شریف برادران کی سیاست


شریف برادران اقتدار پر خاندانی گرفت میں رکھنے کے قائل ہیں اور بارہا ثابت ہو چکا ہے کہ اصولوں اور میرٹ کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ نون لیگ کو اقتدار ملنے کے فوراً بعد ہی واضح ہو گیا تھا کہ شریف خاندان نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہیں سے سفر شروع کیا ہے جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ شریف خاندان نے اس بار بھی ثابت کیا کہ ان کے نزدیک مشکل وقت میں قربانی دینے والے نظریاتی لوگوں کی بجائے خاندانی مفادات کی زیادہ اہمیت ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد عہدوں کی بانٹ کا مرحلہ آیا تو شریف برادران نے مرکز اور پنجاب میں اہم عہدے اپنے بھائی کی فیملی میں بانٹ دیے۔ چار دن کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی نون لیگ کو ملی، خاندان کے علاوہ کسی کو اس کرسی پر نہیں بٹھایا گیا۔ حالانکہ حمزہ شہباز کے سوا اس منصب پر کسی اور شخص کو تعینات کر دیا جاتا تو غالب امکان ہے کہ نہ صرف پنجاب اسمبلی بلکہ نون لیگ کی حکومت بھی اس وقت پنجاب میں برقرار ہوتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی معاشی حالت اس وقت بہت گمبھیر ہے مگر وزیراعظم کے منصب پر بیٹھے شخص کو زبان سے کوئی لفظ نکالنے سے قبل سوچنا چاہیے کہ قومی وقار پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ شہباز شریف انتظامی قابلیت کے لحاظ سے ہی فیل نہیں ہوئے بلکہ آئے روز ان کی شخصیت اور گفتگو کے سبب مذاق بنتا ہے۔ مریم نواز اپنے بیانات کے سبب اکثر نون لیگ کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہتی ہیں لیکن جماعت کے اندر میاں صاحب کے بعد تمام اختیارات کا محور ان کی ذات ہے۔

مریم نواز اگر نواز شریف کی بیٹی نہ ہوتیں تو ان کے پاس کیا صلاحیت ہے جس کی بنیاد پر اتنی جلدی وہ پارٹی میں ممتاز مقام حاصل کرتیں؟ نون لیگ کے لیے جتنی قربانیاں جاوید ہاشمی خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید نے دی ہیں شاید ہی کسی نے دی ہوں کیا ان میں سے کوئی ایک اس قابل نہیں کہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھال سکے۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں نہ صرف دباؤ کا بے مثال مقابلہ کیا بلکہ قیادت سے لا زوال وفاداری بھی دکھائی، مگر مریم نواز کو پارٹی کی سینئر نائب صدر مقرر کرنے سے قبل ان سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔

اب شاہد خاقان عباسی نے پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ اچانک تو نہیں کیا ہو گا۔ پارٹی قیادت ان کے تحفظات سے یقیناً آگاہ ہوگی۔ جب سے پی ڈی ایم حکومت آئی ہے ان سطور میں کم از کم چھ بار تو ہم لکھ چکے ہیں کہ نہ صرف شاہد خاقان عباسی کو نظر انداز کرنے پر نون لیگ میں بے چینی موجود ہے بلکہ مریم نواز کو سینئر قائدین کی موجودگی میں اتنا اہم عہدہ ملنے پر بھی جماعت کے اندر بغاوت پیدا ہو رہی ہے۔

اقتدار سے نکلنے کے بعد نواز شریف صاحب گلی گلی میں ووٹ کو عزت دلانے کے نعرے لگا رہے تھے۔ جس جماعت میں اپنے عہدوں پر تعیناتی انتخابات کے بجائے قیادت سے رشتہ داری کی بنیاد پر ملتی ہو کیا وہ عوام کے ووٹ کو عزت دلانے میں سنجیدہ ہوگی؟ برس ہا برس قربانیاں دینے اور سختیاں برداشت کرنے کے بعد پارٹی قائد کی اولاد کے پیچھے گھومنے سے بہتر تو فیصلہ یہی ہے جو شاہد خاقان نے لیا۔

مفتاح اسماعیل کے ساتھ شریف برادران نے اپنے سمدھی کی محبت میں جو سلوک کیا اس کی تائید کی جا سکتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزارت دینا یا واپس لینا وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے لیکن جس طرح پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت کے ذریعے مفتاح اسماعیل کے خلاف منظم مہم چلائی گئی یہ ہر لحاظ سے توہین آمیز تھا۔ روزانہ اخبارات میں فرمائشی کالم لکھوائے جاتے تھے کہ مفتاح اسماعیل کے اقدامات سے غریب کی کمر ٹوٹ رہی ہے اور ان کی وزارت برقرار رہی تو جماعت کا ووٹ بنک برباد ہو جائے گا۔

یہی کہانی دوبارہ رات کو ٹاک شوز میں دہرائی جاتی تھی۔ اینکرز کے روبرو بیٹھ کر ہر روز اسحاق ڈار طمطراق سے دعوے کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اسحاق ڈار تواتر سے یہ دعوے کر رہے تھے کہ پچیس سال سے وہ آئی ایم ایف کو ڈیل کر رہے ہیں اور اس کی سخت شرائط تسلیم کیے بغیر ہی وہ معاہدہ بحال کر لیں گے۔ حالانکہ معیشت کے متعلق معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا تھا کہ عمران حکومت کی رخصتی کے بعد جو فارمولا بنا ہے آئی ایم ایف سے معاملات بہتر کیے بغیر معیشت بہتر بنا سکتا ہے اور نہ ہی یہ عوامی مشکلات میں کمی لا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی حلف سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسے سالانہ قومی بجٹ کا حصہ نہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں مگر شوکت ترین کو ناک سے لکیریں لگا کر نہ صرف منی بجٹ لانا پڑا بلکہ ٹیکسوں کی چھوٹ بھی ختم کرنی پڑی۔ یہ الگ بات ہے کہ اقتدار ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر جاتے جاتے عمران خان کے حکم پر انہی شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ توڑ کر ملک کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیل دیا تھا۔

جس کے بعد اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا کہ ملک میں جو بھی سیٹ اپ قائم ہوا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اسے ہر صورت مکمل کرنا پڑے گا، اور کوئی بھی وزیر خزانہ آ جائے زمینی حقیقت یہی رہے گی کہ ریاست پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کی خواہشات سے روگردانی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ان حالات میں مفتاح اسماعیل کیا کر سکتے تھے۔ عملاً ڈیفالٹ ہو چکی معیشت میں وہ کب تک بجلی، گیس، تیل اور ڈالر کے نرخ کنٹرول میں رکھ سکتے تھے۔

تیل قیمتیں اگر مفتاح اسماعیل بڑھا رہے تھے تو اس سے ملنے والا اضافی پیسہ ان کی جیب میں تو نہیں جاتا تھا۔ ظاہر ہے یہ فیصلے مفتاح اسماعیل کے ذاتی نہیں بلکہ کابینہ کے تھے اور یہ سب وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سے ہو رہا تھا۔ معاشی ماہرین اسحاق ڈار کے دعووں کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ معیشت کسی شخصیت کے نہیں بلکہ اپنے اصولوں کے تابع چلتی ہے۔ اسحاق ڈار بھی کچھ وقت تک تیل اور ڈالر کی قیمت کو روک کر بالآخر وہی کام کرنے پر مجبور ہو چکے جس کو بنیاد بنا کر مفتاح اسماعیل کو وزارت سے فارغ کیا گیا تھا۔

اس بار مریم نواز قوم سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کا ساتھ دینے کی اپیلیں کر رہی ہیں۔ مفتاح اسماعیل کے وقت مریم نواز ہر معاشی فیصلے میں نہ صرف مداخلت کرتی تھیں بلکہ روزانہ ٹویٹ کر کے کھلے عام ان کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتی تھیں۔ مریم نواز کبھی یہ بتانا پسند نہیں فرمائیں گی کہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کا جواز پیدا کرنے کے لیے ڈالر اور تیل کی قیمتیں روکے رکھنے کا فیصلہ قومی خزانے کو کتنے ارب ڈالرز کے نقصان کی صورت میں پڑا۔ لیکن میرے خیال میں یہ مثالیں سوشل میڈیا پر شریف برادران کے اقتدار کے لیے برسر پیکار نوجوانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments