیہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوان مرد اب عمر رسیدہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ جنسی رویے رکھتے ہیں۔‘

تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینئر فیلو اور کتاب’بوائز اینڈ مین: وائے دی ماڈرن مین سفر وائی اٹس امپورٹنٹ اینڈ واٹ ٹو ڈو اباؤٹ اٹ‘کے مصنف رچرڈ ریوز کا ماننا ہے کہ ٹیٹ کی مقبولیت ان بہت سے پلیٹ فارمز کے الگوردھم کے پر بھی منحصر ہے جن پر ان کی ویڈیوز شائع ہوتی تھیں۔

یوٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک سمیت متعدد سوشل میڈیا کمپنیوں نے ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ ’خواتین سے نفرت ایک قابلِ نفرت نظریہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔

ٹوئٹرنے ٹیٹ  پر اس وقت پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ جب انھوں نے کہا کہ ’خواتین کوجنسی استحصال کا نشانہ بننے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘۔ اس کے بعد انھیں بحال کر دیا گیا۔

رچرڈ ریوز کا کہنا تھا کہ ’ انھوں نے جان لیا تھا کہ یہ اہم ہے کہ لوگ ان سے نفرت کریں اتنا ہی جتنا آن لائن پیارضروری ہے۔  نفرت کرنے والے مداحوں کو بھی سامنے لاتے ہیں۔‘

’لیکن شائقین اور فالوورز میں یک فرق ہے۔ ان کے مواد کو دیکھنے والے لوگوں کی اکثریت کچھ چیزوں کو پاگلپن قرار دے گی۔‘

ریوز نے مزید کہا کہ  ’میرے لیے جو باعث پریشانی وہ لوگ  یں وہ  سچ مچ ان کی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، برطانیہ میں اساتذہ کو ٹیٹ کی تعریف کرنے والے طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اس لیے اساتذہ کو اس بات پر کام کرناپڑ  رہا ہے کہ اس کا کس طرح جواب دیا جائے، بشمول اس بات پر بحث کرنا کہ دقیانوسی تصورات کیا ہیں اور وہ کہاں سے آتے ہیں۔‘

نفرت

وسیع پیمانے پر عورتوں سے نفرت

فالوورز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیٹ نے خود کو آن لائن لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی آواز بنایا اور ان کے خیالات کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہے ہیں۔

 دی ریئل سٹوری کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران صحافی اور مصنفہ صوفیہ سمتھ گیلر نے کہا کہ وہ یقینی طور پر خواتین مخالف مواد فراہم کرنے والے واحد شخص نہیں ہیں۔ وہ  آن لائن کمیونٹیز میں جنسیت کا مطالعہ کرتی ہی۔

ان کا کہنا ہے کہ  اس طرح کے مواد کی بہتات ہے۔

’ہم جانتے ہیں کہ کووڈ 19 وبا کے بعد سے خواتین مخالف آن لائن مواد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن جب سے انٹرنیٹ شروع ہوا ہے تب سے یہ جاری ہے۔

 سمتھ گیلر نے کہا ’اینڈریو ٹیٹ جیسے بہت سے لوگ سالوں سے موجود ہیں‘

 لیکن ایسا کیوں ہے؟ کینٹ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے ایمریٹس پروفیسر فرینک فریڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ آن لائن سیاق و سباق کو حقیقی دنیا سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ’آن لائن تجربہ لوگوں کے آف لائن تجربے سے گہرا تعلق رکھتا ہے  اور ہم جن چیزوں پر بات کر رہے ہیں ان میں سے بہت سی سوشل میڈیا پہلے سے موجود ہیں اور ان میں سے بہت سے آف لائن دنیا میں پھل پھول رہے ہیں۔

پروفیسر فریڈی  سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے خیالات ’لوگوں کی اظہار رائے کی خواہش اور ان پر توجہ دیے جانے کی خواہش سے پیدا ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق  توجہ اور شناخت کی یہ خواہش آن لائن پوری ہو جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’میرے خیال میں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک ایسی جگہ  فراہم کرتے ہیں جہاں لوگ توجہ حاصل کر سکتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ وہ توہین آمیز تبصرے کی بنیاد پر توجہ یا پہچان حاصل کر رہے ہیں۔‘

نفرت

برطانیہ میں اساتذہ کو ٹیٹ کی تعریف کرنے والے طالب علموں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

آف لائن جنسی تعصب سے نمٹنا

ماہرین  تعلیم کاخیال ہے کہ آن لائن دیکھی جانے والی تحمل کی کمی’آف لائن مسئلے‘کی علامت ہے۔

’کسی نہ کسی طرح ہمیں نوجوانوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی آف لائن دنیا میں شرکت کرنا ہوگی۔‘

 نتاشا والٹر کو اس بات کا خطرہ نظر آتا ہے کہ بحث کا محور ایک ایسے بیانیے پر منتقل ہو جائے گا جس میں مرد متاثرین کے طور پر نظر آتے ہیں۔

 وہ سمجھتی ہیں کہ صنفی دقیانوسی تصورات سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے جو’خواتین اور مردوں دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیںآ

ان کا کہنا ہے کہ مردوں اور عورتوں کو مردانگی اور تشدد، یا نسوانیت اور بلا معاوضہ مزدوری، یا ہائپر سیکسوئل نسوانیت کے درمیان تعلق کو توڑنے کے لیے مل کر کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ لیکن رچرڈ ریوز ان وجوہات کو سمجھنے کی اہمیت پر بضد ہیں جو خواتین مخالف ڈیجیٹل مواد کی مانگ کو تقویت دیتی ہیں۔

 انھوں نے مزید کہا کہ  ’مجھے نہیں لگتا کہ اس چیز میں دلچسپی صرف اس لیے ہے کہ یہ تمام مرد اور لڑکے خواتین مخالف ہیں، بلکہ اس لیے کہ ان میں سے بہت سے لوگ لیبر مارکیٹ، خاندانی زندگی اوراسکولوں میں جدوجہد کر رہے ہیں‘۔

یہ کہنا کسی بھی طرح سے اس کام کو کم نہیں کرتا ہے جو ہمیں اب بھی عورتوں اور مردوں کے لیے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ دنیا کے چند بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اینڈریو ٹیٹ پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔

صوفیہ سمتھ گیلر کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہر پلیٹ فارم میں ایک مسئلہ ہوتا ہے اور مثال کے طور پر آن لائن ہراسانی پر کیے جانے والے تمام مطالعات میں یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وسیع پیمانے پر دستاویزی شکل دی گئی ہے۔’

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان کمپنیوں کے لیے موڈریشن  ایک چیلنج ہے کیونکہ انھیں ہر قسم کی نفرت انگیز مکالموں سے نمٹنا پڑتا ہے لیکن ان کاکہنا ہے کہ آن لائن دنیا کو کم امتیازی اور جنسی متعصب  بنانے میں ان کی کچھ ذمہ داری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’ یقینا آن لائن بہت زیادہ خواتین مخالف مواد موجود ہے کہ اس سے نمٹنے کی کوشش کرنا بہت مشکل محسوس ہوسکتا ہے، لیکن کم از کم اسے بڑھایا نہیں جانا چاہیے۔‘

 ٹیٹ نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کے خیالات کو ’غلط سمجھا گیا‘ سیاق و سباق سے ہٹ کر ’غلط بیانیہ‘ پیش کرنے کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ وہ انسانی سمگلنگ اور ریپ کی تحقیقات کے سلسلے میں تمام الزامات سے بھی انکار کرتے ہیں۔  


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments