پرویز مشرف اور ان کے جھنڈے کی حمایت میں


آپ کل سے سوشل میڈیا پر سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کی موت کے بعد ان کے خلاف بلا وجہ کی مہم دیکھ رہے ہیں۔ ان کے حامی بھی بہت ہیں اور مخالف بھی۔ خود میں اب سے کچھ دیر پہلے تک ان کا شدید مخالف تھا اور ایک آئین شکن کو پاکستان میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیے جانے کے حق میں نہیں تھا۔ پھر مجھے ایک بھلے مانس نے سمجھایا کہ میں مشرف صاحب کی مخالفت ترک کر دوں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ میں جو بھلے مانسوں اور بن مانسوں میں کوئی خاص فرق محسوس نہ کرتا تھا فوری طور پر مشرف کی مخالفت ترک کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ سو مجھے اب اس پر کوئی اعتراض ہی نہیں کہ انہیں جھنڈے میں لپیٹ کر کیوں دفن کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دوست لیاقت علی ایڈووکیٹ نے ایک جملے میں بات ہی ختم کر دی کہ جن کا جھنڈا ہے یہ فیصلہ بھی انہوں نے کرنا ہے کہ اس میں کسے لپیٹنا ہے اور کسے نہیں۔

سو پیارے دوستو کیا ہم جھنڈے کے مامے لگتے ہیں جو اس میں لپیٹا لپاٹی والے امور میں مداخلت کریں۔ ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ ہمیں اس سبز ہلالی پرچم سے محبت ہے سو ہم اس کی توہین پر معترض ضرور ہیں۔

مشرف صاحب اب چونکہ اس جہان میں نہیں رہے اس لیے اچھے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اب ان کے معاملات خدا کے سپرد کر دیے جائیں۔ جیسے ہم نے یزید اور فرعون کے معاملات مالک دو جہان کے سپرد کر رکھے ہیں اور جیسے ہم نے مولانا سمیع الحق عرف مولانا سینڈ وچ کی عبرت ناک موت پر خاموشی اختیار کی تھی اور مولانا کے حوالے سے میڈم طاہرہ والی کہانی کو بھی گول کر گئے تھے۔ سو ہم پرویز مشرف کی موت پر بھی خاموش ہیں۔ ویسے بھی وہ اس جہان میں ہی اتنی اذیت ناک بیماری کا شکار رہے کہ خوش عقیدہ مسلمانوں کے خیال میں ان کی لغزشوں کا یہیں حساب ہو گیا۔

میں تو خیر ان کی لیڈر شپ ہی نہیں سید شپ کا بھی قائل ہوں۔ سیدوں کا تو ہم گناہ گار ویسے بھی احترام کرتے ہیں۔ اس کی طرف کنڈ کر کے بھی نہیں گزرتے۔ سید ہونے کے علاوہ مشرف صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اردو بولتے تھے۔ ان کے دور میں اگرچہ بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کو بھی قتل کیا گیا تھا اور کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان میں بے چینی پیدا ہوئی احساس محرومی پیدا ہوا لیکن جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں میری دانست میں ان کی سمجھ دانیوں میں کوئی خلل ہے ( جسے خلل ہے دماغ کا بھی کہا جاتا ہے ) ۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم خود پنجابی ہونے کے باوجود اردو بولتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اردو بولنے والے سے بڑھ کر محب وطن بھلا اور کون ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی مشرف صاحب نے صرف آئین ہی توڑا تھا یحییٰ خان کی طرح ملک تو نہیں ‌توڑا تھا۔ ہم نے تو ہتھیار ڈالنے والے امیر عبداللہ نیازی کو بھی پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا تھا۔

ویسے بھی یہاں ”اصل حکمران“ ہمیشہ اعزاز کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔ آئین بنانے اور آئین توڑنے والوں کے جنازوں کا تقابل ہی پاکستان کا اصل چہرہ ہمارے سامنے لے آتا ہے۔ آئین شکن ضیاء کے جنازے کی شان و شوکت کسے یاد نہیں اور دوسری جانب آئین ساز بھٹو کے جنازے کی کسمپرسی اس تصویر سے واضح ہوتی ہے جو جنرل چشتی کی کتاب میں موجود ہے۔ چند لوگ جنازے میں شریک اور میت کے لیے چارپائی بھی عجلت میں ایسی ملی کہ ٹانگیں باہر نظر آتی تھیں۔ اور یہی فرق بتاتا ہے کہ یہاں آئین سازی کے مقابلے میں آئین شکنی مستحسن سمجھی جاتی ہے۔

رہا یہ مطالبہ کہ مشرف کی لاش کو تین روز تک ڈی چوک میں لٹکانے والے فیصلے پر کون عمل کرائے گا؟ کس نے عمل کرانا ہے جناب۔ سید بادشاہ کے بارے فیصلہ دینے والے جسٹس وقار سیٹھ کا انجام سب کو معلوم ہے۔ ایسے لوگوں کو پاکستان میں کرونا میں مبتلا کرا دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اب کرونا ختم ہو چکا ہے لیکن ڈکٹیٹر کو شایان شان طریقے سے دفن نہ کیا گیا تو کرونا دوبارہ پھیل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments