بغداد کی گلیوں میں گھسیٹی جا رہی برہنہ لاش


جانے کیوں پندرہ جولائی 1958 کی صبح اخبارات میں چھپے بغداد کی گلیوں میں گلے میں رسی ڈال کے گھسیٹی جا رہی برہنہ لاش کے فوٹو آج بھی اکثر ڈراؤنے بھوت بن کے میرے سامنے ناچنے لگتے ہیں۔ یہ عراق کے شاہ فیصل ثانی کے ماموں، 1939 سے 1953 تک اس کی طرف سے بطور ریجنٹ اور وزیر اعظم حکومت کرنے والے عبداللہ کی لاش تھی۔ اس کی لاش کا مثلہ کرتے عضو مخصوص کاٹ منہ میں دینے کا بھی کچھ ذکر تھا اور بغداد کے چوک میں اس لاش کے لٹکنے کے منظر تھے۔

چودہ جولائی کی صبح عراقی فوج کے انیسویں بریگیڈ کے بریگیڈیئر، جنرل عبدالکریم قاسم اور اس کے دوست کرنل عبدالسلام عارف کی قیادت میں عراقی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا۔ چار سال کی عمر میں تاج سجنے کے بعد اٹھارہ برس کی عمر تک تعلیم کے لئے برطانیہ میں مقیم رہنے والے، شریف مکہ حسین بن علی کے پڑپوتے شاہ فیصل ثانی اور اس کے تمام اہل خانہ کو شاہی محل ہی کے باغیچہ میں دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ کئی لاشوں کی بھی نمائش کی گئی، مگر عبداللہ کے ساتھ خصوصی بہیمانہ سلوک کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نوری السعید بچ نکلا مگر اگلے روز برقعہ پہن فرار ہونے کی کوشش کرتے پکڑا گیا اور اسی انجام کو پہنچ چکا تھا۔

Abd al-Ilah

فیصل ثانی کا باپ شاہ غازی اپنے باپ فیصل اول کی وفات پر 1933 میں تخت نشین ہوا۔ برطانوی حاکمیت سے جان چھڑانے کی کوشش کی تو 1939 میں اپنے تیز کار چلانے کے شوق کو پورا کرتے کار ایک کھمبے سے ٹکرانے یا ٹکروائے جانے کے حادثے میں ہلاک ہو جانے کی خبریں نشر ہو گئیں۔ (رنگ قدرت یا مماثلت یا کچھ اور کہ چھ دہائیوں بعد اسی سلطنت برطانیہ کے زیر عتاب آنے والی شہزادی ڈیانا اپنے دوست عرب نژاد دودی الفائد کے ساتھ اسی انداز میں تیز رفتار کار کے کھمبے سے ٹکرانے یا ٹکروائے جانے کے حادثہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں)۔

تب چار سالہ شاہ فیصل دوم شاہ عراق کے منصب پر فائز ہوا تھا۔ اور چودہ جولائی 1958 کو اس کی لاش بھی نمائش کے لئے رکھی گئی تھی۔ ہاں یہاں بھی عبدالکریم قاسم، عبدالسلام عارف اور ساتھی جنگ فلسطین میں بے جگری سے لڑ چکے تھے۔ اور یہاں بھی آزاد افسران کا گروپ تھا۔ مصر کے جمال عبد الناصر، انوارالسادات کے گروپ کی طرح اور اسی ناصر کا مداح۔ عراق اور اردن نے مصر شام اتحاد کی مخالفت کی تھی اور جواباً ناصر عراق ایران ترکی پاکستان کے معاہدۂ بغداد کا بھی مخالف تھا اور عراق اردن ادغام کا بھی۔

عراق سے بادشاہت کا خاتمہ کرتے تین رکنی حاکمیت کونسل، جس کی حاکمیت ہی نہ تھی، کے نیچے اصل مقتدر عبدالکریم قاسم، وزیر اعظم، سپریم فوجی کمانڈر اور وزیر دفاع کے عہدہ پر فائز ہوتے عنان اقتدار سنبھال چکے تھے۔ عبدالسلام عارف ڈپٹی کمانڈر، نائب وزیراعظم اور وزارت داخلہ کے قلمدان کے حق دار پائے بعث پارٹی کے احمد حسن البکر بھی کابینہ کے رکن بنے۔ گھر کے چوکیدار گھر پہ قابض ہو چکے تھے۔

nuri al said

ہندوستانی فلم ڈی کا کہانی کی روح بیان کرتا فقرہ ”دھندے میں دوست دشمن ہوتا ہے“ بہت سچی حقیقت ہے۔ اقتدار کی سیڑھیوں اور پگڈنڈی پہ چڑھتے راہ دکھانے والے محسنوں اور ساتھ لے جانے والے اپنوں کی پیٹھ میں خنجر بھونکتے راہ سے ہٹا کے خود قابض ہو جانے کا کھیل۔ ظلؔ ہما نظر آتے اقتدار کی سیڑھی کی طرف دھکیلنے والے مصر کے جمال عبدالناصر سے نجات کا خواہشمند قاسم، اب بھی ناصر کے حامی اپنے دست راست عبدالسلام عارف کو صرف اڑھائی ماہ بعد تیس ستمبر کو عہدوں سے فارغ اور چار نومبر کو سازش کے الزام میں موت کی سزا سنا چکا تھا۔ سزائے موت بعد میں عمر قید میں بدل گئی۔

آٹھ فروری انیس سو تریسٹھ پھر دھندے کی دوستی کی دشمنی رنگ دکھا رہی تھی۔ انقلاب رمضان کے نام سے مشہور یہ دن بعث پارٹی کے احمد حسن البکر اور عبدالسلام عارف پہلے انقلاب کے اپنے قائد سے اپنی دوستی نبھا رہے تھے۔ حکومت الٹنے کا آپریشن کامیاب ہوا۔ عبدالکریم قاسم گرفتار ہوا۔ سرسری سماعت نے موت کی سزا سنائی اور ساتھ ہی گولی سے اڑا وہیں پہنچا دیا گیا جہاں اس نے شاہی خاندان کو پہنچایا تھا۔ کسی کو مدفن کا بھی پتہ نہ تھا۔ دو ہزار چار میں اس کی قبر کا کھوج لگا۔

اب عارف عبدالسلام صدر اور حسن البکر وزیر اعظم تھے۔ مگر اس دھندے میں بھی پارٹنر جلد دشمن نظر آنے لگے اور نومبر تریسٹھ میں ہی عارف، حسن البکر کو حکومت سے بر طرف اور فوج سے جبری ریٹائر کر چکے تھے۔ عبدالسلام عارف کا بھائی عبدالرحمان عارف منظر پہ آ چکا تھا اور اقتدار کی عنان دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں مضبوطی سے آ چکی تھی ( دو پاکستانی بھائی آ گئے نا یاد ) ۔ اپریل چھیاسٹھ میں عبدالسلام عارف بھی ہیلی کاپٹر حادثہ میں رب کے حضور حاضر ہو گیا یا بھیج دیا گیا۔ ( بس یہ ہیلی کاپٹر حادثے بھی نا۔ بس قسمت ہو تو پاکستان میں دو ہزار بائیس میں دو حادثے ہوتے ہوتے محفوظ بروقت لینڈنگ کرا جاتے ہیں ) اب عبدالرحمان عارف کی حکومت تھی۔

دو برس بعد ہی سترہ جولائی اڑسٹھ کو حسن البکر اور اس کے کزن صدام حسین، عارف کے بھائی عبدالرحمان عارف کی حکومت الٹ کر جوابی وار کر کے اقتدار پہ براجمان ہو گئے اور انیس سو اناسی میں حسن البکر کی قیادت میں انتہائی تیزی سے ترقی کرتے عراق نے حسن البکر کو اپنے کزن صدام کی آستین میں خنجر دیکھ جان بچاتے مستعفی ہو گوشۂ عافیت میں جاتے دیکھا۔ صدام طاقت کے نشے میں امریکہ کی عراق کی ترقی کے مستقبل میں چبھتا لگنے والا کانٹا ابھی سے نکال دینے کی سازش کو نہ سمجھ سکا اور اسی کی شہ پے آٹھ سالہ عراق ایران جنگ، اور نوے میں کویت پر چڑھائی کر کے تینوں ملکوں کی تباہی کروا چکا تھا۔

زیر تعمیر ایٹمی پلانٹ اکیاسی میں ہی اسرائیلی طیاروں سے تباہ کروایا جا چکا تھا۔ ( یہ بھی عشق و محبت کی رنگین داستان سے بھرپور مشن تھا اور اس پہ کتاب اسؔی کی دہائی میں ہی سامنے آئی تھی ) پھر کیمیکل ہتھیاروں کے الزام نے عراق کو دو ہزار تین میں امریکہ و برطانیہ وغیرہ کے قبضہ میں جاتے دیکھا۔ یہاں اس کے دونوں دامادوں نے دامادی نبھائی اور راز امریکہ کے حوالے کیے تھے۔ دو ہزار سات میں مفرور صدام پوشیدہ غار میں سے کھینچ نکالا جا چکا اور تھوڑے عرصہ بعد ”شان سے مقتل کی طرف“ جا رہا تھا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

چند ہفتہ قبل یونہی یاد آ جانے والے اپنے سامنے گزرے الجزائر کے مجاہد آزادی بن بیلہ، ایوب خاں، سوئیکارنو اور نکرومہ وغیرہ کی استعماری طاقتوں کے چنگل سے اپنے ملکوں کی ڈیگال کی رہنمائی میں آزاد غیر جانبدار بلاک بنانے کے بھاگ دوڑ اور پھر ان لیڈروں اور ملکوں کے حشر سے متعلق مواد دیکھنے لگا تو ساتھ ہی شاہ فاروق، جنرل نجیب، شاہ فیصل ثانی قسم کے عبرت ناک مناظر سامنے آتے گئے۔ ایک چیز جو مشترک نظر آئی وہ یہ کہ اقتدار، کرسی اور حاکمیت کے لالچ میں طالع آزما، ان سیڑھیوں پر چڑھتے آستین کے سانپ بن یا خنجر چھپا پیچھے سے وار کرتے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اکثر پیش رو انہی محبتوں کا شکار بھی ہوتے جائے عبرت کا نشان بنتے انہیں انجام سے آگاہ بھی کر گئے ہیں۔

Abd_al-Karim_Qasim_&_Abd_al-Salam_A’ref

تخت شاہی اور اقتدار کی مسند پر چڑھنے کے اکثر ایک جیسے کھیل اور ایک جیسے انجام کی کہانیاں پڑھتا نہ کیسے یک دم یہ بیاسی سالہ بوڑھا اکتوبر سینتالیس میں واہگہ بارڈر پہ پاکستان داخل ہوتے بخیریت جائے امن پہنچتے خوشی کے آنسؤؤں میں ڈوبے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا بچہ بن گیا۔ اب بائیس سال قبل کینیڈا بھاگ آیا یہ بوڑھا ہو چکا بچہ پھر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا آنسو بہا رہا تھا۔ مگر یہ آنسو دکھ کے آنسو تھے۔

مسجد، امام بارگاہ، مندر، گرد دوارا، گرجا کی بم دھماکوں سے مسمار ہوتی چھتیں، نکلتے شعلے اور بلند ہوتی چیخ و پکار۔ ان سے ملحقہ پوری آبادیوں سے بلند ہوتے شعلوں سے نکلتی جلتی انسانیت کی بو، مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے چنگھاڑتی مار ڈالو جلا ڈالو کی چھنگھاڑیں، سرکاری سرپرستی میں پولیس کی موجودگی یا اسی کے ہاتھوں مسمار ہوتے مینارے محراب قبروں کے کتبے، پھاوڑوں سے بے حرمت کی جاتی قبریں، اقتدار کی جنگ میں قعر مذلت میں جاتا ملک اور بے کفن ایک سو چالیس نمبر قبر میں برہنہ پڑا نظام انصاف، ایک دوسرے کو اور اپنوں کو اور ملک کی سالمیت کو پیٹھ پیچھے سے خنجر مار کے اقتدار چھینے اور ملک لوٹنے دیوالیہ کرنے کے حیلے، قحط کی طرف جاتی غربت کی دہائی، اور جانے کیا کیا، یاد آتے ان نعروں کی گونج میں درد پیدا کرتے خدائے بزرگ و برتر سے خودکشی پہ تلی اس قوم پر رحم کی نظر اور ہدایت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمانے کی منت کر رہے تھے۔ کہ قرآن مجید میں بیان فرمودہ نافرمان قوموں کو کیے گئے اکثر انذار تو سامنے سے بے اثر گزر چکے۔

ادھر سوشل میڈیا کے واٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹاگرام فیس بک پہ پشاور کے جلوس کے نامعلوم اور معلوم کے نعروں سے بلبلاتی وڈیو ہر چند منٹ پر لوڈ ہوتی جاتی نظر آ رہی تھی۔ ”آئی زنجیر کی آواز، خدا خیر کرے“ کا گانا یو ٹیوب پہ آواز بکھیر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments