میاں افتخار الدین کے خواب کیا ہوئے؟


ہفتہ 18 اپریل 1959 کی آدھی رات کو لاہور میں پروگریسو پیپرز، روزنامہ پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفتہ وار لیل و نہار کے دفاتر کو مسلح پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ایک جتھے نے گھیر لیا اور رات کی شفٹ کے اسٹاف کو باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔ ٹھیک اسی وقت اسی طرح کے ایک اور جتھے نے کمپنی کے چیئر مین میاں افتخار الدین کی باغبان پورہ میں واقع شاندار حویلی کا محاصرہ کر لیا۔ یہ پاکستان کا وہ سیاہ دور تھا جب ایوب خانی مارشل لاء اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ چار سو تاریکی بکھیر رہا تھا۔

اگلے روز صبح جب اخبار کے ایڈیٹر مظہر علی خان اپنے دفتر پہنچے تو انہوں نے دفتر کے اندر ہر طرف پولیس والے دیکھے۔ غاصب حکمرانوں کی طرف سے مقرر کردہ ایڈ منسٹریٹر نے مظہر علی خان کو مطلع کیا کہ پروگریسو پیپرز کے تمام کاروبار اور اس کے اثاثہ جات کو حکومت نے بحق سرکار ضبط کر لیا ہے البتہ ادارے کے تمام اخبارات اور جرائد اسی طرح شائع ہوتے رہیں گے۔ پروگریسیو پیپرز کا فلیگ شپ انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز اس وقت پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا اخبار تھا اور اس کی لوح پر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا نام بانی کے طور پر تحریر ہوا کرتا تھا۔

کمپنی کے چیئرمین میاں افتخار الدین اس وقت پاکستان کے ایک بڑے اہم سیاستدان تھے۔ وہ 1907 میں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے والد پنجاب کے بہت بڑے جاگیردار تھے اور ان کی وسیع و عریض اراضی لاہور کے نواح میں پھیلی ہوئی تھی کہتے ہیں کہ میاں افتخار الدین کے اجداد شاہ جہاں کے زمانے سے ہی شالا مار اور اس کے ملحقہ باغات کے نگران بھی چلے آرہے تھے۔ شالا مار باغ کے نقار خانہ کی چابیاں بھی نسل در نسل میاں صاحب کے خاندان کی تحویل میں ہی تھیں۔

میاں افتخار الدین نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور میں واقع اشرافیہ کے لئے مخصوص تعلیمی ادارے ایچی سن سے حاصل کی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ کی مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی کا رخ کیا، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس لاہور آ گئے اور اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے لیکن 1930 کی دہائی کی وسط میں انہوں نے ملکی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اور آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔

1937 میں ہندوستان میں پہلی دفعہ صوبائی سطح پر عام انتخابات ہوئے تو میاں افتخار الدین واحد مسلمان تھے جو لاہور سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ میاں صاحب کے پاس دولت کی فراوانی تھی باغبان پورہ میں ان کی قلعہ نما حویلی غیر منقسم ہندوستان کے بڑے بڑے قومی سیاستدانوں اور رہنماؤں کا مرکز بن گئی، ان کی حویلی کے مہمان خانے ہمہ وقت کھلے رہتے، دستر خوان بچھے رہتے کانگریس کی اعلی قیادت بشمول نہرو یہاں ہی پڑاؤ ڈالتے تھے اسی حویلی میں میاں صاحب گاندھی، نہرو، مولانا آزاد اور باچا خان سے باہم صلاح مشورے کرتے تھے۔ نہرو اور گاندھی میاں افتخار الدین کو پنجاب میں اپنا ذاتی نمائندہ تصور کرتے تھے۔

1944 میں ہندوستان کا سیاسی منظر بہت تیزی سے بدلنے لگا اور مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھرنے لگی۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سجاد ظہیر میاں صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے انہوں نے میاں افتخار الدین کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ وہ 1945 میں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور 1946 کے دوسرے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پھر جیت گئے۔

مسلم لیگ کا ترجمان انگریزی اخبار ڈان 1941 سے دہلی سے شائع ہو رہا تھا لیکن پنجاب میں مسلم لیگ کا کوئی ترجمان اخبار نہیں تھا۔ محمد علی جناح نے یہ ذمہ داری میاں افتخارالدین کو سونپ دی۔ میاں صاحب نے فوراً ہی لاہور میں پروگریسو پیپرز کے نام سے ایک ادارہ قائم کر دیا اور تقسیم ہند سے چھ ماہ قبل ہی 4 فروری 1947 کو انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز کا پہلا شمارہ شائع کر دیا۔ میاں صاحب کا یہ بھی بہت بڑا کارنامہ تھا کہ انہوں نے اس اخبار کو کامیابی سے چلانے کے لیے بہت سے ترقی پسند عالی دماغ جمع کر لیے جن میں فیض احمد فیض، مظہر علی خان، چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی اور سید سبط حسن وغیرہ شامل ہیں۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد میاں صاحب پنجاب مسلم لیگ کے پہلے صدر بھی منتخب ہو گئے اور کابینہ میں وزیر برائے آباد کاری مہاجرین بھی بنا دیے گئے۔ وہ ایک ریاست نما اراضی کے مالک تھے۔ ان کے پاس دولت کے انبار تھے وہ چاہتے تو دوسرے جاگیر داروں کی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن انہوں نے فکر و انقلاب کا راستہ اپنایا۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس راستے میں کتنے تکلیف دہ اور جان گسل مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ خود جدی پشتی جاگیردار ہونے کے باوجود سرمایہ داری اور جاگیردارانہ نظام کے سخت مخالف بن گئے۔

1949 میں بطور وزیر انہوں نے پنجاب میں بنیادی زمینی اصلاحات کی تجویز پیش کی کہ زرعی اراضی کی ملکیت محدود کردی جائے اور حاصل شدہ اراضی کو بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دیا جائے اور زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس بھی لگادیا جائے۔ تاہم مسلم لیگ کی زمیندار اور جاگیردار قیادت کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ مسلم لیگ مرکزی اور صوبائی قیادت جو واضح طور پر زمینداروں اور جاگیر داروں پر مشتمل تھی بری طرح چراغ پا ہو گئی۔ اسی دوران مرکزی پارلیمنٹ میں قرار داد مقاصد پیش کردی گئی۔ میاں صاحب نے اس قرار داد کی بھی مخالفت کی۔ وہ واحد مسلم رکن تھے جنہوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

نومبر 1950 میں میاں صاحب نے ایک نئی سیاسی جماعت ”آزاد پاکستان پارٹی“ کے نام سے تشکیل دی۔ 1957 میں ان کی یہ سیاسی پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی میں ضم ہو گئی۔ اکتوبر 1958 میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور تمام ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ اس طرح میاں صاحب کا سیاسی کیریئر اختتام کو پہنچا۔ البتہ پروگریسیو پیپرز جیسا ادارہ اب بھی ان کی دسترس میں تھا وہ ہی اس کے مالک کل تھے۔ اس کے بینر تلے شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل ان کے خیالات و افکار کی ترجمانی کر سکتے تھے اور کرتے تھے۔

میاں صاحب کو کامل یقین تھا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ایک روشن خیال، روادار اور سیکولر معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بالکل آزاد اور غیر جانبدار بنیادوں پر استوار کی جائے۔ معاشی پالیسیاں اس طرح کی بنائی جائیں کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر نہ ہو جائے بلکہ ملکی وسائل عوام کے درمیان مساوی بنیادوں پر تقسیم ہو سکیں۔ حالانکہ وہ کبھی بھی اپنے ادارے کے اخبارات اور جرائد کی ادارتی پالیسیوں پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے لیکن جس ادارے کو فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، سبط حسن، مظہر علی خان جیسے افراد اور ذہن میسر ہوں اس ادارے نے عوام اور سماج کی بھلائی کے متعلق ہی سوچنا تھا اور اس کا اظہار کرنا تھا۔

ایوب خانی مارشل لا نے ہمارے معاشرے اور سماج کی بنیادیں ہلا ڈالیں اور اس زمانے میں آزادی اظہار پر بھی ایسی قدغنیں عائد کرنا شروع کردی گئیں جو کبھی برطانوی راج میں بھی نہیں لگائی گئیں تھیں۔ اس سلسلے میں پہلا وار میاں افتخار الدین کے ادارے پروگریسو پیپرز پر کیا گیا اور 1959 میں پورے ادارے پر ہی قبضہ کر لیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد میاں صاحب بجھ سے گئے اور 1962 میں عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر صرف 54 سال کی عمر میں دنیا سے ہی منہ موڑ گئے۔ فوجی آمر نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ میاں افتخار کی آنکھ بند ہوتے ہی شالامار باغ کی نگرانی بھی میاں صاحب کے خاندان سے چھین لی اور باغات سرکاری ملکیت میں لے لئے۔

افسوس! آج 65 سال گزرنے کے بعد بھی صرف چہرے بدل گئے ہیں، لیکن فسطائیت اسی طرح بر قرار ہے۔ آج بھی ایک صحافی شاہد اسلم گرفتار ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں سابق ہونے والے فوجی سر براہ کے ذاتی اثاثوں کی تفصیل حاصل کر کے ایک رپورٹ کی شکل میں جاری کردی تھی۔ پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے قائد بھی اسٹیبلشمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو کر تختہ دار پر جھول گئے تھے۔ ان کے متوالے اور جیا لے آج بھی اپنے قائد کے بارے میں زندہ ہے، زندہ ہے کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ پھانسی پر چڑھ جانے والا مرد قلندر تاریخ میں ضرور زندہ ہے لیکن پاکستان کا پہلا فوجی آمر ایوب خان 1958 کے بعد سے آج تک شکل بدل بدل کر تخت پر براجمان ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اب بھی کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments