بلدیاتی نظام۔ عوام سے دھوکہ


پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں آج کل گرفتاریوں کے ساتھ الیکشن کی کافی ہاہا کار مچی ہوئی ہی۔ ہر سیاسی رہنما خود کو جمہوریت کا نمائندہ سمجھ کر اپنے طور پر اپنی مرضی کی جمہوریت لانے پر مصر ہے تو کہیں سیاست کی شرم و حیا کے چیتھڑے کرنے میں تبدیلی بخار کی وبا کے ڈبو اور عمو لن ترانیوں کے انجکشن سیاسی ماحول کی کثافت بڑھا رہے ہیں، اس درمیان ملکی معاشی ابتری اور شدید مالی مشکلات سے پریشان عام فرد ایک وقت کی روٹی کے حصول کے لئے ذہنی مشکلات کے ایسے نرغے میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ تمام سیاسی قیادت کو نہ صرف کوس رہا ہے بلکہ سیاسی ہلچل سے خود کو لا تعلق کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، جس کا عملی مظاہرہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے عوام کے لا تعلق ہونے اور بلدیاتی انتخابات میں عملی سرگرمی نہ دکھانے کو پوری دنیا نے دیکھا۔

عوام کی سیاست سے لاتعلقی کی وجوہات کو جاننے کے لئے ہمیں اپنی ان سیاسی خرابیوں یا غفلت کی طرف نظر ڈالنا ہوگی جو تاریخی طور پر کھڑے آج بھی ملکی فوجی یلغار اور سیاسی نظام پر لشکر کشی کے سچ کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اس تاریخی سیاسی حقیقت سے انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی آزادی کے ابتدائی سالوں ہی میں برطانوی راج سے مستعار لی جانے والی فوج کے متحرک افسران جن میں بریگیڈئیر ایوب خان سر فہرست تھے، جس نے ملکی اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے مسلسل سیاست میں نوابینِ، جاگیردار، مذہبی عناصر اور برطانوی راج کے مراعات یافتہ افراد کو سیاست اور اقتدار کی لالچ کے گورکھ دھندے میں شامل کر کے ملکی سیاست میں وہ حالات پیدا کیے جو کسی نہ کسی طور جنرلی اشرافیہ کے اقتدار پر غیر آئینی اور غیر سیاسی قبضے کا جواز بنے اور سیاست کو عوام کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے ملک میں پچھتر برس سے تجرباتی امرا کی سیاسی پود پیدا کی جاتی رہی جو اپنے طبقے کے مفادات کو پورا کرتے ہوئے عوام کی معاشی حالت خراب کر کے عام فرد کا نوالہ چھین رہی ہے۔

امرا کا یہ طبقہ بعد میں اپنی اعلی عیاشیوں کے سبب عوام کو سرمایہ دارانہ مفادات کے نگراں آئی ایم ایف کے سامنے تر نوالے کے طور پر ڈال دیتا ہے، عوام دشمن جمہوریت دشمنی اور سیاست دشمنی کا یہ کھیل سات دہائیوں سے جاری ہے جس میں امرا کی اشرافیہ کے جنرل، جاگیردار، سرمایہ دار، مذہبی اوتار اور لینڈ مافیا کردار ملک کے تحفظ کے نام پر ملک کے عوام کو مسلسل لوٹ رہے ہیں اور نظام انصاف صرف اعلی طبقات کی باندی بن کر ان کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔

سات دہائیوں سے جمہوریت کا راگ الاپنے والے اعلی طبقاتی حکمران جب طلبہ، مزدور اور محنت کش کی ٹریڈ یونین سیاست کی آزادی آج تک نہ دے پائے تو وہ عام فرد کے نمائندوں کو محلے گلی کے مسائل کو حل کرنے کی آزادی کیوں کر دیں گے؟ جمہوریت کے یہ چیمپئن اکثر کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ عوام کی جمہوریت کا بنیادی تقاضا اور ضرورت ایک مربوط بلدیاتی نظام ہے، مگر تاریخی طور پر ہر آمر اور جمہوریت پسند نے عوام کے بنیادی بلدیاتی نظام کو لانے میں ہمیشہ پس و پیش کیا یا اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام لانے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ کراچی ایسا عالمی شہر ناجائز تجاوزات اور مفلوج نظام زندگی کا ایک بے ترتیب شہر بنا ہوا ہے۔

عوامی جمہوریت کا ہر وقت دم بھرنے والی سندھ کے اقتدار کی وارث پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہر چار سال کے بعد ہونے والے شہری حکومت کے انتخابات عدالتی حکم کے تحت نہ چاہتے ہوئے 15 جنوری 2023 کو کروانے پڑے جس میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے نتیجے میں اکثریتی پارٹی کے طور پر کراچی شہر کی نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی جبکہ دوسرے نمبر پر مذہبی جماعت اسلامی ٹھہری، دس روز گزر جانے کے باوجود اب تک نہ مکمل نتائج آ سکے اور نہ ہی یہ طے ہو سکا ہے کہ میئر کس جماعت کا ہو گا، میئر شپ کی رسہ کشی میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی مسلسل دست و گریبان ہیں جبکہ عوام بھونچکا سے ہو کر اپنی نمائندہ جماعتوں کے جھگڑوں میں شہر کی سماجی ترقی سے ہنوز محروم ہیں۔

اس پورے بلدیاتی تناظر میں اہم بات یہ نہیں کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بلدیاتی الیکشن کروا دیے گئے بلکہ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ خاص طور پر کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد اختیارات اور بلدیاتی نظام اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں کا سبب کیا ہے اور پاکستان پہ طاقت کے زور پر قابض اشرافیہ آخر کار اپنے ہی قابو میں آنے والے افراد گروہ یا جماعت کو کراچی کا بلدیاتی نظام کیوں دینا چاہتی ہے۔ اس اہم مسئلے کو سمجھنے کے لئے برطانوی راج سے لے کر آج تک کے بلدیاتی نظام پر ایک نظر ڈالنا بہت اہم اور ضروری امر ہے۔

تاریخی طور پر برطانوی راج میں جب کراچی کو بمبئی حکومت نے شہر کا درجہ دیا تو 1846 میں کنزروینسی بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس کے بعد 1851 میں میونسپل کمیشن بنا اور 1925 میں میونسپل بورڈ کا درجہ دے کر کراچی کے بلدیاتی نظام کو چلانے کے لئے 1933 میں میونسپل کارپوریشن بنایا۔ اسی دوران شہر کی اہمیت اور آبادی میں اضافے کے سبب بمبئی حکومت نے کراچی کو 1851 کی شرح آبادی کی بنیاد پر 1884 میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جبکہ پارسی میئر جمشید نوسروانجی 1920 میں کراچی کے پہلے میئر مقرر کیے گئے جن کی سربراہی میں 57 کونسلرز، جن میں 12 کونسلر برطانوی حکومت کے مقرر کردہ تھے، کے ذریعے شہر کا بلدیاتی نظام چلایا۔

جبکہ اس سے قبل برطانیہ نے اپنے راج کو مضبوط کرنے کے لئے کراچی کو فوجی دفاع کے طور پر چنا اور چارلس نیپیئر کی سربراہی میں 1843 میں کراچی کو برٹش فوج کا کنٹونمنٹ بنایا جبکہ بلدیات کے پورے نظام کو برطانوی راج نے اپنے اثر میں رکھا اور تقسیم ہند کے بعد ہمارے حصے میں آنے والے برٹش فوج کے افسران کو تاکید کی کہ کراچی شہر کا انتظام و انصرام مکمل طور پر عوامی نمائندوں کو فوجی حکمت عملی کے طور پر ہرگز منتقل نہ کیا جائے۔

تاریخی طور سے ہمارے ملک کی اشرافیہ اب تک ذہنی طور سے برطانوی فوجی تسلط سے آزاد نہیں ہو سکی ہے، لہذا بار بار اس ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام میں آمرانہ فوجی نظام داخل کیا گیا تاکہ برطانیہ کے نظام تسلط کو روایت اور میراث کے طور پر چلایا جائے۔ ملک میں پہلے فوجی مارشل لا کے خالق جنرل ایوب نے کراچی میں حکومتی اثر اور جبر قائم رکنے کے لئے بنیادی جمہوریت کا خاکہ 1959 میں پیش کیا جس کے خالق ذوالفقار علی بھٹو بنے۔ جنرل ایوب کا یہ نظام بھی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد 1972 میں دم توڑ گیا، مگر اس بلدیاتی نظام کو ملک میں بھٹو خود نافذ کرنے میں ناکام رہے کہ بھٹو کی حکومت جنرل ضیا کے مارشل لا نے ختم کی اور سندھ لوکل گورنمنٹ نظام لے کر آئے جس کے تحت مارشل لا کے باوجود پیپلز پارٹی کے عبدالخالق اللہ والا اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئے۔

مگر جنرل ضیا نے اپنی من پسند جماعت اسلامی کو کراچی کی میئر شپ دلوائی، جس کے لیے 4 ووٹ پیپلز پارٹی کے مسترد کروائے گئے اور یوں اشرافیہ پسند جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کو جمہوری اصولوں کے خلاف میئر منتخب کروایا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1988 کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں بھی بلدیاتی نظام کا حق عوام کے عام فرد تک نہ پہنچا سکیں۔ جنرل ضیا نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور کراچی کے جمہوری مزاج کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی سے جان چھڑوا کر نسلی بنیاد پر مہاجر قومی موومنٹ بنوائی اور 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اپنی بنائی ہوئی جماعت ایم کیو ایم کو کراچی کی بلدیات کا نظام ستار فاروق کی قیادت میں حوالے کیا اور اس بلدیاتی نظام پر مکمل کنٹرول اشرافیہ کا ہی رہا۔

جنرل ضیا کے بعد 1999 میں ملک ایک مرتبہ پھر جنرل مشرف کی آمریت کا شکار ہوا اور عوام کو جمہوری آزادی اور جمہوری الیکشن دینے کے بجائے اشرافیہ کی گود لی گئی جماعت ایم کیو ایم کی مدد سے لوکل باڈی آرڈیننس جنرل تنویر نقوی کی سربراہی میں بنوایا اور کراچی میں بلدیاتی اختیارات میں وسیع پیمانے کی آزادی دی، مگر جب کراچی میں بلدیاتی آزادی دینے کا وقت آیا تو جنرل مشرف کی اتحادی جماعت نے مکمل بلدیاتی اختیارات کا تقاضا کیا مگر چونکہ اشرافیہ کراچی کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنا چاہتی تھی سو ایم کیو ایم کو باقاعدہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ پر مجبور کیا گیا اور پھر اشرافیہ نے اپنی من پسند جماعت اسلامی کے میئر کو لانے میں کامیاب ہوئی جو جنرل مشرف کے دیے گئے محدود اختیارات پر کام کرنے کے لیے راضی تھے۔

اس پورے تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ 15 جنوری کے کراچی میں بلدیاتی نتائج کے بعد کیوں کر اور کس کے کہنے پر اکثریتی جماعت نہ بننے کے باوجود جماعت اسلامی اکثریتی پارٹی کے جمہوری عمل کو کیوں بار بار چیلنج کر کے عوام میں یہ تاثر دے رہی ہے کہ کراچی کے عوام نے اسے بلدیاتی انتخابات میں منتخب کیا ہے، جبکہ تاریخی طور سے کراچی شہر کے جمہوری ذہن کے افراد نے جماعت اسلامی کو ہمیشہ الیکشن میں مسترد ہی کیا ہے اور جماعت اسلامی ہمیشہ سے اشرافیہ سے مانگے تانگے کی جیت لیتی رہی ہے۔ ذرا سوچئے کہ ایم کیو ایم اگر بائیکاٹ نہ کرتی تو کیا جماعت اسلامی کو مذکورہ بلدیاتی نشستیں مل جاتیں؟ جمہوری اصول کے تحت جو اکثریتی جماعت ہے پہلے اسے کراچی کا میئر منتخب کرنے کی دعوت دی جائے تاکہ کراچی کے عوام اپنی اکثریتی پارٹی سے اپنے بلدیاتی حقوق بہ احسن طریقے لے سکیں۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 33 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments