جب ایمان کو اتحاد پہ فوقیت دی گئی


سن چھیانوے کی بات ہے۔ میں چوتھی میں پڑھتا تھا جب اسکول میں قاریہ کی جگہ قاری صاحب آئے تھے۔ میں جس اسکول میں پڑھتا تھا وہ ایک سرکاری انگلش میڈیم سکول تھا جہاں انگریزی کے لئے آکسفورڈ کی کتاب رائج تھی اور یہ اسکول کو ایجوکیشن یعنی مخلوط تھا جہاں لڑکیاں آٹھویں تک اور لڑکے پانچویں تک پڑھتے تھے۔ اسکول میں اساتذہ خواتین تھیں مگر یہ قاری صاحب سکول کے واحد مرد استاد تھے۔ ہم جو خواتین اساتذہ سے پڑھنے کے عادی تھے ہمیں یہ تبدیلی بہت عجیب لگی۔

ابھی دو چار روز ہی گزرے ہوں گے کہ قاری صاحب نے بچوں سے نماز سننا شروع کردی۔ جب میری باری آئی تو میں نے بھی نماز سنائی۔ قاری صاحب نے کہا کہ تم ثناء نہیں پڑھ رہے۔ پہلے پہل تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ ثناء کیا ہوتا ہے۔ ہمارا گھرانا اہل تشیع مکتب سے ہے اور شیعہ نماز میں ثناء نہیں پڑھتے بلکہ ان کی نماز سورۃ فاتحہ سے شروع ہوتی ہے۔ قاری صاحب نے مجھے دوبارہ کہا کہ نماز شروع سے سناؤ میں نے پھر سے فاتحہ پڑھنا شروع کردی۔ قاری صاحب نے ایک زناٹے دار تھپڑ میرے چہرے پہ رسید کیا اور کہا کہ کل ثناء یاد کر کے آنا۔

ابا جی مولانا محمد حسین نجفی صاحب کے ساتھ ملازمت کرتے تھے اور ہم مولانا صاحب کی کوٹھی میں ہی رہتے تھے۔ مولانا آئے روز مجلس پڑھنے شہر سے باہر کبھی کہیں کبھی کہیں ہوتے تھے اور ابا جی بھی ان کے ساتھ سفر میں ہوتے سو ہم مہینے کے محض چند ہی روز ابا جی کے ساتھ گزارتے تھے وگرنہ وہ مجلسوں کے سلسلے میں پردیس گئے ہوتے تھے۔ میں نے اپنی امی سے ثناء سے متعلق پوچھا ہو گا اور ظاہر ہے کہ میری ماں کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا تو اگلے روز تھپڑ کھانے کے بعد قاری صاحب نے مجھے ثناء یاد کر وادی جو مجھے آج تک یاد ہے۔

چند دن اور گزرے ہوں گے تو قاری صاحب نے ایمان مفصل اور ایمان مجمل سننے کی فرمائش فرما دی۔ ہماری جانے بلا کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ قاری صاحب کے تھپڑ اور ہمارے چہرے کا تال میل اور بڑھ گیا۔ دوچار دن مار کھانے کے بعد والد صاحب ہاتھ آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ایمان مفصل کیا ہے اور ایمان مجمل کسے کہتے ہیں اور یہ مجھے یاد کر وائے تو انہوں نے جواب دیا کہ کل جب قاری صاحب ایمان مفصل یا ایمان مجمل سنانے کا کہیں تو انہیں بتا دینا کہ ہم شیعہ ہیں۔ دوسرے دن میں نے ایسا ہی کیا تو قاری صاحب نے بہت شفقت سے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا روز مار کھاتے رہے۔ جاؤ شاباش۔ جاؤ اپنی کرسی پہ بیٹھ جاؤ۔ ہائیں؟ یہ کیا؟

پھر اس کے بعد اگلے سال پانچویں جماعت پاس کرنے تک مجال ہے جو کبھی قاری صاحب نے مجھے قرآن کے پیریڈ میں کبھی کچھ پڑھنے یا سنانے کا کہا ہو۔ میں اکیلا نہیں تھا میرے ساتھ ثاقب رضا شیرازی اور سید محمد علی کاظمی بھی ہوا کرتے تھے۔ اب معاملہ ایک اور رخ اختیار کر گیا۔ قاری صاحب نے مارنا پیٹنا حتٰی کہ قرآن پڑھانا تک چھوڑ دیا اور ہماری کلاس ٹیچر میڈم زبیدہ امانت علی خان نے ہمیں لکڑی کی کرسی کی ہتھی سے پیٹنا شروع کر دیا۔

ذرا ہوم ورک نہ کیا ہوا ہو، اسکول دیر سے آجائیں، کلاس میں بولتے وقت انہوں نے ہم تینوں میں سے کسی ایک کو دیکھ لیا ہو یا ایسی ہی کوئی اور معمولی وجہ ہو، آپ ہمیں اس ڈنڈے سے بہت مارتی تھیں اور ساتھ میں زور زور سے کہا کرتی تھیں ”کتے شیعہ!“ تمہیں میری کلاس ملی تھی۔ انہی دنوں کہ ایک نئی تبدیلی بھی ہوئی جو مجھے آج تک یاد ہے وہ یہ کہ میڈم کا یہ معمول تھا کہ وہ کمرہ جماعت میں آتے ہی سب سے پہلے بلیک بورڈ کے بالائی جانب بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھتیں پھر تاریخ اور دن۔ بسم اللہ کے نیچے اتحاد ایمان اور تنظیم لکھتی تھیں۔ ایک روز کلاس میں ہی نہیں بلکہ اسکول کی مرکزی عمارت پہ بڑے بڑے جلی حروف میں لکھے ہوئے اتحاد ایمان اور تنظیم کی ترتیب کو ایمان اتحاد اور تنظیم سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ نجانے کیوں؟

انہی دنوں میری میڈم امانت کے بیٹے معاویہ سے سلام دعا ہوئی تھی تو میں نے اسے بتایا تھا کہ تمہاری امی ہمیں بہت مارتی ہیں اور ہمیں پسند نہیں کرتیں تو اس نے مجھے جواب میں یہ کہا کہ چونکہ تم لوگ شیعہ ہو اور شیعہ کافر ہوتے ہیں اس لئے میری امی تمہیں پسند نہیں کرتیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ سید محمد علی کاظمی کن رنگوں میں ہے اور ثاقب رضا شیرازی کہاں گیا لیکن مجھے آج اپنی میڈم امانت کا شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ یاد ہے کہ اس کے بعد ہی میں نے مذہبی کتابیں پڑھنا شروع کی تھیں تاکہ میں معاویہ کو یہ سمجھا سکوں کہ ہم کافر نہیں ہیں۔

پانچویں پاس کر کے میں نے جونیئر ماڈل سکول چھوڑ دیا اور ایلیمنٹری سکول میں داخل ہو گیا۔ چھٹی کا ایک سال میں نے نصاب کی کتابیں شاید ہی دلچسپی سے پڑھی ہوں مگر مناظرانہ طرز کی مذہبی کتابیں خوب پڑھیں اور جان بوجھ کر لوگوں سے مذہبی بحثیں کرنا میرا معمول بن گیا۔ انہی دنوں ہمارے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں جلالپور سیداں کا ایک لڑکا عون ہمدانی میرا شناسا بنا۔ وہ ان دنوں ایک رہائشی سکول مثالی راوین کیڈٹ سکول میں پڑھتا تھا اور اسے سکول اور ہاسٹل میں ویسے ہی رویے کا سامنا تھا جس رویے کو میں جونیئر ماڈل سکول میں بھگت چکا تھا۔

ان کے ہاں اسلامیات کے استاد اور ہاسٹل وارڈن محمد امین صاحب اسے بات بے بات کفر کے فتوے سنایا کرتے تھے اور عون ہمدانی اس صورتحال سے کافی تنگ تھا۔ ایک روز شام کے وقت وہ مجھے امین صاحب کے پاس اس غرض سے لے کر گیا کہ میں ان سے کوئی مناظرانہ بحث کروں اور انہیں یہ سمجھاؤں کہ ہم کافر نہیں ہیں۔ یہ معرکہ ہم نے چند ہی گھنٹوں میں طے کر لیا اور محمد امین صاحب نے ان کتابوں کی فرمائش کردی جو میں نے پڑھ رکھی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ جو کتابیں میں نے پڑھی ہیں ان میں اکثر تو ہمارے مولانا محمد حسین نجفی کی ہی لکھی ہوئی ہیں اور اگلے روز میں نے وہ کتابیں انہیں کتب خانے سے اٹھا کر دے دیں۔

وقت کا دریا بہتا رہا اور سکول، پھر مدرسہ اور کالج کا عہد آ گیا۔ ایک عادت جو مسلسل ساتھ چلتی رہی وہ کتب بینی تھی۔ حتٰی کہ یہ بارہویں جماعت کا زمانہ تھا، میں انٹر پرووینشل لٹریری مقابلے میں گورنمنٹ ڈگری کالج جڑانوالہ سے مضمون نویسی اور اردو غزل کے مقابلے میں انعام لے کر رات کی بس سے واپس سرگودھا آ رہا تھا کہ مجھے بس میں ساتھ والی نشست پہ بیٹھے ساجد جاوید چوہدری ملے۔ آپ یونیورسٹی آف سرگودھا میں اردو ادب کے لیکچرار تھے۔

میرے ہاتھ میں تعریفی سند، ٹرافی، کتاب اور اخبار دیکھ کر مجھ سے بات چیت کرنے لگے۔ چند سوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے کہ میرے دوست بن جاؤ۔ مجھے یونیورسٹی ملنے آؤ۔ میں اگلے ہی روز یونیورسٹی ان سے ملنے کے لئے گیا تو انہوں نے مجھے میکسم گورکی کا ناول ”ماں“ پڑھنے کو دیا۔ یہ ڈاکٹر انصاری کا ترجمہ شدہ تھا جسے عالمی ادارہ برائے نشر اشاعت ترقی پسند ادب زوبولوسکی اسٹریٹ ماسکو ”نے شائع کیا تھا۔ لیجیے بس یہ کتاب پڑھنے کی حاجت تھی کہ میرے ذہن پہ لگے سب قفل کھل گئے۔ حق و باطل اور کفر و اسلام کی چھڑی ہوئی جنگ بند ہو گئی اور میں نے ایک مضمون بعنوان“ خدا کے دوست بھوکے ہیں ”لکھ کر ابا جی کی خدمت میں پیش کیا اور انہوں نے وہ مضمون مولانا صاحب کو پڑھنے کے لئے دیا اور مولانا نے میرے سامنے میرے والد سے کہا؛

” آصف میاں! بیٹے کو سنبھالو اس کی تحریر سے الحاد جھلک رہا ہے“

اگرچہ میں نے تو فقط اپنی اس تحریر میں رسول پاک کی اس حدیث ”الکاسب حبیب اللہ“ (محنت کش اللہ کا دوست ہے ) کے تناظر میں ایک سماجی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).