قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان


مرحوم مشرقی پاکستان ایک ایسا موضوع ہے جس پر مخدومی الطاف حسن قریشی صاحب نے جان مار کر کام کیا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کا شاید ہی کوئی اخبار اور رسالہ ہو جو اپنے خرچ پر مہینوں طویل سفر کر کے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ وہ کیا سوچتے اور کیا چاہتے ہیں۔ قریشی صاحب اس زمانے میں کسی بڑے اخبار حتیٰ کہ کسی ہفت روزے کے بھی نہیں ایک ماہ نامے کے ایڈیٹر تھے جنھوں نے ذاتی تحریک سے اور اپنے وسائل سے طویل سفر کیے اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں کیا ہے۔

قریشی صاحب نے نہایت محبت اور درد مندی کے ساتھ کام کیا۔ بہت سی داد بھی سمیٹی اور طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنے۔ یہ بدقسمتی ہی تھی کہ سنگ باری کرنے والوں میں غیروں کی صفوں میں بعض اپنے بھی شامل ہو گئے۔ تاریخ کایہ سارا خزینہ اردو ڈائجسٹ اور زندگی کے فائلوں میں کسی تہہ خانے میں دھرا تھا جسے قریشی صاحب کے پوتے عزیزم ایقان حسن قریشی نے جھاڑ پھونک کر نکالا اور قریشی صاحب کی راہ نمائی میں اسے کتابی شکل میں قوم کے سپرد کر دیا جسے برادر عزیز علامہ عبد الستار عاصم صاحب نے بہت محبت اور سلیقے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ کتاب کا نام ہے ‘ مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا’۔

قریشی صاحب پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ عین اس وقت جب علیحدگی کی آگ جل رہی تھی، وہ کسی کی ایما پر مشرقی پاکستان گئے اور ایک مضمون سپرد قلم کیا ‘محبت کا زمزم بہہ رہا ہے’۔ کتاب بتاتی ہے کہ یہ ایک طویل سلسلہ مضامین تھا جو سال 1966 کے اگست سے نومبر تک شائع ہوا جب انتخابات کا دور دور تک کوئی امکان تھا اور نہ علیحدگی کی تحریک کا کوئی وجود تھا حتیٰ کہ اقتدار کے ایوانوں میں یحیٰ خان نے اپنے سبز قدم بھی نہیں رکھے تھے۔ یوں اس پروپیگنڈے سے ہوا نکل جاتی ہے کہ قریشی نے علیحدگی کی تحریک کے دوران قوم کو گمراہ کیا نیز وہ کسی کے اشارے پر متحرک ہوئے۔ یہ کتاب قومی تاریخ کے بارے میں صرف یہی ایک انکشاف نہیں کرتی بلکہ یہ انکشافات کا ایک دفتر ہے جن کے ذکر کے لیے مسلسل لکھا جا سکتا ہے اور لکھا جائے گا۔ خود ان سطور کا لکھنے والا بھی کچھ ایسا ہی ارادہ رکھتا ہے لیکن فی الحال پشاور سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا متوجہ کر رہا ہے۔

 پشاور سے آنے والی خیر کی خبر یہ ہے کہ قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف نے کوئی تماشا کیے بغیر نگراں وزیر اعلی کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں خیبر پختونخوا سے خال ہی کوئی ایسی خبر آئی ہوگی جس سے صوبے اور ملک کے عوام نے یہ اطمینان محسوس کیا ہو کہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والے اس نئے ہجوم کی موجودگی میں قوم اتحاد اور اتفاق کی طرف بھی گامزن ہو سکتی ہے لیکن عمران خان کے پرجوش مقلد محمود خان اور قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی نے کمال کر دیا ہے۔ حالیہ بدصورت واقعات اپنی جگہ لیکن ان دونوں احزاب کے درمیان پیدا ہونے والے اتفاق رائے کی جڑیں کافی پرانی ہیں۔ ہماری نسل کے صحافیوں کو زیادہ سے زیادہ وہ زمانہ یاد ہے جب 1985 کے انتخابات کے نتیجے میں کسی حد تک جنرل ضیا کے جبر کی رسی کچھ ڈھیلی ہوئی۔ انتخابات کے بعد سینیٹ کی تشکیل ہوئی تو صوبے کے سیاست دانوں نے مکمل اتفاق رائے کے ساتھ ایوان بالا میں اپنے نمائندے بھیجے۔ اس اتفاق رائے کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر گزشتہ چند برسوں کے دوران میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے لے کر دیگر صوبوں میں منڈیاں اور بولیاں لگنے کے جو بدصورت مناظر سامنے آتے ہیں، اس صوبے میں یہ سب نہیں ہوا اور صوبائی ایوان میں موجود جماعتوں نے عددی تناسب کے مطابق اپنے امیدوار نامزد کیے اور وہ سب بلا مقابلہ ایوان بالا میں پہنچ گئے۔ یہ خوب صورت روایت بعد میں بھی کچھ عرصے تک برقرار رہی۔ اس صوبے میں خرید و فروخت کے کھلے مناظر تب دیکھنے میں آئے جب بعض لوگوں نے بزعم خود نیا پاکستان بنایا۔

یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اسی نئے پاکستان کے ورثا کے دور میں نگراں وزیر اعلی کا انتخاب اسی پرانی اور مستحسن روایت کے مطابق کیا گیا ہے۔ اس واقعے سے یہ امید بندھتی ہے کہ سیاست میں بڑھتی ہوئی ہیجان خیزی کے اس دور میں خیبر پختونخوا کی طرح اگر وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی دانائی کا دامن تھامنے والے بروئے کار آ جائیں تو اس ملک کا بہت سا بگڑا ہوا سنور سکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے وہ اہل دانش جو اپنی دانائی سے صوبے کو ایک نئی جنگ سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں، وفاق اور پنجاب میں حالیہ دھما چوکڑی کے خاتمے کے لیے عمران خان پر اثر انداز ہو سکیں؟

اللہ کرے، ایسا ہو سکے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ خان صاحب نے اسمبلیاں نہ توڑتے توڑتے یکایک دو اسمبلیاں کیوں توڑ ڈالیں۔ اطلاع ہے کہ انھیں انھیں کسی ذریعے نے بتایا ہے کہ جنیوا میں ایک پیچیدہ آپریشن کے بعد وطن واپسی کے لیے پا بہ رکاب مریم نواز کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ ایک طویل اور اعصاب شکن انتخابی مہم کی قیادت کر سکیں لہذا انھوں نے موقع غنیمت جانا اور دھماکا کر دیا۔ خان صاحب کو ملنے والی اطلاع درست تھی یا غلط اس کا اندازہ تو مریم نواز کی تازہ سرگرمیوں سے انھیں ہو گیا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کا یہ مزاج ہرگز نہیں۔ عمران خان کے سیاست میں ظہور سے پہلے ہمارے سیاست دان ایسے مواقع پر رواداری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ عمران بھی ایسا ہی کرتے ہیں لیکن ان کی اخلاقیات مختلف ییں۔ ایسی صورت میں بہتر یہی ہو گا کہ خیبر پختونخوا کی طرح پارٹی کا سمجھ دار عنصر تمام خطرات مول لے کر بروئے کار آتاہے تو اس کے نتیجے میں ہیجان خیزی کمزور پڑے گی اور معیشت کو سہارا مل جائے گا۔

عمران حکومت کو کوئی رعایت نہیں دینا چاہتے لیکن معیشت کے استحکام کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ ہوگا بلکہ یہ ہے کہ ہماری معیشت آئی سی یو سے نکل کر اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکے گی اور عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ ایسا کرنے سے عمران خان کے بارے میں یہ تاثر بھی زائل ہو جائے گا کہ وہ ہمیشہ اسی وقت کوئی دھماکا کرتے ہیں جب معیشت کے استحکام کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب خان صاحب کی حب الوطنی کا امتحان ہے۔

ان ہی دنوں سعودی وزیر خزانہ کا ایک بیان زیر بحث ہے جس میں انھوں نے سعودی مالی امداد کو اقتصادی اصلاحات سے منسلک کیا ہے۔ اس بیان کے بعد قومی حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، اس میں تشویش کی زیادہ بات نہیں۔ اس موضوع پر تفصیلی بات سردست مناسب نہیں لیکن اتنا کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ سعودی عرب کا تازہ فیصلہ پاکستان کے لیے کوئی مشکل پیدا کرنے کے بجائے امکانات کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہ امکانات عمران خان کی سیاست کے لیے بھی خیر کا باعث بن سکتے ہیں، اگر وہ اقتدار کی فوری اور منہ زور خواہش کو تھوڑی لگام دے کر ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہونے دیں بلکہ استحکام کا ذریعہ بن جائیں اور اس سلسلے میں تھوڑا کہے کو بہت جانیں۔ اگر وہ سنبھلیں گے نہیں تو بدقسمتی ہماری منتظر ہوگی کچھ ایسی ہی بدقسمتی جس کی عبرت ناک کہانیاں مخدومی الطاف حسن قریشی صاحب نے انگلیاں فگار کر کے قلمبند کی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments