اردو میڈیم والے موٹیویشنل سپیکر


اگر آپ پبلک سپیکنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور آپ نے چند کتابیں ڈیل کارنیگیی کی پڑھ رکھی ہیں اور اشفاق احمد کے پروگرام زاویہ کی کچھ اقساط دیکھ چکے ہیں تو بس جلدی سے جاوید چودھری کے کچھ کالم پڑھ ڈالیے، تاکہ آپ اپنے اسلاف کی تاریخ سے سبق آموز واقعات کا ذخیرہ بھی حاصل کر لیں۔ مذہبی ٹچ کے لئے آپ اپنے پسندیدہ مبلغ کے وعظ سن سکتے ہیں یا کسی مذہبی جماعت کے زیرسایہ کچھ وقت بتا سکتے ہیں۔ ان سارے اجزاء کے ساتھ آپ ایک کامیاب اردو میڈیم والے موٹیویشنل سپیکر بن جائیں گے۔ آپ کو بس ایک یو ٹیوب چینل کھولنا ہے اور ان کی مانیٹائزنگ پالیسی کی بدولت اپنے سوئے ہوئے بھاگ جگانے ہیں۔

آپ کو آج کل سوشل میڈیا پر اردو میڈیم والے موٹیویشنل سپیکرز کی بھرمار ملتی ہے اور یہ سب کو آپ کو ایک محب وطن پاکستانی بنانے کے ساتھ ساتھ، نیک، ایماندار، ایثار کرنے والا، اپنے اردگرد کے لوگوں کا احساس کرنے والا، پیسے کے پیچھے نا بھاگنے والا، ماں باپ کی عزت کرنے والا اور دنیا جہاں کی سب خوبیوں کا حامل ایک کامیاب نوجوان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کو انگریز مصنفوں کی کتب سے چرا کر کامیاب زندگی گزارنے کے راز بتاتے ہیں اور ساتھ میں اقبال کا یہ شعر کہ

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

سنا کر محظوظ بھی کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کر دی، سٹیفن کووی کی تصنیف ”سیون ہیبٹس آف ہائلی ایفیکٹو پیپل“
(Seven Habits of Highly Effective People)
کا اردو ترجمہ کر کے، مصنف کا نام بتائے بغیر، پورا لیکچر دیا اور بعد میں مغربی معاشرے کے اخلاقی انحطاط پر سیر حاصل گفتگو بھی کی۔

یہ جس طرح سے پورے مجمے کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں، نہایت متاثر کن ہے۔ ان کے مریدین ان کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کرتے، لیکن آج کل ایک اردو میڈیم والے موٹیویشنل سپیکر صاحب پی ٹی آئی کے کارکنان کے عتاب کا شکار ہیں اور ان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے بہت سے لوگ ان کے اپنے ہی مرید ہیں، جو کہ میرے لئے ایک اچنبھے کی بات ہے۔ لیکن یہاں یہ پہلو دلچسپ ہے کہ یہ دو موٹیویشنل سپیکروں کے درمیان مقابلہ ہے اور ان میں سے ایک کے ماننے والوں کی تعداد دوسرے سے کافی زیادہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ان صاحب کے خلاف شدید ردعمل آیا ہے اور ان کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ گمان ہے کہ اب نوجوان نسل ان کی موٹیویشنل لیکچروں سے مستفید ہونا چھوڑ دے گی۔ لیکن دل نہیں مانتا کہ ایسا ممکن ہو گا کیونکہ وہ موٹیویشنل سپیکر ہی کیا جو اپنی آڈینس کو واپس تسخیر نہ کر سکے۔ مرحوم عامر لیاقت کے کیرئیر میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ لگتا تھا کہ بس اب ان کی دال نہیں گلنے والی کہ اتنے بڑے وقوعے کے بعد لوگ ان کو ٹیلیویژن کی سکرین پر کس طرح برداشت کریں گے۔ لیکن وہ بلا تامل اگلے ہی شو میں اپنی صفائی پیش کرتے اور پھر سے عوام الناس کو دین سکھانے اور انٹرٹین کرنے میں جت جاتے اور اپنے شو کی ریٹنگ واپس لے آتے۔ اس لئے حوصلہ رکھیئے کیونکہ ان سے صاحب سے بھی مجھے یہی امید ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments