ٹرپل ایکس اور مولانا کے پچاس ارب


معاف کیجئیے گا اگر مضمون کے نام سے آپ کو یہ گمان پیدا ہو کہ شاید کوئی بالغان کے لیے فلم چلنے لگی ہے۔ کیونکہ جن تین ایکسز کی بات مجھے کرنا ہے، انہیں یہ نام جچے گا بھی بہت۔
جب تک ہمیں دنیا کی سمجھ آئی، اس سے پہلے تک ہمارے نزدیک ایکس صرف سابقہ بوائے یا گرل فرینڈ ہی ہو سکتے تھے۔ یا زیادہ ہی تیر مار لیا تھا تو ایکس ہسبینڈ یا وائف۔ حتی کہ زیادہ تر کیسز میں میاں بیوی ایکس ہونے کی خواہش کے باوجود ہمیشہ وائے رہتے ہیں ۔

ایسا نہیں کہ ہمیں یہ جانکاری نہیں کہ بالغان کی دنیا میں ٹرپل ایکس کا کیا مطلب ہے، مگر یہاں بات وہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ کیا کریں اب ہمیں صاف صاف اور سیدھا سیدھا لکھنے کی عادت جو ہو چکی ہے۔ تو آپ بھی برداشت ہی کیجئیے۔

وطن کی محبت میں ہم سوختہ سروں نے وہ قرض بھی اتارے جو واجب بھی تھے اور نہیں بھی۔ مثلاً ہم ابھی سوچتے ہیں کہ آج سے کئی سال پہلے ہمارے لیے اس ملک کو چھوڑ کے جانا کس قدر آسان تھا۔ کم سے کم مڈل ایسٹ کے کسی ملک میں سکون سے بیٹھے خمس کھانے کے عادی ہو چکے ہوتے۔ مگر کہاں، ہمیں تو بس لاہور کی سڑکوں پہ خوار ہو کے ریگل سے حلیم ہی کھانی تھی۔

اپنی مٹی، اپنا ملک اپنے لوگ اپنی زبان اور اس زبان میں محبت کے گیتوں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ میں تے میرا دلبر جانی کو کوئی انگریز کیا ہی سمجھ پائے گا۔ سو یہیں نہر والے پل ہم نے اپنی لکیروں میں بسا لیے۔

ہمیں کیا خبر تھی کہ آج وہ دن بھی دیکھنا پڑیں گے، جب کسی دوست کو کال کریں گے تو وہ گپ شپ کی بجائے اپنے دکھ گنوانے لگے گا۔ وہ دکھ جو اس کے کاروبار کو راتوں رات تباہ کر رہے ہیں۔ کسی ملازمہ کے ساتھ دو گھڑی بات کریں تو وہ بتانے لگتی ہے کل شوہر کی دیہاڑی نہیں لگی، بخار کی وجہ سے گھر آ گیا اور دوا کے لیے نہ وسائل ہیں نہ کوئی امید۔

دیکھتے ہی دیکھتے ملک مہنگائی کی بدترین لہر میں پہنچ جائے گا۔ بے روزگاری سے لڑتے جوان چوریاں، ڈکیتیاں اور راہزنی کی وارداتیں کرنے پہ مجبور ہو جائیں گے۔ کھانے کے لالے پڑ جائیں گے۔ ڈھائی سے تین کروڑ بچہ سکول جانے سے محروم ہو جائے گا۔ ملک کو اسلام کا قلعہ بناتے بناتے ملک کی جڑیں ہی کھوکھلی کر دی جائیں گی۔ غداری کے تمغے اور توہین کے الزام زبان زد عام ہو جائیں گے۔ سانس لینا بھی دو بھر کر دیا جائے گا، یہ کسے خبر تھی۔

ان تمام حالات کا ذمے دار کوئی ایک شخص نہیں۔ ہر ایک نے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔ لیکن پچھلے ساڑھے چار سال دور نے تو ہمیں وہ کچھ دکھایا اور سمجھایا جسے شاید ہم اگلے کچھ سالوں میں سمجھتے۔

بطور حکمران خان صاحب اور دفاعی ادارے کے سربراہ کے طور باجوہ صاحب اور فیض حمید صاحب کا کردار ہر اس انسان کے سامنے ہے، جسے سوچنے کا مرض لاحق ہے۔ جسے مشاہدے کی بیماری ہے وہ دیکھ سکتا تھا اور ہے کہ ملک کی بربادی ہو رہی ہے، اس ملک کی جس کی مٹی اس کی پہچان ہے، جس کی فضا میں سانس لینا عبادت جیسا ہے۔

ہماری دیگر سیاسی جماعتوں کا کردار بھی انتہائی شرمناک رہا۔ سب لوگ واضح طور پہ دیکھ اور سمجھ رہے تھے کہ کارکردگی کے نام پہ خان صاحب کی حکومت کے حصے میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن اقتدار کی ہوس میں موجودہ حکمران سر کے بل اپنے منہ پہ خود کالک ملنے گئے۔ اس وقت وہ ذرا ایک بار عوام میں نکل کے اپنے بارے میں رائے لے کر دیکھ لیں۔ پتہ لگ جائے گا۔

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے آج حکومت لے کر بھی ناکام کیوں ہیں۔ سوچنے کی بات ہے۔ میاں نواز شریف صاحب نے یہ سیاسی موت کیوں قبول کی، اس پہ عقل حیران ہے۔

ہم یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ جب سیاستدان کو عقل آتی ہے تو یا وہ جلا وطن ہو جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔ ہم بی بی کی شہادت کو بھول اس لیے نہیں سکتے کہ اس کے بعد ویسی جی دار عورت ہمیں پاکستان میں کہیں نہیں نظر آئی۔ ہاں بس نظر آئے تو وہ جنہیں سیکس وڈیوز ریلیز کرنی ہیں اور پرسنل آڈیوز عوام کو سنوا کے ان کا دھیان اصل مسائل سے ہٹائے رکھنا ہے۔

لیکن رکئیے!
ان سب تباہیوں، ملک کی بربادی اور عوام کی بدحالی کے باوجود کچھ قوتیں اور لوگ ایسے ہیں جن کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں رہا اور رہے گا۔

آپ سوچیں گے کہ ایسا کون خوش قسمت ہے تو جناب زیادہ دور تک سوچنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ بقول شاہ رخ خان امی کہتی ہیں کہ کوئی دھندا چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، اور دھندے سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ لہذا آپ حوروں کے نام پہ پچاس ارب بھی کما سکتے ہیں۔ اور اس کمائی سے کینیڈا میں بیمار رہ کے علاج بھی کروا سکتے ہیں۔ غریب کا کیا ہے وہ تو حور کے خواب سے ہی خوش ہو کر عجوہ کھجور کا پیسٹ کھا بھی لے گا اور نور کے لیے چہرے پہ مل بھی لے گا۔ لیکن مولانا بات یہ ہے کہ ”ایہہ کوئی چنگیاں گلاں نہیں کہ ایک مسلمان اپنے لیے تو سائنس کا انتخاب کرے اور اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو کھجور کی گٹھلیاں پیسنے کا کہے“ ۔

سو اس وطن عزیز میں جس کی مٹی کی چاہ میں ہم تباہ حال ہو گئے، اگر آپ کو پروٹوکول اور شان بے نیازی سے چلتے پھرتے لوگ نظر آئیں تو سمجھ لیں کہ ان کا تعلق یا تو ٹرپل ایکس پارٹی سے ہو گا یا پھر لوگوں کے عقیدوں کو کیش کرانے والے اربوں کے مالک پارٹی سے۔
ان سب کو دیکھتے ہوئے سوچئیے کہ آپ نے کیا کمایا اور کیا پایا۔ میں بھی آج کل یہی سوچ رہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments