وہ اقدامات جنھوں نے پرویز مشرف کے عروج کو زوال میں بدلا


مشرف
سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف خود ساختہ جلا وطنی اور طویل بیماری سے نبردآزما رہنے کے بعد آج دبئی میں وفات پاگئے ہیں۔ ان کی عمر لگ بھگ 79 برس تھی۔

اگر اُن کی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو اسے مجموعی طور پر دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی ان کا دورِ عروج اور منصب صدارت سے فراغت کے بعد شروع ہونے والا دورِ زوال جس کے دوران ان کی وفات ہوئی۔

یہ تحریر اُن کے دورِ زوال کا احاطہ کرتی ہے۔

سابق صدر پرویزمشرف کے زوال کا آغاز تو اُس وقت کے پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد اُن کی عدلیہ سے محاز آرائی کی شکل میں شروع ہوا، مگر بعد میں فوج اور امریکہ کی طرف سے اُن کی حمایت کا خاتمہ اور سیاسی میدان میں اُن کی تنہائی، اقتدار پر اُن کی گرفت بتدریج ختم ہونے کا سبب بنے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مشرف کا اقتدار سے نکلنا ہی اُن کے زوال کا عروج تھا، لیکن عملی طور پر پرویز مشرف کا زوال اُن کی سیاست میں دوبارہ آمد کی کوشش، آئین سے غداری کے مقدمے اور جلاوطنی سے بھی جڑا ہوا ہے۔

وہ شخص جس پر اقتدار کی دیوی آٹھ سال تک مہربان رہی اور جس کے آنکھ کے اشاروں سے بڑے بڑے فیصلے ہو جاتے تھے اس نے غداری کے مقدمے سے بچنے کے لیے جلاوطنی موذی مرض کا مقابلہ کرتے ہوئے گزاری۔

عدلیہ سے محاذ آرائی اور زوال کا آغاز

اکتوبر 1999 سے سال 2006 تک پرویز مشرف اپنے اقتدار اور شہرت کے مکمل عروج پر تھے۔ دہشتگردی کی جنگ میں مصروف امریکہ اُن کی پشت پر تھا، فوج پر اُن کی گرفت مضبوط تھی اور یہ وہ دور تھا جس میں بظاہر ملک میں کوئی پتہ بھی اُن کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تھا۔

مشہور ہے کہ دنیا بھر میں غیر جمہوری یا چور راستوں سے اقتدار میں آئے حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹی عین اُن کے اقتدار کے عروج میں ہی بندھتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کے افراد پر انحصار کرتے ہیں اور وہی اُن کو تباہی کے راستے پر دھکیلتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

پرویز مشرف کے اپنے منتخب کردہ وزیر اعظم شوکت عزیز کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دینے کا غصہ تھا، وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم منو بھیل کیس میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کا شکار تھے اور سب سے اہم بات یہ کہ مشرف کی آنکھیں اور کان یعنی خفیہ ادارے چیف جسٹس کے لاپتہ افراد کے بارے میں نوٹسز سے تنگ تھے۔

ایک ایک کر کے سب نے جنرل مشرف کی ذہن سازی میں کردار ادا کیا اور سال 2006 کے آخر میں افتخار محمد چوہدری کو ہٹانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ مگر ایک خفیہ ادارے نے رپورٹ دی کہ چیف جسٹس کو ہٹائے جانے کی صورت میں اس وقت اُن کے بعد سینیئر ترین جج جسٹس رانا بھگوان داس ایک اصول پرست جج ہیں اس لیے ان سے کسی قسم کے تعاون کی توقع نہ کی جائے۔

مارچ 2007 تک سپریم کورٹ کے کم از کم دو سینیئر ججز جسٹس جاوید اقبال اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف متوقع صدارتی ریفرنس کے بارے میں براہ راست و بلواسطہ طور پر اعتماد میں لے لیا گیا۔ جسٹس رانا بھگوان داس نے مارچ کے پہلے ہفتے میں انڈیا کا رختِ سفر باندھا تو راولپنڈی، اسلام آباد میں مشینری حرکت میں آ گئی۔

جسٹس بھگوان داس

نو مارچ 2007 کی صبح چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی ہاؤس راولپنڈی میں ملاقات کے لیے بلوایا گیا۔ ادھر افتخار چوہدری بھی اپنے اردگرد کی 'نقل و حرکت' کی وجہ سے چُکنا تھے۔ وہ سپریم کورٹ سے آرمی ہاؤس راولپنڈی نکلنے لگے تو جسٹس جاوید اقبال اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ان سے خصوصی ملاقات کی۔

افتخار چوہدری کا اس ملاقات سے شک مزید گہرا ہوا اور وہ متوقع صورتحال کے بارے میں سوچتے آرمی ہاؤس پہنچے ۔

آرمی ہاؤس راولپنڈی میں جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی، ڈی جی ملٹری انٹیلیجینس میجر جنرل اعجاز ندیم میاں، ڈی جی انٹیلیجینس بیورو بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے اپنے چیف آف سٹاف لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ حامد جاوید کے ہمراہ چیف جسٹس سے ملاقات کی۔

افتخار چوہدری کو اُن کے خلاف الزامات پڑھ کر سُنائے گئے اور مستعفی ہونے کا کہا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے استعفی دینے سے انکار کیا تو مشرف کمرے سے نکلے اور کراچی روانہ ہو گئے جہاں انھوں نے پاکستان نیوی کی ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی۔

پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں جنرل کیانی کے علاوہ اوپر درج سبھی افسران نے افتخار محمد چوہدری کو استعفیٰ دینے کے لیے ہر طرح کا دباؤ استعمال کیا، جس کا ذکر انھوں نے بعد میں سپریم کورٹ میں اپنے جمع کرائے گئے حلف نامے میں بھی کیا۔

افتخار چوہدری کو کم ازکم پانچ گھنٹوں تک آرمی ہاؤس سے نکلنے نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف ان کی برطرفی کی خبر میڈیا پر چلائی گئی اور ساتھ ہی قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر رانا بھگوان داس کے بعد سینیئر جج جسٹس جاوید اقبال نے حلف اٹھا لیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے فوری طور پر نہ صرف صدارتی ریفرنس کو قبول کر لیا بلکہ 13 مارچ کو افتخار محمد چوہدری کو کونسل کے سامنے پیش ہونے کا حکمنامہ بھی جاری کر دیا۔

اُدھر افتخار چوہدری پولیس اور سکیورٹی کے حصار میں آرمی ہاؤس سے نکالے گئے تو انھوں نے پہلے اپنے ڈرائیور کو سپریم کورٹ جانے کا کہا مگر سکیورٹی کے دباؤ میں انھیں سپریم کورٹ کی بجائے ان کے گھر پر لا کر نظربند کر دیا گیا۔

یہ مشرف سے عدلیہ کی لڑائی کا آغاز تھا۔

وکلا

اس واقعے کی خبر نے پورے ملک میں فوجی صدر کے خلاف ایک نفرت کی آگ لگا دی۔ ملک میں عدلیہ، سول سوسائٹی اور میڈیا سب ایک صفحے پر اکٹھے ہو گئے۔ سیاسی جماعتیں جو خود مشرف کے خلاف کوئی قابل ذکر مزاحمت پیدا نہ کر سکی تھیں، سب معزول چیف جسٹس کے جلسوں میں اکٹھی ہونا شروع ہو گئیں۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی سیاست اور لال مسجد آپریشن نے مذہبی طبقات کی اکثریت کو بھی چیف جسٹس بحالی تحریک میں شمولیت پر مجبور کر دیا تھا۔ صدارتی ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی جہاں عدلیہ نے معزول چیف جسٹس کو بحال کر دیا۔

پرویز مشرف اور فوج

پرویز مشرف ایک آزاد خیال اور لبرل جنرل تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ کارگل جنگ چھیڑنے کا الزام بھی انھی پر عائد ہوتا تھا مگر سارک سربراہ کانفرنس میں مشرف نے ہی خود آگے بڑھ کر اس وقت کے انڈین وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ہاتھ ملایا اور انھیں مذاکرات کی دعوت بھی دی۔

ان کا ابتدائی دورۂ انڈیا تو کامیاب نہ رہا مگر بیک ڈور چینلز کی کامیابی کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان جامع مذاکراتی عمل شروع ہو گیا تھا۔ انھی دنوں میں پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے ’آؤٹ آف دی باکس سلوشن‘ کا بیان بھی دیا جو چند حلقوں کو ناگوار گزرا۔

ظاہر ہے کہ فوج کی نظر میں مسئلہ کشمیر ایک انتہائی اہم اور حساس موضوع ہے جس پر فوج کی بحثیت ادارہ اپنی ایک رائے ہے۔

مشرف

گو کہ مشرف فوج کے افسران اور کور کمانڈرز کو ساتھ لے کر چلتے رہے مگر کشمیر کے حوالے سے فوجی افسران کی ایک اپنی رائے تھی۔ مشرف کا بیان فوج کے اندر اچھِی نظر سے نہیں دیکھا گیا تھا تاہم فوج نے بحثیت ادارہ مشرف کا ساتھ اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک مشرف عدلیہ سے لڑائی کے بعد اپنے ہی ادارے کے لیے بوجھ نہیں بنے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کے بعد انھیں 13 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہونے کا کہا گیا تو اس روز وہ پیدل ہی اپنی گھر سے سپریم کورٹ روانہ ہوئے۔ راستے میں ان کے بال کھینچنے کی خبر نے سپریم کورٹ کے باہر منتظر وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے بھڑکتے جذبات کو مزید ابھارا۔

عین اسی وقت شاہراہ دستور سے ایک ٹرک پر کچھ جوان سیکریٹریٹ سے فارن آفس کی طرف جا رہے تھے کہ بپھرے ہوئے وکلا نے ٹرک روک کر سکیورٹی اداروں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ ظاہر ہے اسے پسند نہیں کیا گیا۔

آنے والے دنوں میں وکلا کا پرویز مشرف کے اقتدار کے بارے میں احتجاج بڑھا تو ایک حکمنامے کے ذریعے فوجی افسران کو وردی پہن کر عوامی مقامات پر آنے سے گریز برتنے کی ہدایت کر دی گئی۔

یہ سب کچھ فوج جیسے ادارے کے اندر ایک نئی سوچ کو جنم دے رہا تھا۔ مشرف کی اصل طاقت ان کے ادارے فوج میں تھی اور وہ اپنی سیاسی طاقت کے ہاتھوں اپنے ادارے کی حمایت تیزی سے کھو رہے تھے۔

مشرف کو اس بات کا مکمل احساس تھا اسی لیے اب وہ ہر اہم فیصلے سے قبل شام کو آرمی ہاؤس راولپنڈی یا ایوان صدر میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید، ڈی جی آئی ایس آئی اشفاق پرویز کیانی، ڈی جی ایم آئی ندیم اعجاز میاں، چیف آف سٹاف لیفٹینینٹ جنرل حامد جاوید، ڈی جی آئی بی بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور دو سویلینز یعنی اپنے پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد وغیرہ سے ملاقاتیں اور مشورے کرتے۔ اس مختصر گروپ میں عمومی طور پر یہی افراد ہوتے۔

افتخار چوہدری

بتایا جاتا ہے کہ جنرل مشرف کے لیے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سمیت متعدد افراد الگ الگ معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری سے صلح کے مذاکرات کر رہے تھے۔ ایک موقع پر ڈاکٹر عشرت العباد کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ اس سلسلے میں گورنر سندھ کی طرف سے پرویز مشرف اور افتخار چوہدری کے ایک ساتھ چلنے کی جزئیات بھی کافی حد تک طے کر لی گئی تھیں مگر جب یہ معاملہ پرویز مشرف کے قریبی گروپ (جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا) میں پیش کیا گیا تو وہاں اسے ویٹو کر دیا گیا۔ فوج میں کوئی کچھ بول نہیں رہا تھا مگر وہ سب کیا جا رہا تھا جو ادارے کے بہترین مفاد میں تھا۔

سال 2017 میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے دبئی میں میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی معاملات کافی حد تک حل ہونے کے قریب آنے کی تصدیق کی تھی۔ ایک طرف حکومت چیف جسٹس سے مذاکرات کر رہی تھی تو دوسری طرف افتخار محمد چوہدری مختلف بار ایسوسی ایشنز میں تقاریر کر رہے تھے۔

12 مئی کو کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ایک ایسے ہی دورہ کے موقع پر 65 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ معزول چیف جسٹس کو اُن کے ساتھیوں سمیت صوبہ بدر کر دیا گیا جب کراچی کی سڑکوں پر لاشیں گر رہی تھیں پرویز مشرف اسلام آباد کے ڈی چوک پر حکمران جماعت مسلم لیگ ق اور اتحادی جماعتوں کے جلسے میں مکے ہلا رہے تھے۔ اس عمل نے بھی مجموعی طور پر ملک میں جنرل مشرف کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا۔

تین نومبر کی ایمرجنسی اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی

مشرف

جوں جوں وقت گزر رہا تھا پرویز مشرف کے لیے حالات ناسازگار ہو رہے تھے۔ ایسے ہی حالات میں انھوں نے تین نومبر کو ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کر کے بحال کیے گئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ناپسندیدہ ججز کو گھر بھیج دیا۔

اس بار جسٹس رانا بھگوان داس نے نئے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لے لیا۔ اسی ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے کو بعدازاں مسلم لیگ ن کی حکومت نے مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی طور پر استعمال کیا۔

ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ملک میں میڈیا بھی پابندیوں کی زد میں آ گیا۔ ٹی وی چینلز کو بند کر دیا گیا تاہم ان اقدامات سے پرویز مشرف کے خلاف عوامی رائے عامہ مزید خراب ہو گئی۔ مشرف اپنے مستقبل کے بارے میں شدید دباؤ میں تھے اور اسی دباؤ کو استعمال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی قیادت نے امریکہ کے ذریعے مذاکرات کے دوران پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کیا۔

پرویز مشرف نے 27 نومبر 2007 کو اپنی فوجی وردی اتاری اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف مقرر کیا۔ کیانی نے کمان سنبھالتے ہی فوج کے ادارے کو مشرف کے سائے سے بچانے کی کوششوں کا آغاز کیا تو پہلے تین ماہ بعد ہی یعنی جنوری 2008 میں کیانی اور مشرف کے درمیان دوریاں اتنی بڑھ گئیں کہ بات چیت بھی ختم ہوگئی۔

دراصل مشرف فوج سے مدد کے خواہاں تھے جس پر کیانی معاملہ کور کمانڈرز کانفرنس میں لے گئے۔ جہاں تمام کور کمانڈرز نے متفقہ طور پر مشرف سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا۔ کمانڈرز کا خیال تھا کہ ان کا دل بھی چاہے تو بھی وہ ادارے کو بدنامی سے بچانے کے لیے اُن کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

اسی دوران جنرل کیانی کے پاس مشرف کی طرف سے انھیں برطرف کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں لیکن مشرف کو بتا دیا گیا کہ اس وقت وہ نہیں بلکہ کیانی فوج کےکمانڈر ہیں جنھیں آسانی سے نہیں ہٹایا جا سکتا اور نہ ہی اُن کی حمایت کے بغیر اس وقت کی پیپلز پارٹی کی نئی حکومت کے خلاف کاروائی کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سابق فوجی صدر پرویز مشرف: تین نومبر، ملک میں ایمرجنسی اور کھینچا تانی

12 اکتوبر: جنرل مشرف کا کراچی ایئر پورٹ پر لینڈنگ سے عزیز ہم وطنو تک کا سفر

جب سابق صدر نے جنرل پرویز مشرف کے سلیوٹ کا جواب نہیں دیا

کارگل جنگ: جب انڈین انٹیلیجنس نے جنرل مشرف کا فون ٹیپ کیا

پرویز مشرف اور امریکہ

مشرف

فوج کے بعد مشرف کا سب سے زیادہ انحصار امریکہ پر تھا۔ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے لیے خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ مشرف نے اپنی کتاب اِن دی لائن آف فائر میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی افراد کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کرنے جیسے امور کا بھی کھل کر اعتراف کر رکھا ہے۔

اس تناظر میں مشرف اعلیٰ امریکی حکام سے مکمل رابطے میں رہتے تھے تاہم سال 2005 سے امریکہ کی طرف سے اُن کی حکومت پر ڈبل گیم کھیلنے کے الزامات بھی عائد ہونا شروع ہو چکے تھے۔ شاید امریکہ کو ان پر مکمل اعتماد تھا مگر پاکستان فوج کو امریکہ ایک مشکوک اتحادی کے طور پر ہی دیکھتا تھا۔

افتخار چوہدری کی معزولی کے بعد ملک میں اُن کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو ابتدا میں مشرف نے اپنے خلاف اٹھتی تحریک کو روکنے کے لیے نو اگست 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس سے 24 گھنٹے قبل اس وقت پاکستان میں تعینات امریکہ کی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے واشنگٹن میں رات ایک بجے سوئی ہوئی امریکہ کی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کو اٹھا کر پاکستان میں پیدا ہوتی صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ جس پر کونڈا لیزا رائس نے فون کر کے مشرف کو ایمرجنسی کے نفاذ سے روکا، تاہم اس کے باوجود امریکہ نے مشرف کا ساتھ نہ چھوڑا۔

اکتوبر 2007 میں امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے مشرف کو بچانے کے لیے بینظیر بھٹو یعنی پیپلز پارٹی اور مشرف میں ڈیل کروائی۔ طے یہ کیا گیا کہ مشرف وردی اتاریں گے جبکہ آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر قائم مقدمات بھی ختم کیے جائیں گے۔ بینظیر بھٹو کو مشرف کی نیت پر شک تھا جس کا اظہار کونڈا لیزا رائس نے اپنی کتاب نو ہائیر اونر میں بھی کیا ہے۔

پرویز مشرف اسی خفیہ انڈرسٹینڈنگ کے تحت چھ اکتوبر 2007 کو دوبارہ صدر منتخب ہو گئے۔ پیپلز پارٹی نے صدارتی الیکشن میں پارلیمینٹ سے استعفیٰ دینے کی بجائے ووٹ دینے سے گریز کیا، اس طرح مشرف کے انتخابی عمل کو ایک جائز بنیاد فراہم کر دی گئی۔ دراصل مشرف کا بطور صدر دوبارہ منتخب ہونے میں بالواسطہ طور پر اس ڈیل کا بھی کردار تھا جو امریکہ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کروائی تھی۔

بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو پاکستان واپس آئیں تو ان کی استقبالیہ ریلی پر ہونے والے خود کش دھماکے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد بینظیر بھٹو نے کونڈا لیزا رائس کو فون کر کے بتا دیا کہ ان کی طرف سے ڈیل ختم ہے۔ بے نظیر کو شک تھا کہ کراچی میں اُن پر حملہ دراصل مشرف کی ہی کارروائی ہے۔

27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کے قتل نے پرویز مشرف کے اقتدار کو مزید مشکل بنا دیا۔ امریکہ بھی جان چکا تھا کہ مشرف اب اپنے ہی ادارے میں حمایت کھو چکے ہیں لہذا آخری موقع پر امریکہ بھی مشرف کی مدد کو نہ آ سکا۔

عام انتخابات اور مشرف کی اقتدار سے باضابطہ رخصتی

مشرف

بینظیر بھٹو کی وفات کے بعد 18 فروری 2008 کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں پیپلز پارٹی نے اکثریتی نشستیں حاصل کیں مگر اس نے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت قائم کی۔

پرویز مشرف کی پہلی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق، ان سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ڈیل کی مبینہ خبروں سے پہلے ہی نالاں تھی۔ عام انتخابات میں اسے شکست ہوئی تو اس جماعت کے بعض رہنما بھی پرویز مشرف کے خلاف کُھل کر میدان میں آ گئے ۔

مشرف سخت مشکل کا شکار ہو چکے تھے۔ آئے دن مختلف سمتوں سے ان پر وار کیے جا رہے تھے مگر کوئی بچانے والا نہ تھا اور اسی تناظر میں آٹھ اگست 2008 کو سابق وزیر اعظم اور اس وقت مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ملاقات کی اور پرویز مشرف کو ہٹانے کا اعلان کیا۔ یعنی اگر مشرف استعفیٰ دے دیں تو ٹھیک ورنہ اُن کے مواخذے کا اشارہ کر دیا گیا۔

13 اگست کو پرویز مشرف سے پنجاب اسمبلی سے قرارداد کے ذریعے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کیا گیا، بعدازاں سندھ اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کی اسمبلیوں نے بھی ایسی ہی قراردادیں منظور کیں تاکہ اُن پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

دوسری طرف جنرل کیانی نے 10 اگست کو سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر سے آرمی ہاؤس میں ملاقات کی جس میں پرویز مشرف کی رخصتی کے بارے میں قانونی امور طے کیے گئے۔

فوج کی طرف سے ہی نہیں پرویز مشرف کے قریبی دوستوں نے بھی انھیں استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا۔ اُن کے بااعتماد دوستوں میں سے ایک بریگیڈیئر ریٹائرڈ نیاز بھی تھے، یہ مشرف سے بڑے تھے مگر وہ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ نیاز سے ان دنوں میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے دوست کو مستعفی ہونے کا مشورہ دے چکے ہیں اور وہ بہت جلد استعفیٰ دے دیں گے۔

18 اگست کو پرویز مشرف نے دن تقریباً دو بجے ایک طویل خطاب کے اختتامی حصے میں اپنے استعفے کا اعلان کیا اور گارڈ آف آنر لے کر ایوان صدر سے رخصت ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔

پرویز مشرف اقتدار سے رخصت ہوئے تو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے کی بجائے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنا لی۔ 2013 میں انتخابات میں حصہ لینا چاہا مگر نااہل ہوئے، بعد میں ججز گرفتاری کیس اور بے نظیر بھٹو کیس میں گرفتار ہوئِے۔

تین نومبر کی ایمرجنسی کے باعث مسلم لیگ ن کی طرف سے غداری کا مقدمہ بنا تو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام کی مدد سے عدالت پیشی کی بجائے راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج رہے اور بعدازاں بیرون ملک چلے گئے۔

پرویز مشرف کی زندگی کا قریبی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اقتدار میں آ کر بعض ایسے اقدامات کیے جنھیں مقامی سطح پر پسند نہ کیا گیا۔ عالمی سطح پر انھیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ڈبل گیم کے الزام کا سامنا رہا۔

پاکستان میں انھوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے مسلم لیگ ق کی حکومت قائم کی جو وقت پڑنے پر مٹی کا گھروندا ثابت ہوئی۔ عدلیہ سے جنگ اُن کی شکست کا اہم جزو تھا مگر عوامی طور پر اُن کے اقتدار سے نفرت اور مذہبی طبقات کی طرف سے اُن کے روشن خیال اعتدال پسندی جیسے نظریات کو مسترد کرنا سب نے ان کی اقتدار کی رخصتی اور فوج سے اُن کے تعلق کو توڑنے میں مدد دی۔

یہ سب وجوہات ہی اُن کے زوال کی اصل وجہ ثابت ہوئیں۔ جس طرح انھوں نے 2006 تک اقتدار کے بھرپور مزے لوٹے بالکل اسی طرح وہ آخر تک بدترین زوال کا شکار بھی رہے لیکن کبھِی اپنی زبان سے شکست تسلیم نہ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments