کھڑکی


چند روز سے اس کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ جسے موسمی نزلہ زکام سمجھتے ہوئے اس نے توجہ نہ دی۔ معمول کے تمام کام جاری رکھے ویک اینڈ پہ کی جانے والی صفائیاں۔ وہ عموماً ہفتے کے روز گھر صاف کرتی اور اتوار کو اپنے کلائنٹس کے ساتھ اس کی میٹنگز ہوتیں۔ خیر یہ تمام سرگرمی معمول کے مطابق کرنے کے بعد اس کی طبیعت کچھ مزید بگڑ گئی۔ لہذا اسے اپنا چائلڈ کیئر ایک ہفتے کے لیے بند کرنا پڑا۔ رات اپنی دوا لے کر وہ بستر پہ لیٹی اور سوچنے لگی کہ گھر بچوں کے بغیر کس قدر ویران لگتا ہے۔

اپنے ڈے کیئر کے کام سے وہ بہت اچھا محسوس کرتی تھی۔ اسے ان کی ننھی شرارتیں اور مسکراتی آنکھیں یاد آنے لگیں یہی سوچتے سوچتے وہ نجانے کب نیند کی پر سکون وادی میں اتر گئی۔ اور پھر۔ کھانسی شروع ہو گئی اور کچھ ہی دیر میں کھانسی شدید سے شدید تر ہو گئی درد سینے سے ہوتا ہوا گلے اور کندھوں میں پھیلنے لگا تو وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھی۔ اندھیرے میں ادھر ادھر ہاتھ چلانے پہ پانی کی بوتل جو بیڈ پہ پڑی تھی اس کے ہاتھ لگ گئی جلدی سے پانی پیا خشک حلق میں کانٹوں کی چبھن قدرے کم ہو گئی تھی۔

اس نے ہاتھ بڑھا کہ لیمپ روشن کیا۔ گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی۔ اس کے سامنے کھڑکی تھی۔ وہ غیر ارادی طور پہ اپنے پلنگ سے اتری اور کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگی۔ پردہ سرکا کر دیکھا تو گلی میں تاریکی کا سایہ تھا۔ دور ایک کھمبے پہ موجود بلب سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ رات کس قدر خاموش تھی۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے ہلکے سے کھڑکی کھول دی تو سرد ہوا کا ایک جھونکا ایسے محسوس ہوا جیسے ماں نے بڑھ کر گلے سے لگا لیا ہو۔

ماں کا خیال آتے ہی آنکھیں دھندلی ہونے لگیں۔ اسے خیال تو آیا کہ کھڑکی بند کر دے کہیں کھانسی بڑھ نہ جائے مگر نجانے کیوں اس کے ہاتھ بڑھے اور کھڑکی تھوڑی اور کھل گئی وہ میکانیکی انداز سے واپس پلنگ پہ آ لیٹی اور پھر سے آنکھیں موند لی۔ اور اس سرد جھونکے کے سحر میں ڈوب گئی۔ سوچنے لگی۔ شاید یہی جنت کی ہوا ہو گی اس خیال کے ساتھ ساتھ وہ سوچ کی گہری وادی میں اتر گئی جہاں وہ تھی اور اس کی جنت! وہ ایک خوب صورت کشادہ اور سر سبز میدان تھا درخت تھے۔

اور رنگ برنگ پرندے! وہ آنکھیں موندے طرح طرح کی بولیاں سن رہی تھی اور محسوس کر رہی تھی ایک دھن۔ جو روح کی غذا ہے یہ محبت کا وہ گیت ہے جسے وہ سن سکتی ہے محسوس کر سکتی ہے اور کبھی کبھی گنگناتی بھی ہے ہلکی ہلکی نرم دھوپ اس کے چہرے پہ پڑی تو اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول دیں اور اٹھ بیٹھی۔ چند قدم پہ ایک معصوم سا زرافہ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ زرافہ اسے بچپن بہت پسند تھا نجانے کیوں اسے وہ بہت معصوم اور بھلا لگتا تھا ہمیشہ تصویروں میں دیکھا تھا یا شاید چڑیا گھر میں۔

آج یوں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر میرے آنسر کا بچہ کس قدر خوش ہو رہا تھا پھر اس نے دوسری جانب گردن گھمائی اور وہاں ایک ندی تھی بہت پر سکون۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے بچے بھی اسی جگہ پہ مختلف سمتوں میں محو سفر ہیں! وہ اٹھی اور دھیرے دھیرے ندی کی جانب چلنے لگی اس ماحول سے تازگی اور توانائی کا ایک اچھوتا احساس اسے اپنے رگ و پے میں دوڑتا ہوا محسوس ہونے لگا اسے اسی پانی کے اس پار اپنی بیٹی دکھائی دی جو اپنے کتے (لیو) سے کھیل رہی تھی اس نے چاہا کہ وہ ذرا قریب سے دیکھے۔

یہ سوچتے ہی وہ ہولے سے اٹھی اور آہستہ آہستہ پانی کی جانب چلنے لگی وہ دھیرے دھیرے پانی میں اتر نے لگی۔ اسے پانی کے بہاؤ نے اپنے سحر میں کچھ ایسے جکڑا کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ اپنی بیٹی سے بجائے قریب ہونے کے مزید دور ہو گئی اس نے بہت ہا ہو ہار کی۔ شور مچایا مگر یہاں ہر طرف خاموشی تھی گہری خاموشی۔ اس نے بہت آوازیں بھی دیں مگر شاید۔ بیٹی اور لیو تک آواز نہیں پہنچی۔ پھر وہ وہ سوچنے لگی کہ یہ بھی کیا دنیا ہے! کیا وہ ہمیشہ یہیں رہ سکتی ہے۔ مگر کیسے؟ کھانسی پھر سے دروازہ کھٹکھٹائے لگی اور اسے اٹھ کر خوابوں کی کھڑکی بند کر کے حقیقت کے دروازے کا بند کواڑ کھولنا پڑا

فائزہ گوندل
Latest posts by فائزہ گوندل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments