ضرورتوں کے محصور آلودہ جسم


آدم اور ہوا سے شروع ہونے والا یہ ناٹک وقت کے سروں پہ رقص کرتا ہوا مابعد جدیدیت کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ انسان ستاروں پہ کمند نہ صرف ڈال چکا بلکہ رہائش پذیر ہو چکا ہے۔ نت نئے رنگ، ان دیکھے پہناوے، ایجادات کی بھرمار، مادے کی ریل پیل اور آسائشوں کا طوفان ہے مگر آج انسان خود کہیں کھو گیا ہے۔ انسان کے پاس ہر خواہش کو پورا کرنے کے بے شمار ممکن انداز ہیں، کثیرالاستعمال سہولیات ہیں مگر حسرت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ نظر ہے کہ بھرنے کو نہیں، پیٹ ہے کہ اور مانگتا ہے، بھوک ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے اور شورش ہے کہ ختم ہونے کو نہیں

آدم کو جنت میں مادے کی تمام تر ممکن صورتوں اور خواہشات کی تکمیل کے تمام ذرائع کی محور حوا جیسی آسائش سے نوازا گیا مگر آدم کی حسرتوں نے اسے بے چین کیے رکھا اور اختتام جو ہوا سو ہوا! آج کا انسان تاریخ کے پر آسائش دور کا شاہد ہے اور شاید طاقتور ترین بھی مگر انسان کی بھوک مٹانے کو کوئی شے خاطر نہیں۔ انسان پیدائش کے فوراً بعد سے ہی مادی ضروریات سے نبرد آزما ہوتا ہے اور پھر یہ سفر قبر کی زیارت تک جاری رہتا ہے۔

انسان نے اس تاریخی سفر میں اپنی بھوک، جسمانی ضرورتوں کے اسباب کو ختم کرنے کے لیے بے بہا وسائل کو استعمال کیا۔ اس سفر میں کئی نشیب و فراز دیکھے، جنگیں لڑی، جنگل چھوڑا، قبائل تشکیل دیے، خاندان کی بنیاد رکھی اور آگے بڑھ کر نئے جہاں دریافت کیا مگر جو شے نہیں بدلی وہ انسان کے اندر کشید فطری ضرورت کی ہوس اور حرس کا ابال ہے۔

تاریخ پہ نظر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان اکیلا ہی اس دنیا میں آیا تھا، تن تنہا ہی اپنے استحکام کی جنگ لڑی اور یہ جنگ فطرت کے خلاف لڑی گئی، اس جنگ کا واحد مقصد ضرورتوں کا خاتمہ اور بھوک سے نجات تھا۔ انسان کی بھوک ختم ہوئی تو اس نے خواہشات کا رخ کیا اور اس ضمن میں آج کی رونق تک جا پہنچا۔ حسرت کو ایجاد کیا اور اس کی تکمیل میں سماج تشکیل دیا، سماج کی بنیاد ضرورت پہ رکھی لیکن اسے پروان چڑھانے کے لیے خواہشات کی سیڑھی کا استعمال کیا۔ ہم نے دیکھا جب جب انسان تمام ضروریات سے بے نیاز ہوا تو فساد، فتنہ اور خوں ریزی کی طرف مائل ہوا۔ اشوکا سے لے کر ہٹلر اور سکندر سے لے کر چنگیز تک سب کے سب انسان ضرورتوں سے بے نیاز تھے سو حسرتوں کے دامن میں زندگی ڈھونڈتے رہے۔

دوسری طرف انسان نے زندگی کے تعاقب میں فلسفے، منطق اور سائنس جیسے انقلاب برپا کیے مگر ان کے پیچھے بھی ہاتھ کسی نہ کسی مادی، ذہنی ضرورت کا ہی تھا۔ کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں عورت کا ہاتھ ہو نہ ہو ضرورت کا ضرور ہوتا ہے۔ انسان جو ضرورت کے بیج میں بویا ہوا ایک مادہ ہے، سب کچھ ایک طرف اور اس کی بھوک کا نشہ دوسری طرف!

آج کا انسان جو خدا کو للکار رہا ہے، کائنات کی ہر مادی شے کی ہیئت تک پہنچ گیا ہے لیکن اپنے جسم کے اندر کشید بڑھتی ہوئی بھوک پہ روک نہیں لگا سکا۔ کوئی کھرب پتی ہو، فقیر ہو، کسی مذہب کا ہو یا نہ ہو بھوک سب کی ایک جیسی ہے اور اس میں مشترک قدر بھوک کا تواتر کے ساتھ بڑھتے چلے جانا ہے۔ ایک نظر انسان کے جسمانی نمو پی کریں تو پتہ چلا کہ انسان پیدائش کے ساتھ سب سے پہلے بھوک کی وجہ سے روتا ہے۔ اس وقت یہ بھوک ماں سے پوری ہوتی ہے تو انسان کی محبت ماں ہوتی ہے۔

تھوڑا بڑا ہوا تو بھوک میں اضافہ ہونے لگا، اب یہ بھوک باپ پوری کرتا ہے تو محبت باپ سے ہوتی ہے، مزید بڑا ہوا پیٹ بھر رہا ہے مگر ایک نئی بھوک سامنے آ کر ناچ رہی ہوتی ہے یعنی جسم کی بھوک جس کا ماخوذ صنف مخالف کا جسم ہے تو اب اس ہوس کے پجاری انسانی جسم کی تمام حسرتوں کا محور صنف مخالف بن جاتی ہے۔ اس بھوک کو پورا ہونے میں صدیاں ترک ہوئیں ہیں مگر یہ بھوک پوری نہیں ہوئی۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لئے انسان نے مذہب، فلسفے اور نروان کی ایجاد کی۔

شاید کافی حد تک یہ ایجاد کامیاب بھی رہی لیکن یہ بھوک کم ہونے کی بجائے مختلف صورتوں میں ڈھل کر سامنے آنے لگی۔ اسی بھوک نے رقص و سرور، لبھاہت و لمس، لباس، ثقافت، رنگ و بو، سر اور سنگیت جیسی کئی اقدار کی بنیاد ڈالی۔ اسی بھوک سے تپے ہوئے انسان نے دنیا کو اپنی مٹھی میں تاریخ کے مختلف ادوار میں قید کیا۔ خدائی اور آفاقی حاکمیت کے دعوے کیے۔ انسانی زندگی کا کھلواڑ بنا دیا مگر بھوک ندارد۔ دیکھا جائے تو سارے فلسفے، رشتے ناتے، تعلق، محبتیں، خواہشیں، مادے کی حالتیں اور چاہتوں کے جذبے جسم کی ضرورتوں کے تابع ہیں۔

انسان کے سارے تعلق کھوکھلے ہیں اگر اس میں ضرورت کا رس موجود نہ ہو۔ انسان کی ساری محبتیں جھوٹی ہیں اگر بھوک پوری نہ کر سکیں۔ سارے تعلق منافقت کے سوا کچھ نہیں جو اس سے ضروری حسرت پوری نہیں ہو رہی۔ یہاں تک کہ سارے رشتے چاہے ماں باپ کے ہوں یا بہن بھائیوں کے مکر اور فریب ہیں اگر ان سے منسوب ضرورت کے پورا ہونے میں تاخیر ہو جائے۔ انسان مادے کا پتلا ہے۔ بھوک کے ہاتھوں کٹھ پتلی اور ضرورتوں کی محصور رکھیل ہے جو اپنی جسمانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے وہ پھر چاہے محبت کا دعویٰ ہی کیوں نہ ہو!

انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر جسم کی ضرورت میں کمی ہو جائے تو یہ باولے کتے سے زیادہ باولا اور بھوکے بھیڑیا سے کہیں زیادہ منہ زور حیوان ہے لہذا سچ کا سامنا کریں اور اپنی ضروریات کو مادے کی رنگارنگ تہوں میں لپیٹ کر محبت کے دعوے کرنے جیسی منافقت چھوڑ دیں۔ جس شخص سے جو ضرورت ہے منہ کھول کر اظہار کریں اور شاید اس کے علاوہ محبت کا کوئی انداز ہو نہیں سکتا جو ایک انسان دوسرے کو پیش کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments