کتنی دور، کتنے پاس


بالی وڈ کی ایک پرانی فلم کا نام ہے۔ فلم تو ہم نے نہیں دیکھی مگر اس کے نام کی تفسیر اور تشریح صحیح معنوں میں ہمیں کشمیر میں حد متارکہ جنگ یا لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ موجود علاقوں میں میں دکھائی دیتی ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال جنت نظیر کشمیر کی غیر قدرتی تقسیم کی علامت یہ لائن آف کنٹرول، بیشتر مقامات پر دریا، یا برساتی نالے کی شکل میں موجود ہے۔ وادی نیلم کے بیشتر حصے میں دریائے کشن گنگا (یا دریائے نیلم) حد متارکہ جنگ کا کام کرتا ہے۔

مظفرآباد سے کوئی 38 کلومیٹر دور اٹھ مقام روڈ پر ٹیٹوال گاؤں سے لے کر سیماری تک، پھر ضلع نیلم کے صدر مقام اٹھ مقام سے لے کر لوات گاؤں تک دریائے نیلم ہی کشمیر کو دو حصوں میں جدا کرتا ہے۔ دریا کے اس پار پاکستان کا کنٹرول ہے جب کہ اس پار ہندوستان کا راج۔ رہے ان علاقوں میں بسنے والے بیچارے کشمیری، تو ہم ان بڑے ہاتھیوں کئی لڑائی میں چیونٹیوں کی طرح مسلے جاتے رہے ہیں۔

یہ انسانی تاریخ کا دردناک ترین المیہ ہے کہ ان علاقوں میں حد متارکہ جنگ کے دونوں اطراف میں بسنے والے یہ کشمیری زیادہ تر آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ مگر ان کے بیچ کنٹرول لائن نام خونی لکیر کھینچ دی گئی ہے۔ ظلم و ستم کی انتہا ہے کہ ایک بھائی جس کا گھر دریا کے اس طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں واقع ہے، وہ دریا کے اس پار ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والے اپنے سگے بھائی سے ملنے کو ترستا ہے۔

وہ ایک دوسرے کو دیکھ تو سکتے ہیں مگر اس خونی لکیر جسے لائن آف کنٹرول کہتے ہیں کو پار کر کے ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہو سکتے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھتے ہوئے اور فقط ایک کوہستانی دریا کی چوڑائی جتنے فاصلے کے باوجود ان کا آپس میں ملنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔ جو فاصلہ عام حالات میں فقط پانچ منٹ پیدل چلنے کی مسافت پر ہے، اسے طے کرنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کشمیریوں کے لئے حد متارکہ جنگ کے اس پار بسنے والے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کا مرحلہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہے۔ آر پار سفر کرنے کا اجازت نامہ ملنے میں کوئی چھے ماہ درکار ہوتے ہیں۔ اجازت نامہ ملنے کا انحصار بھی دونوں ممالک کے خفیہ اداروں سے کلیئرنس ملنے پر ہوتا ہے۔ اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ ہر درخواست دہندہ کو اجازت نامہ مل ہی جائے گا۔ لائن آف کنٹرول کے آر پار بسنے والے لوگوں کے اس دکھ کے حوالے سے جناب نثار ہمدانی نے کیا خوب کہا تھا۔

نہیں ہے رابطہ کوئی مگر پھر بھی تعلق ہے
جو ہیں اس پار، وہ تو جانتے ہیں درمیاں کی بات
نہ جانے ایک سا ہی درد کیوں اٹھتا ہے سینے میں
قفس کی ہو کہیں پر بات، یا ہو آشیاں کی بات

اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ اور بظاہر مہذب ترین دور میں بھی ہم کشمیریوں کی یہ محرومیاں انسانی اعلی اقدار کا پرچار کرنے والی تمام اقوام عالم کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہیں۔ کیوں ان دو ممالک کی آپسی سیاست کا شکار، ایک کشمیری بھائی اپنے ماں جائے سے کنٹرول لائن کے اس پار بلا روک ٹوک نہیں مل سکتا؟ کیوں ایک ماں دہائیوں سے بچھڑے اپنے بیٹے یا بیٹی کی شکل دیکھنے کو اب تک ترستی ہے؟ کیوں ہم اپنے کزنز اور دوسرے رشتہ داروں سے اپنی خوشیاں اور غم نہیں بانٹ سکتے؟

یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہم کشمیریوں کے اذہان میں ہر وقت مچلتے رہتے ہیں، مگر جن کے پاس اس مسئلے کا حل ہے، ان کی روزی روٹی اس مسئلے کے لاینحل رہنے کے ساتھ ہی جڑی ہے۔ کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔ خدا سے بھی بس یہی کہہ سکتے ہیں، مبارک علی شاہ کے شعر میں تھوڑی سی ترمیم کر کے :

جلتے ہیں کس عذاب میں باسی بہشت کے
تھوڑا سا آسمان کا کونا ہٹا کے دیکھ

کشمیر کا سیاسی منظرنامہ کچھ بھی ہو، کشمیریوں کے ان مسائل کا کوئی قابل عمل حل نکالنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نہ تو نام نہاد حکومت آزاد جموں و کشمیر سے، اور نہ ہی حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے۔ پاکستان کو کشمیر سے تو شاید کوئی دلچسپی ہو، کشمیریوں سے یا ان کے حق خد ارادیت سے ہر گز نہیں۔ کہنے کو تو پاکستان مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتا ہے، اور ہر سال پانچ فروری کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے ہوم یک جہتی کشمیر مناتا ہے۔

مگر اصل صورت حال یہ ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد میں سب سے بڑی رکاوٹ خود حکومت پاکستان ہی رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ کشمیری اگر الحاق پاکستان کے حامی رہیں تو ٹھیک، ورنہ باقی ہر صورت میں کشمیری غدار، ابن غدار۔ پاکستانی ریاست میں حکومتی سطح پر غدار مینوفیکچرنگ فیکٹری عرصہ دراز سے کام کر رہی ہے۔ اور حکومت مخالفوں کو ”غداری“ کی خلعت پہنا کر ملک میں نفرت، اور عدم برداشت کی فضا کو بہت پروان چڑھا چکی ہے۔ سو جب بھی کوئی کشمیری پاکستان کی کشمیریوں کے حوالے سے غلط پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتا ہے تو اسے بھی یہ غداری والی خلعت عنایت کر دی جاتی ہے۔

پتہ نہیں حکومت پاکستان کسے بے وقوف بنانا چاہتی ہے؟ اپنے ہی عوام کو، دنیا کو، یا کشمیریوں کو۔ مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ریاستی جھوٹ اور جبر چھپانا آسان نہیں رہا، کشمیریوں کی نئی نسل پاکستان کے اس دوغلے کردار سے اچھی طرح وقت ہو چکی ہے اور اس وجہ سے پاکستان سے شدید بد ظن بھی ہوتی جا رہی ہے۔

ایک پاکستان پر ہی کیا موقوف، خود آدھے سے بھی آدھے اور اس کے بھی ایک چوتھائی آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان کی طفیلی ریاست آزاد جموں کشمیر کا عبوری آئین بھی کسی شخص یا سیاسی جماعت کو الحاق پاکستان سے ہٹ کر سوچنے اور عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ریاست کے ممبران اسمبلی، وزرا، اور وزیر اعظم کے لئے یہ حلف اٹھانا لازم ہے کہ وہ الحاق پاکستان کی مخالفت نہیں کریں گے۔ کشمیریوں کا حق خود ارادیت، اور پاکستانیوں کی کشمیریوں سے یک جہتی گئی تیل لینے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ پاکستانی فوج کی ایما اور مدد سے قبائلیوں کی لشکر کشی ہو یا، آپریشن جبرالٹر، کارگل آپریشن ہو یا انڈین مقبوضہ کشمیر میں گوریلا کارروائیوں کی پشت پناہی۔ ان سب کے منفی نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔

کشمیریوں سے پاکستان کی ہم دردی اور عملی قدم فقط سرینا چوک میں ایک ڈیجیٹل کرفیو کاؤنٹر نصب کرنے کی حد تک ہے۔ کشمیر سے کرفیو تو جانے کب کا اٹھ چکا، مگر ہمارا کرفیو کاؤنٹر آج بھی ایک ایک سیکنڈ گن رہا ہے اور اب تک ایک ہزار سے زیادہ دن گن چکا ہے

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments