قرآن کی بے حرمتی کے خلاف مقدمہ کون دائر کرے گا؟ (مکمل کالم)


اگر سویڈن میں فلسطینی مسلمانوں کا چھوٹا سا گروہ اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے پہنچ جائے، وہاں وہ یہودیوں کے خلاف نعرے بازی کرے اور انہیں سویڈن سے نکال باہر کرنے کا عزم کرے، یہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کے ہاتھ میں تورات کا نسخہ ہو اور وہ انہیں اسرائیلی یہودیوں کے سامنے نذر آتش کر دیں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک مغربی دنیا کا کیا رد عمل ہو گا؟ کیا آزادی اظہار کے یہ چمپئن اس وقت بھی یہی راگ الاپیں گے جو قرآن کا نسخہ جلائے جانے پر الاپ رہے ہیں؟ یا پھر مہذب دنیا کے ان ٹھیکیداروں کو آزادی اظہار کی حدود یاد آ جائیں گی؟ چلیے مفروضے سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آتے ہیں۔

سویڈن میں ایک شخص نے، جو کہ انتہا پسندانہ خیالات کا حامل ہے، گزشتہ ماہ قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا۔ اس شخص کی شہرت کوئی اچھی نہیں، ماضی میں اس پر کم سن بچوں کے ساتھ جنسی گفتگو کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں۔ یہ شخص مسلمانوں کے سخت خلاف ہے، اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو سویڈن کی شہریت نہیں ملنی چاہیے، اس نے مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر پانچ سال پہلے اپنی ایک جماعت بنائی تھی، اسے آپ تانگہ پارٹی بھی کہہ سکتے ہیں، اس جماعت کو انتخابات میں دو فیصد سے بھی کم ووٹ ملے تھے، یوں سویڈن میں اس کے حامی نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے یہ شخص میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی غرض سے اس قسم کی حرکتیں کرتا رہتا ہے۔

اس شخص نے جب قرآن کی بے حرمتی کی تو سویڈن کی پولیس وہاں موجود تھی، سویڈش حکومت نے اس حرکت کی مذمت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ حرکت چونکہ آزادی اظہار کے زمرے میں آتی ہے اس لیے وہ اسے روک نہیں سکتے۔ سویڈش وزیر اعظم کے الفاظ یہ تھے : ’اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا بنیادی حصہ ہے مگر ضروری نہیں کہ جو بات قانونی ہو وہ مناسب بھی ہو، بہت سے لوگوں کے لیے مقدس کتابوں کو جلانا انتہائی توہین آمیز فعل ہے، میں ان تمام مسلمانوں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو آج اسٹاک ہوم میں ہونے والے واقعے پر ناراض ہیں۔

‘ اس واقعے کے بعد سویڈش حکومت کے رویے کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک مصری نژاد سویڈش شہری نے عجیب و غریب ترکیب سوچی، اس نے سویڈش حکام کو درخواست جمع کروائی کہ وہ اسٹاک ہوم میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کرنا چاہتا ہے جہاں تورات کے نسخے کو آگ بھی لگائی جائے گی۔ اسرائیلی سفارتکاروں کو جب اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے سویڈن کے اعلیٰ افسران سے بات کی اور اس ’نفرت آمیز‘ حرکت کو رکوانے کے لیے دباؤ ڈالا۔

یہ واضح نہیں کہ سویڈش حکام نے تورات کو جلانے اور مظاہرہ کرنے کی اجازت دی یا نہیں البتہ اس ضمن میں سویڈن میں مسلمانوں اور یہودیوں کی تنظیم نے پس پردہ کام کیا تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے اور یوں بالآخر سویڈن میں مقیم مسلمانوں کے اصرار پراس شخص نے اپنا یہ ’احتجاج‘ منسوخ کر دیا۔ تورات، بہرحال مسلمانوں کے لیے بھی مقدس کتاب ہے اور قرآن میں تمام الہامی کتب، بشمول تورات، زبور، انجیل کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : ”اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ سراسر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کے لیے۔

“ (المائدہ، آیت 46 ) ۔ دراصل کوئی بھی شخص، جماعت یا گروہ جب کسی کتاب کو نذر آتش کرتا ہے تو گویا وہ اپنی شکست کا اعلان کر رہا ہوتا ہے، وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس اس کتاب میں لکھی باتوں کا کوئی جواب نہیں اور یوں وہ بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کتاب ہی جلا ڈالتا ہے۔ سویڈن کے شہری نے قرآن پاک کو جلا کر اسی بے بسی کا اظہار کیا ہے، اس نے گویا یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے پاس قرآن میں موجود باتوں کا کوئی جواب نہیں، اس کے پاس کوئی دلیل نہیں اور عقل سے کرنے والی کوئی بات نہیں جو قرآن کو رد کرسکے، سو جب وہ ناکام ہو گیا تو اس نے اعتراف شکست کے طور پر قرآن کو ہی آگ لگا دی۔

یہ کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ آج ہم ابن رشد کے علم کی مالا جپتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن اسی ابن رشد کو رسوا کر کے ملک بدر کیا گیا، اس کی کتابوں کو آگ لگائی گئی اور اندلس اور مراکش میں اس کی فلسفے کی کتب کے خلاف فرمان جاری کر کے ان کے پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ تمام حرکتیں جہالت اور انتہاپسندی کو ظاہر کرتی ہیں، سویڈن میں بھی اسی کا مظاہرہ کیا گیا۔

ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے مغرب کو ایک ہوا بنا کر رکھا ہوا ہے، ان کا خیال ہے کہ مغرب نے اگر کسی معاملے پر کوئی معیار طے کر دیا ہے تو وہ تقریباً حتمی ہے کیونکہ وہ لوگ بہت غور و خوض کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور ہر معاملے کی خوب پڑتال کر کے کوئی معیار طے کرتے ہیں اور چونکہ ان معاشروں نے ایسی ہی سوچ بچار سے ترقی کی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ ان کے طے کردہ کسی معیار میں کوئی سقم ہو۔ آزادی اظہار کا معاملہ اس کی ایک بہترین مثال ہے، مغرب میں آزادی اظہار کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا لہذا گستاخانہ خاکے بنانے کا معاملہ ہو یا قرآن کو آگ لگانے کا ، وہ آزادی اظہار کے حق کے پیچھے چھپ کر اس کا دفاع کرتے ہیں۔

لیکن آزادی اظہار کی حقیقت اس وقت عریاں ہوجاتی ہے جب معاملہ اسرائیل سے متعلق ہو، پھر کیا جرمنی اور کیا سویڈن، کیا امریکہ اور کیا فرانس، سب یک زبان ہو کر اسرائیل کی حمایت میں نعرے لگانے لگتے ہیں۔ دی کونسل آف یورپ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، 46 یورپی ممالک اس کے رکن ہیں، یورپ میں جمہوریت، قانون کی عمل داری اور انسانی حقوق کا ٹھیکہ اسی تنظیم کے پاس ہے، اس نے یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق بنا رکھے ہیں اور اس تنظیم نے ’رد مرگ انبوہ‘ (Holocaust Denial) کے خلاف قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

کونسل آف یورپ کے ان اقدامات نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کو بھی اثرانداز کیا ہے، اس عدالت نے بے شمار مواقع پر اس قسم کے فیصلے دیے ہیں کہ ہولوکاسٹ کا انکار آزادی اظہار کے زمرے میں نہیں آتا حالانکہ یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کی شق نمبر 10 اسی آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے جس کے تحت یورپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ شق 10 میں وہ تمام حدود بھی لکھی ہیں جو آزادی اظہار پر لاگو ہوتی ہیں لیکن جب معاملہ قرآن کی بے حرمتی کا ہوتو پھر یہ حدود کسی یورپی جج یا وزیر اعظم کو نظر نہیں آتیں البتہ اگر آپ نے ہولوکاسٹ کا انکار کر دیا تو یورپ کی عدالت انصاف کو وہ تمام حدود یاد آ جائیں گی جو شق 10 میں لکھی ہیں اور ساتھ ہی کنونشن کی شق 17 بھی یاد آ جائے گی جس میں لکھا ہے کہ کسی بھی شخص کے حقوق کی تشریح اس انداز میں نہیں کی جائے گی اس سے دوسروں کے حقوق کا تحفظ خطرے میں پڑ جائے۔

اگر میں کسی یورپی ملک کا شہری ہوتا تو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف ایک درخواست دائر کرتا جس میں یورپی عدالت کی انہی فیصلوں کا حوالہ دیتا جو اس نے ہولوکاسٹ کے ضمن میں دے رکھے ہیں اور جن کے تحت اظہار رائے کی لا محدود آزادی پر پابندی عائد ہے۔ افسوس کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لیکن کیا کوئی ایک بھی یورپی مسلمان ایسا نہیں جو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں یہ مقدمہ دائر کر سکے؟ اس مقدمے پر بہرحال ڈی ایچ اے میں ایک پلاٹ خریدنے سے کم ہی خرچہ آئے گا!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments