’مشرف نے ’لیجنڈ‘ بننے کا موقع گنوایا، مزید فیصلہ تاریخ کرے گی؟‘


مشرف
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اتوار کی صبح دبئی میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد مختلف سیاسی و سماجی شخصیات کی جانب سے تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور صدر عارف علوی نے ان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے جبکہ ان کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف کے دور میں بھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہنے والے چوہدری پرویز الہٰی نے بھی اظہار افسوس کیا ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ ’وہ اس موقع پر بیگم صہبا مشرف، بیٹے بلال مشرف اور بیٹی عائلہ مشرف کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستانی فوج اور ملک کے لیے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔‘

سنہ 1999 میں کارگل تنازعے کے بعد فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے پرویز مشرف اپنی حکومت کے خاتمے تک کئی تنازعات کی زد میں رہے، جن میں بزورِ بندوق نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ، آئین کی معطلی، سپریم کورٹ کے ججز کو قید میں رکھنا، کراچی میں 12 مئی کا سانحہ، لال مسجد آپریشن، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سمیت کئی دیگر واقعات شامل ہیں۔

لیکن پرویز مشرف کے حامی ان کے کئی اقدامات کی وجہ سے اُنھیں پسند بھی کرتے ہیں جن میں پاکستان میں پرائیوٹ الیکٹرانک میڈیا کا فروغ، انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی جانب قدم بڑھانا، اور فوجی ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر کانفرنسز میں طلبہ کے سخت سوالات پرغصہ کیے بغیر جواب دینا شامل ہیں۔

ان کی وفات کی خبر کے بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر ان کے دور حکمرانی کے دوران ملک کے معاشی استحکام سے لے کر دہشتگردی اور توانائی کے بحران تک تمام واقعات پر صارفین بحث کر رہے ہیں۔

جہاں کئی لوگ پرویز مشرف کو آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھتے ہیں تو کئی لوگ ان کے وہ اقدامات بھی گنوا رہے ہیں جو ان کے نزدیک مشرف سے پہلے ناپید تھے۔

محقق اور کالم نگار شمع جونیجو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مشرف اور ان کی سوچ میں 180 ڈگری کا تفاوت ہونے کے باوجود مشرف ہمیشہ انھیں پسند کرتے اور ان کی حمایت کرتے، جبکہ مشرف کے انٹرویوز ان کی تحقیق میں اہم کردار ادا کرتے۔‘

اُنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی وفات پر ان کے اہلخانہ سے دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’وہ سخت بیمار ہونے سے قبل ہمیشہ بات کرتے تھے اور پھر ان کا درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔‘

سماجی کارکن صباحت ذکریا نے ان کے دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مشرف دور میں جینے کی ان کی حقیقت اور بعد کے برسوں میں ان کے اقدامات کے بارے میں اُنھوں نے جو پڑھا اور سمجھا ہے، اس کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ پرویز مشرف کے حامیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اُن کے دور میں خواتین کے حقوق کی صورتحال بہتر ہوئی۔ خاص طور پر حدود قوانین میں ترمیم کے ذریعے خواتین کو مزید تحفظ فراہم کیا گیا۔

https://twitter.com/sabizak/status/1622132770595082241?cxt=HHwWgsC4naLK_IItAAAA

پرویز مشرف پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ذریعے ایوانوں میں بھاری اکثریت رکھتے تھے جس کے ذریعے اُنھوں نے خود کو باوردی صدر منتخب کروانے کے لیے سترہویں آئینی ترمیم بھی منظور کروائی۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قدر اختیارات کے باوجود وہ کیوں پاکستان کو ’ٹھیک‘ نہیں کر سکے۔

صحافی و اینکر پرسن کامران خان نے لکھا کہ ’جنرل پرویز مشرف کے پاس پاکستان کے مسائل حل کرنے کا بہترین طریقہ اور تقریباً مکمل اختیار تھا مگر اُنھوں نے ’لیجنڈ‘ بننے کا موقع گنوا دیا۔ مزید فیصلہ تاریخ کرے گی؟‘

صحافی سیرل المیڈا نے لکھا کہ آج کے زیادہ تر مسائل کی کڑیاں مشرف دور سے جا ملتی ہیں۔

جبکہ سابق وزیرِ اطلاعات اور پرویز مشرف کے ساتھی رہنے والے چوہدری فواد حسین نے کہا کہ’ وہ بہت بڑے انسان تھے، ان کے دوست چھوٹے ثابت ہوئے۔ سب سے پہلے پاکستان ان کی سوچ اور نظریہ تھا۔‘

اسی طرح صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ مشرف کو پاکستان کوامریکہ کی دہشتگردی کے خلاف بے فائدہ جنگ میں جھونکنے، عبوری آئینی حکمنامے (پی سی او) کے ذریعے عدلیہ تباہ کرنے، سویلین اداروں میں بڑی تعداد میں ریٹائرڈ فوجی بھرتی کرنے اور بلوچ رہنما اکبر بگٹی کو قتل کرنے کے لیے یاد رکھا جائے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما واسع جلیل نے لکھا کہ ’وہ شخص ہمارے درمیان نہیں رہا جس نے اس ملک کو مقامی حکومتوں کا ایک حیرت انگیز نظام دیا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔‘

واضح رہے کہ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں نیا بلدیاتی قانون متعارف کروایا گیا تھا جس کے تحت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو حکومت ملی اور مشرف کی اتحادی ہونے کے سبب زبردست حمایت بھی، مگر اس دور میں ہونے والا 12 مئی کا سانحہ اب بھی کئی ذہنوں میں تازہ ہے۔

پاکستان میں کیوبا کے سفیر زینیر کارو نے لکھا کہ وہ پرویز مشرف کی موت پر ان کے خاندان سے تعزیت کرتے ہیں۔

اُنھوں نے لکھا کہ مشرف نے سنہ 2005 میں کشمیر میں آنے والے زلزلے کے بعد ہر طرح کے دباؤ کا سامنا کر کے اور نظریاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر کیوبا سے مدد طلب کی۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنے ملک اور فیڈل کاسترو کے لیے مشرف کے مخلصانہ جذبات کے لیے ہمیشہ اُنھیں یاد رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments