سرکاری محکموں کے صاحبان کی ریٹائرمنٹ


بھٹی صاحب کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں خوب پذیرائی ہو رہی تھی۔ ان کی سروس میں شاندار کارنامے گنوائے جا رہے تھے۔ تالیوں کی گونج، پھولوں کہ ہار، گلدستے، اور کچن میں بنتی چائے اور ریفریشمنٹ کہ سامان کے لیے سجتی سنورتی پلیٹوں کی آواز ایک ایسا ماحول بنا رہی تھی جیسے کوئی مہان ہستی رخصت ہو رہی ہو۔ اب یہ شخصیت کون تھے اور حاضرین کون تھے اس کو جاننے سے پہلے بھٹی صاحب کے تقریب سے کہے کلمات سے اندازہ لگاتے ہیں

”یہ سفر کٹھن تھا مگر طے ہوا، اس سفر میں میں نے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے، اچھا برا وقت دیکھا، مگر خدا کی مدد اور نصرت ساتھ تھی کہ میری خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور نیک نیتی سے کی گئی میری سروس کو میرے رفقاء یاد رکھیں گے“

چھوٹی چھوٹی بات پر تالیوں کی گونج بھٹی صاحب کو سراہا رہی تھی مگر وہاں بیٹھے کرداروں کی اکثریت بھٹی صاحب کے متاثرین میں سے تھی۔ بھٹی صاحب واپڈا سپریٹنڈنٹ ریٹائر ہو رہے تھے اور ساری سروس انہوں نے میز کے اوپر سے کم اور نیچے سے زیادہ کام کیا۔ کرسی پر جب وہ سپریٹینڈنٹ بن کر بیٹھتے تھے تو اپنے سے نیچے لوگوں کو شودر سمجھتے تھے جبکہ اپنے سے اوپر افسران کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے اور عملی طور پر تو ممکن نہ تھا مگر وہ اشاروں کنایوں میں اپنے صاحب بہادر کے آگے پلکیں بچھا دیتے تھے اور کئی بار اس پر شاباش بھی وصول کرلیتے تھے۔ کچھ افسروں کو اس قدر چاپلوسی بھی ناگوار گزرتی تھی تو وہ بھٹی صاحب کو زیادہ منہ نہیں لگاتے تھے۔

تقریب میں بیٹھا وہ ملازم بھی تھا جس کو بھٹی صاحب نے بلاوجہ دیر تک بٹھانے کہ ہر حربے آزمائے اور اس کو پابند کیا کہ وہ ان کی جی حضوری بجا لائے۔ کئی لائن مین بھی بیٹھے تھے جنہوں نے بھٹی صاحب کی کال سنتے ہی سلام دعا سے پہلے گالم گلوچ سے عزت افزائی کروائی تھی۔ تقریب میں بیٹھا بھٹی صاحب کا وہ کولیگ بھی تھا جس نے اپنے بیٹے کی بھٹی صاحب کو نوکری کے لیے سفارش کی تھی اور لڑکا جب اپنی اہلیت کی بنا پر میرٹ پر دوسرے نمبر پر آیا تو بھٹی صاحب کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے ملی بھگت کر کے لڑکے کو لسٹ میں دوسرے نمبر سے ہٹوا کر کئی درجے نیچے ایسا دے مارا کہ میرٹ لسٹ بھی شرمندہ ہو گئی۔ یہ بھٹی صاحب کا اپنے کولیگ کے ساتھ ذاتی بغض و عناد تھا جس کی بھینٹ میرٹ چڑھا۔

جنسی ہراسانی کی بھی داستانیں بھٹی صاحب کے بارے بہت مشہور تھیں مگر یہ ایسی چیز تھی جس کو نہ تو ثابت کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی بھٹی صاحب کوئی ایسا تاثر چھوڑتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت موجود ڈیجیٹل تسبیح اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ ایک پاک باز اور صوم و صلوۃ کے پابند ہیں۔ ان کی اسی خاصیت کی وجہ سے نہ تو ان کو رشوت خور ثابت کیا جا سکتا تھا نہ جنسی ہراسانی اور حسد جیسے مرض میں مبتلا شخص کہا جا سکتا تھا۔ اگر کوئی بالفرض کسی کہ سامنے اظہار بھی کر لیتا تو دوسرے لوگ توبہ توبہ کر کے اس کو ہی گناہ کا مرتکب قرار دے ڈالتے۔ گویا بھٹی صاحب کا طوطا اور طوطی دونوں بولتے تھے۔

ہفتہ میں صرف دو دن حاضری لگاتے تھے اور اوپر کے افسروں کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ بھٹی صاحب کہاں ہیں۔ کبھی فوتگی، کبھی جنازے کبھی کسی حادثے کا جائزہ لینے غائبانہ طور پر پہنچ جاتے تھے اور افسر بھی ان وضاحتوں سے مطمئن رہتے تھے۔ لیکن جس دن بھٹی صاحب دفتر میں بیٹھتے اس دن تمام چھوٹے سٹاف کی حاضریوں کی جانچ پڑتال، غیر حاضری پر بازپرس اور ہر طرح کی ذہنی خبطگی اپنے ملازمین پر نکالتے تھے۔

بھٹی صاحب نے اپنی نوکری کو ہی ذریعہ بنا کر کروڑوں روپے کی پراپرٹی بنا چکے تھے۔ مگر مجال ہے وہ کسی کو 30 روپے کا کپ چائے کا پلا دیتے۔ کبھی کبھار کوئی کولیگ کہہ بھی دیتا کہ آپ کچھ کھلا پلا دیں تو اگلے دن اندرون شہر کی گلیوں سے کم ترین ریٹ والی نمکو لا دیتے تھے اور سارا دن اس کے فضائل بیان کرتے تھے کہ اس کو کھانے سے معدہ کیسے تروتازہ رہتا ہے۔ اور یہ برینڈیڈ نمکو سے کتنا بہتر ہے۔ یہ فضائل ہفتہ تک چلتے تھے تاکہ بھٹی صاحب نے کچھ کھلایا ہے وہ سب کو یاد رہے۔ کافی لوگوں نے ان کے بارے مشہور کر رکھا تھا کہ وہ اپنی جائیداد کے گوشوارے، بانڈز اور قیمتی کاغذ جرابوں اور انڈر ویئر میں ہر وقت چھپائے پھرتے تھے۔ اس کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی مگر جتنا موٹی اور ایک ہی پینٹ وہ پہنتے تھے کسی بھلے آدمی کو بھی اس بات کے سچا ہونے میں ایک بار شک ضرور گزرتا تھا۔

کروڑوں کے پلاٹ بنانے اور جائیدادیں بنانے کے باوجود بھٹی صاحب کے پاس چند ہی کپڑے اور جوتے تھے۔ ان کے ماتحتوں نے ایک بار سوچا بھی کہ ان کو ان کی ریٹائرمنٹ پر اچھے کپڑے تحفہ دیے جائیں مگر یہ خیال زیادہ پسند اس لیے نہیں کیا گیا کہ اچھے کپڑوں کا اور بھٹی صاحب کا تال میل نہیں بنے گا اس لیے ان کو رسمی طریقے سے ہی رخصت کیا جائے۔ خواتین کولیگ کے بارے بھٹی صاحب کا اس قدر دوہرا معیار تھا کہ جب وہ سامنے آ جاتیں تو بیٹی بنا لیتے اور جب وہ اکیلے اپنے مرد کولیگز میں بیٹھے ہوتے تو ان کے وجود تک کو تسلیم کرنے میں راضی نہ تھے۔ ان کی یہ نفسیات شاید ان کی ناخوشگوار ازدواجی زندگی کی وجہ سے بن گئی تھی جس کا زیادہ ذکر کرنا مناسب نہیں۔

بہرحال تالیوں کی گونج ایک بار پھر سنائی دی اور بھٹی صاحب تقریر مکمل کر کے واپس صوفے پر براجمان ہوئے اور لوگوں نے دعائیہ کلمات کے ساتھ انہیں رخصت کیا مگر یہ سب فرضی تھا کیونکہ لوگوں کو بھٹی صاحب کی ریٹائرمنٹ پر پیش کی گئی چائے بھی کڑوی محسوس ہو رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments