تعلیمی اداروں میں تربیتی عمل کا ناپید نظام
ٹیچر : سلمان آج آپ نے اپنے نوٹس تیار نہیں کیے کل میں نے تمام کلاس کو انتباہ کیا تھا کہ مجھے کل 12 بجے سے پہلے اس پروجیکٹ پر مکمل ریسرچ چاہیے ورنہ آپ کو اس ٹیسٹ میں کم نمبروں سے فیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سب معلوم ہوتے ہوئے بھی آپ نے اپنے پروجیکٹ کا کام شروع ہی نہیں کیا۔
سلمان ٹیچر سے : سر آپ کو جو کرنا ہے کر لو مجھ سے اتنے کم وقت میں یہ آپ کے ریسرچ ورک نہیں ہوتے۔
ٹیچر : سلمان آپ میرے کلاس میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہیں آپ نکل جائیں۔
سلمان: کس کو شوق ہے آپ کی بکواس سننے کا آپ کے بولنے سے پہلے ہی نکلنا بہتر تھا۔ اور کلاس سے باہر جاتا ہے۔
یہ صورت حال پاکستان کے لگ بھگ ہر اسکول اور تعلیمی ادارے کے استاد اور طلباء کے مابین ہونے والے تلخ کلامی کی ہے۔ موضوع کچھ اسی طرح گمبھیر ہو جاتی ہے کہ شاگرد استاد کو قتل کر دیتا ہے ( یہ تین چار سال پہلے کی بات ہے ) ۔
وجہ کیا ہے؟ معاملے کی تہہ تک ہمیں اس مسئلے پر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے آیا اس طرح کی صورت حال کیوں پیش آتی ہے؟ وہ کون سا کام ہے جو تعلیمی ادارے جو کرتے ہیں یا وہ کام ہیں جو نہیں کر نے چاہئیں، جس سے نفسیاتی طور پر شاگرد اور استاد کا جو ایک رشتہ ہے اس میں شگاف، خلل آ گیا ہے۔
معاملات کچھ اس طرح سے شروع ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اگر ماں کی گود پہلی درس گاہ ہے تو استاد روحانی باپ، ہمارے اس نظام تعلیم نے اس روحانی باپ کو خراب سسٹم میں اپنی لپیٹ میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ وہ بس ایک ریڈیو بن گیا ہے جو بس بولتا جاتا ہے نا وہ سن سکتا ہے نا جواب دے سکتا ہے اور سوالات کے جوابات تو دور کی بات ہے اس کے پاس شاگرد کو سننے کا وقت ہی نہیں ہے۔
فرض کرو اگر ایک استاد نجی تعلیمی ادارے میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہے تو کم تنخواہ اور کم وقت میں ایک بڑے سے سلیبس مکمل کرنا اس کے ساتھ 40 بچوں کے کلاس میں 40 منٹ کا پیریڈ لینا، جس میں کام کرانا سمجھانا اور اسی میں ہی کاپی چیک کرنا موجود ہے۔ اور آئے دن ٹیسٹ کی بھرمار اور ان کی چیکنگ سے لے کر نمبروں کے اعداد سالانہ ریزلٹ میں ڈالنے میں اس کا سارا وقت صرف ہوجاتا ہے۔ اور آج کل ایک پرائیویٹ ٹیچر پر انتظامیہ نے لیسن پلاننگ کے نام پر ایک بوجھ سا ڈال دیا ہے اس کے ساتھ ایک عدد ٹیچر گائڈ موجود ہے، جس کو فالو کر کے لیسن پلان از خود تشکیل دینا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا ایک ایک منٹ صرف اس بات پر صرف ہوجاتا ہے کہ اسباق مکمل ہوجائیں چاہے شاگرد اس میں سے کچھ سیکھتے ہیں یا نہیں ان کا یہ سردرد بالکل بھی نہیں ہے۔ اسباق سے ملا سبق چاہیے سمجھ پائیں یا نا ان کا کام بس کاپیاں بھرنا رہ گیا ہے۔
سرکاری تعلیمی ادارے بالکل بھی اس ریس میں پیچھے نہیں ہیں کیونکہ ملک کے اکثر و بیشتر سرکاری تعلیمی اداروں میں استاد موجود نہیں ہیں اگر موجود بھی ہیں تو پڑھانے سے ان کا کوئی مطلب نہیں ان کو ہر ماہ ایک اچھی تنخواہ بینک سے مل جاتی ہے۔ پنجاب کے سرکاری تعلیمی ادارے پڑھنے پڑھانے کے اس دوڑ میں قدرے بہتر ہے اور بد قسمت بلوچستان کا بچہ گوسٹ ٹیچر اور گوسٹ اسکولز کے اندر پس پس کر بڑا ہو رہا۔ بدبختی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ 1 فیصد بلوچستان سے بچیاں ہی جماعت تک پہنچ پاتی ہیں۔ (یہ ایک بالکل الگ تحقیقی رپورٹ ہوگی جس کی کئی وجوہات ہیں۔ )
استاد کے اس بیہمانہ سلوک اور لیسن پلان کے پریشر نے بیمار ذہن، کلرکی نوجوان ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں۔ جو کہ سو فیصد ناکارہ ہے جس سے ملک کی گاڑی گس گس کر چل سکتی ہے لیکن دوڑ نہیں سکتی۔ نا ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے نا ہی معاشی اور معاشرتی پہلوؤں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت۔ جس کی وجہ سے آج کے بین الاقوامی ترقی کے ڈور میں ہمارے نوجوان سب سے پیچھے ہیں۔ مشکل سے اکا دکا نام ہیں جو بین الاقومی دوڑ میں آگے نکل گئے ہیں۔
تنقیدی سوچ، ، بہترین کارکردگی، اظہار خیال سے متعلقہ مہارتیں، قائدانہ صلاحیتیں اور ایسے کئی چیزوں کے ساتھ تربیت کا فقدان بھی ہماری نوجوان نسل میں ناپید ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس و ثقافت ”یونیسکو“ کی ایک رپورٹ کے مطابق آج، 244 ملین بچے اور نوجوان، اور 771 ملین بالغ ناخواندہ ہیں۔
پاکستان ورلڈ اکنامک فارم کی رینکنگ میں تعلیمی نظام کے 2017 کی رپورٹ کے مطابق 130 ممالک میں 125 نمبر پر ہے جو کہ بدترین شرح تصور کیا جاتا ہے۔
اس بد ترین شرح کی سب سے بڑی وجہ دوغلہ تعلیمی نصاب ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے معمار بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کا نصاب ایک دوسرے سے میل ہی نہیں کر پاتیں۔ اور انگریزی طرز تعلیم کے نجی ادارے نسل کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا رہی ہے۔ (میں خود بھی اس چکی میں پسی ہوئی ایک مظلوم معمار ہوں۔ نا ہمیں اردو زبان پر فوقیت ہوئی نا انگریزی کے دو جملے صحیح سے ادا کرپائے۔ )
تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی OECD
کی رپورٹ کی 2022 کی مطابق اس سال کے ٹاپ رینکنگ میں دس ایسے ممالک ہیں جو اپنے ملک کو دنیا میں بہترین تعلیمی نظام اور نصابی تعلیم کے تربیتی عمل میں بہترین انداز سے آگے لے گئے ہیں۔
پہلے نمبر پر فن لینڈ کا نام ہے جس نے تعلیمی نظام کو ایسا بنایا ہے شاگرد بہت چھوٹی سی عمر میں اپنے اہم مضمون چھوٹی جماعتوں میں چن لیتے ہیں اور ان پر دباؤ نہیں ہوتا ہے وہ سوشل سائنس اور سائنسی مضمون ایک ساتھ پڑھیں۔
تربیتی عمل کی تعلیمی اداروں میں سب سے بڑی مثال ساؤتھ کوریا کی ہے اور وہ تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی OECD کی رینکنگ میں پانچویں نمبر میں آتا ہے جس سے متاثر ہو کر عمان اور خلیج کے پیشتر ممالک بھی ان کی پیروی کر رہے ہیں، وہ پہلی جماعت سے لے کر چہارم جماعت تک اپنے بچوں کو تربیتی عوامل سے گزارتے ہیں، جس میں اخلاقی تقاضوں میں بڑھوتری، آپس میں ایک دوسرے کا خیال۔ احساس، ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہونا اور بڑوں کی عزت، آداب، صحت اور ارد گرد کے صفائی کے معاملات کو دیکھنا۔ ان سالوں میں امتحانوں کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی بچوں کو ان کے سلوک پر نمبر دیے جاتے ہیں۔
پہلے زمانوں میں کہا جاتا تھا کہ اسکول تعلیم و تربیت کی آماجگاہ ہے، اب تعلیمی ادارے اگر نجی ہیں تو پیسوں کی بھوک میں اگر سرکاری ہیں تو لاپروا ہونے کی وجہ سے ان کے تعلیم کے حق کو پامال کر رہے ہیں۔ یہ وقت تعلیم کے لاپروا نظام کو بدلنے کا ہے۔ اب درسگاہوں میں تعلیم و تربیت نہیں فقط تعلیم ہی رہ گئی ہے جو کہ مشکل سے دی جاتی ہے۔
ملک میں بہت کم ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو کہ تربیتی عمل پر غور کراتے ہوں لیکن غور سے دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کی اس ڈور میں ہم تعلیمی نظام میں 18 ویں صدی میں بس رہے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہت دور ہیں۔
ہمیں مستقبل کے معماروں کو بہتر تربیتی عمل سے گزار کر ان کو بہترین زندگی کے اصول سکھانے ہوں گے۔ جس سے ہم سائنسی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی ایک الگ قوم اور ایک الگ پہچان بن کر سامنے آ سکیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں الگ نام بنا سکیں۔
- تعلیمی اداروں میں تربیتی عمل کا ناپید نظام - 26/01/2023
- جنسی تشدد کیا ہے؟ - 19/06/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).