( 1 ) بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور سید فخرالدین بلے فیملی = داستان رفاقت‎‎


میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج، مجھے دیا لکھنا
اشفاق احمد اور بانو قدسیہ دو دو الگ الگ شخصیات ضرور تھیں لیکن ان میں جو فکری ہم رنگی اور ذہنی ہم آہنگی نظر آتی ہے، اس کے پیش نظر اگر انہیں سکے کے دو رخ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں، ایک دن اشفاق احمد ان کا ہاتھ تھام کر انہیں کچن سے باہر لائے۔ لان میں پڑی کرسی پر انہیں بٹھایا اور دوسری کرسی پر خود بیٹھ گئے۔ کہنے لگے کیوں باورچی خانے میں وقت اور خود کو ضائع کر رہی ہو؟ کھانا پکانے کے لئے نوکرانی ہے، سوچو، سوچو، سوچو، تم کیا کر سکتی ہو؟

بانو آپا نے قافلے کی ایک محفل میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک منٹ کے توقف کے بعد خان صاحب سے کہا میں لکھ سکتی ہوں۔ کہنے لگے پھر لکھتی کیوں نہیں؟ چھوڑ دو باورچی خانے کو ہمیشہ کے لیے۔ شوہر پرست بانو قدسیہ نے حامی بھر لی اور پھر لکھنا شروع کر دیا۔ علم و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ یہ باتیں بانو قدسیہ نے قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کے دوران اشفاق احمد کی موجودگی میں بتائیں۔ ادبی تنظیم قافلہ کے بانی میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے مرحوم تھے اور ہمارے گھر پر قافلے کے تحت کے جو محفلیں سجتی تھیں، انہیں میرے والد محترم قافلے کے پڑاؤ کا نام دیا کرتے تھے۔ قافلے کے پڑاؤ لاہور میں برس ہا برس جی او آر شادمان میں ہمارے گھر پر ہوتے رہے۔ بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے مجھے بھی انہی محفلوں میں فیض یاب ہونے کے مواقع ملے۔

اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا ہمارے گھر آنا جانا لگا رہا۔ بعض دنوں میں ملاقاتیں بڑھ جاتیں اور بعض دنوں میں کسی معلوم وجہ کے بغیر ملنا جلنا کم ہوجاتا، لیکن وہ ہمارے اور ہم ان کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔

اشفاق حمد صاحب نے آنس معین کی الم ناک موت پر جس انداز میں پرسہ دیا اور اس کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے مضمون لکھ کر دیا، اسے پڑھ کر بانو آپا کی آنکھیں نم ناک ہو گئی تھیں۔ انہوں نے کہا میں نے اس کی کچھ غزلیں اور نظمیں پڑھی ہیں بلکہ جن دنوں خان صاحب مضمون لکھ رہے تھے تو انہوں نے بھی مجھے آنس معین کے کچھ اشعار سنائے تھے۔ وہ تو بلا کا شاعر تھا، کرب، دکھ اس کی غزلوں میں رچا بسا ہے، ایسا شعری رنگ مجھے آج کے کسی اور شاعر کے کلام میں نظر نہیں آیا۔ وہ کافی دیر روتی رہیں اور آنس معین پر بات کرتی رہیں۔ موضوع بدل جاتا تو پھر گھوم پھر کروہ آنس معین کی طرف اس کا رخ موڑ دیتیں۔ انہوں نے مجھے مخاطب کر کے پوچھا بیٹا کیا شعر ہے وہ، میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا۔

میں نے آنس معین کا پورا شعر سنا دیا، آپ بھی سن لیں
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج، مجھے دیا لکھنا

زندگی اور موت کی تاریخوں میں ایک دن کا فرق عجیب اتفاق ہے۔ بانو آپا کی تاریخ پیدائش 28 نومبر ہے اور آنس معین کی 29 نومبر۔ بانو آپا نے 4 فروری کو دنیا سے کوچ کیا اور آنس معین نے برسوں پہلے 5 فروری کو ۔ ہے ناں عجیب سی بات۔

اسی اور نوے کی دہائی میں جی او آر میں میرے والد مرحوم سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر قافلے کی ان محفلیں سجا کرتی تھیں اور ان میں بڑے بڑے ادیب اور شاعر اپنی گفتگو سے ہمارے دامان سماعت سچے اور سچے موتیوں سے بھر دیا کرتے تھے۔ ان محفواں میں بہت بار بانو آپا بھی اپنے جیون ساتھی کے ساتھ تشریف لائیں۔ اپنے خوبصورت افسانے بھی سنائے۔ ادب کے گرم موضوعات پر بڑے ٹھہراؤ کے ساتھ گفتگو بھی کی۔ ماضی کی باتیں کر کے یادوں کے دریچے بھی وا کیے ۔

بہت سے مناظر میری آنکھوں کے سامنے جاگ گئے ہیں۔ لگتا ہے ماضی لوٹ آیا ہے اور قافلے کا پڑاؤ جاری ہے اور شرکائے محفل بانو آپا اور اشفاق احمد کو دلجمعی کے ساتھ سن رہے ہیں۔ بانو آپا محض ایک نامور ناول نگار، ڈراما نگار اور افسانہ نویس ہی نہیں تھیں، وہ ہمارے گھر کی ایک فرد بھی تھیں۔ ان کے جانے سے لگتا ہے کہ ہمارے سر سے ایک اور سایہ اٹھ گیا ہے اور گھر کا ایک اور اہم فرد کم ہو گیا ہے۔ وہ ہمارے ہر دکھ سکھ میں شریک رہیں۔ ان کے جملے اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں

بیٹا! تمھارے والد سید فخرالدین بلے بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ وہ شاعر، ادیب، دانشور اور مزاجاً صوفی ہی نہیں اپنی ذات میں ایک ادارہ اور ایک انجمن بھی تھے۔ ساری زندگی رزق حلال کل کمایا، خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی یہی کچھ کھلایا۔ دوست احباب میں آسانیاں بانٹیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قبر اور حشر میں ان کے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔ میں کیا کہوں؟ زبان گنگ ہو گئی ہے اور الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ چند جملے بولنے کے بعد بانو آپا چپ ہو گئیں۔ لیکن اس مختصر سی گفتگو کی گونج مجھے ابھی سنائی دے رہی ہے۔

بانو قدسیہ کی زندگی کا سورج ڈوبنے کے ساتھ ہی ناول نگاری اور افسانوی ادب کا ایک روشن باب بند ہو گیا۔

اشفاق احمد اور بانو قدسیہ ادبی دنیا کی ایک مثالی جوڑی تھی۔ جو ایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔ بانو آپا کو ان کے جیون ساتھی اشفاق احمد کی پائنتی سپرد خاک کیا گیا۔ جادہ ادب پر دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلے، رکے تو ساتھ رکے، اس دو رکنی قافلے نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو اکٹھے ڈالا۔ اور اس سفر میں اتنے گہرے نقوش چھوڑے کہ مسافران ادب کے لئے راستے روشن ہو گئے۔

بانو قدسیہ محض اشفاق احمد کی اہلیہ نہیں، ناول نگاری اور افسانہ نویسی کا ایک بڑا نام تھیں اور ہیں۔ وہ اردو ادب کی آبرو تھیں اور گلشن ادب کا خوب صورت رنگ۔ ان کے فکر و خیال کی بنیاد پر جو کلیاں چٹکیں

یہ نوے کی دہائی کی بات ہے۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ قافلے کے پڑاوٴ میں شریک ہوئے۔ بانو آپا (محترمہ بانو قدسیہ) نے اپنا افسانہ کعبہ میرے پیچھے، بھی میری ہی فرمائش پر پڑھا تھا۔ میں نے ان کے گھر جا کر تازہ افسانہ پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔ انہوں نے جواباً بتایا ایک افسانہ تو کل پرسوں ہی مکمل ہوا ہے مگر وہ نہیں، بلکہ ایک اور افسانہ لکھنا شروع کیا ہے، وہ پڑھوں گی۔ میں نے کہا قافلے کا پڑاؤ اب سے 20 دن بعد ہو گا، یہ افسانہ میرا ہوا۔

وہ مسکرائیں اور ہامی بھر لی۔ چند روز بعد خیال آیا کہ بانو آپا نے تو دعوت قبول کرلی ہے مگر ابھی اشفاق صاحب سے بات نہیں ہوئی، وہ ان کے بغیر نہیں آئیں گی، چنانچہ فون پر اشفاق صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ میری بانو آپا سے بات ہو چکی ہے، اب آپ کی اجازت درکار ہے۔ وہ بھی یوں کہ وہ آپ کے بنا اور آپ ان کے بغیر اتنے اچھے نہیں لگتے کہ جتنے ساتھ ساتھ۔ اشفاق صاحب میری بات پر ہنسے اور کہا انہیں پھانس چکے ہو اور اب میری باری ہے۔

بہر حال پھر یکم تاریخ بھی آ گئی اور یہ دونوں بھی حسب وعدہ میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر آ گئے۔ بہت سے ارباب علم و ادب پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔ اسلم کمال نے اپنے چند نثر پارے پیش کیے، پھر بانو آپا نے اپنا خوب صورت افسانہ پڑھا۔ غالباً اس افسانے کا دورانیہ 45 یا 55 منٹ تھا۔ شرکائے قافلہ پڑاؤ کا انہماک دیدنی تھا۔ چند منٹوں تک حاضرین محفل اس کے سحر سے باہر نہیں آ سکے۔ پھر میزبان محفل سید فخرالدین بلے نے افسانے کے حوالے سے گفتگو کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ بانو قدسیہ صاحبہ کا اشفاق صاحب سے بڑا قریبی تعلق ہے مگر پھر بھی افسانے میں کہیں ابہام نہیں ہے۔

اس جملے کے بعد انہوں نے بانو آپا کے اس افسانے کی کچھ جہتوں کی نشاندہی کی اور اس میں چھپے ہوئے پیغام کو بھی اجاگر کیا۔ علامہ شبیر بخاری۔ مرتضیٰ برلاس۔ ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر اجمل نیازی، خالد احمد، بیدار سرمدی اور سرفراز سید نے افسانے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ البتہ اشفاق صاحب نے گفتگو میں کم حصہ لیا۔ اب اشفاق صاحب اور برادر محترم سید عارف معین بلے تبادلہ خیال میں مصروف نظر آئے۔ میں نے بانو آپا سے کہا آپ چائے تو پی لیجیے۔

کہنے لگیں پہلے خان صاحب کو دیجیے۔ انہوں نے واپس جانے کی اجازت چاہی تو میں نے برجستہ کہا آپ سے آنے کا وقت طے ہوا تھا، جانے کا نہیں۔ پھر عارف بھائی بھی بانو آپا کے پاس آ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آپ سے تو اب بات ہوگی، چند لمحوں میں ان دونوں کا موضوع بن گئے اشفاق احمد۔ عارف بھائی نے جب بانو آپا کو اشفاق احمد کی تمام تخلیقات کا بالترتیب حوالہ دیا تو بانو آپا نے حیرت کے ساتھ پوچھا بیٹا تم نے خان صاحب کو کتنا پڑھ رکھا ہے؟ ان کی تخلیقات کی گہرائی میں اترنا مشکل ہے لیکن خان صاحب سے آپ سب لوگوں کی محبت اور ان کی سوچ اور فکر سے آپ کی آگاہی قابل قدر ہے۔

میں نے کہا بے شک۔ لیکن آج تو آپ کا دن ہے اور اب عارف بھائی آپ سے آپ کی تخلیقات کے حوالے سے بات کریں گے۔ جب دیر تک بانو آپا عارف بھائی سے اپنی کتابوں اور افسانوی تخلیقات کے بارے میں سنتی رہیں تو فرمایا بیٹے یہ آپ کی محبت ہے ورنہ کیا برگد تلے کوئی پودا پروان چڑھ سکتا ہے؟ عارف بھائی نے برجستہ کہا برگد کے پیڑ کے پاس ایک اور برگد کا پیڑ بھی تو ہو سکتا ہے۔ بانو آپا اشفاق احمد کو برگد کا پیڑ ہی کہا کرتی تھیں۔

بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور سید فخرالدین بلے فیملی = داستان رفاقت۔ png~ 518 KBShow Download

محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کا یہ مصورانہ شاہکار ممتاز مصور پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق کیا ہے۔ jpg~ 81 KBShow Download

محترمہ مہر افروز بلے (بیگم سید فخرالدین بلے ) کا یہ مصورانہ شاہکار ممتاز مصور پروفیسر آکاش مغل صاحب نے تخلیق کیا ہے۔ jpg~ 63 KBShow Download


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments