ایف 9 پارک ریپ کیس: ’ہم اب بھی اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کیسے متاثرہ خاتون کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے‘


F-9 Park
ریپ کا واقعہ اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں پیش آیا

چند روز قبل وفاقی دارالحکومت کے علاقے ایف نائن پارک میں ہونے والے ’گینگ ریپ‘ کے واقعے میں پولیس ابھی تک ملزمان کا سراغ لگانے میں تو کامیاب نہیں ہوئی البتہ متاثرہ لڑکی کے بیان کی روشنی میں ایک ملزم کا خاکہ تیار کر لیا گیا ہے۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ پولیس کو اس واقعے سے متعلق متاثرہ لڑکی کی عبوری میڈیکل رپورٹ موصول ہو گئی ہے جس سے ریپ ثابت ہوتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس ملزمان کی شناخت اور گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی تک کوئی خاطر خوا پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ دو فروری کو شام آٹھ بجے اپنے ایک دفتری ساتھی کے ساتھ ایف نائن پارک میں تھیں جہاں انھیں دو افراد نے گن پوائنٹ پر روکا اور جنگل کی طرف لے گئے جہاں ان کو ان کے دفتر ساتھی سے علیحدہ کر دیا گیا۔

پیر کو اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش سائنسی بنیادوں پر کی جارہی ہے۔ تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شام کے اوقات میں پارک میں آنے والے افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ خود کو روشنی والے مقامات تک محدود رکھیں۔

ہمدردی کی جگہ تنقید

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ متاثرہ خاتون رات کے وقت ایف نائن پارک میں کیوں گئی تھیں۔

ایک صارف تحریم نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ جب انھوں نے اس واقعے سے متعلق لکھا تو کیسے مرد حضرات اس واقعے کے بارے میں ان کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھ رہے ہیں کہ ’عورتوں کو اکیلے باہر نہیں نکلنا چاہیے‘۔

ایک اور صارف مینا جبین نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن صبح کے وقت ایف نائن پارک میں تھیں کہ ایک پولیس اہلکار، جس نے انسداد دہشت گردی سکواڈ کی وردی پہنی ہوئی تھی، ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ وہ ایف نائن پارک میں اس وقت اکیلی کیا کر رہی ہیں کیونکہ اس پارک میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے پولیس اہلکار کو جواب دیا کہ پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کی بجائے ان مردوں کو روکیں جو جرم سرزد کرتے ہیں کیونکہ خواتین پارک میں اسی مقاصد کے لیے آتی ہیں جن مقاصد کے لیے یہ پارک بنائے گئے ہیں۔

ایک اور صارف فروا نقوی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر تجویز دی ہے کہ ’ایف نائن پارک کو صرف خواتین اور فیملیز کے لیے مخصوص کردینا چاہیے اور اس میں خواتین کے بغیر مردوں کے داخلے پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔‘

اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس پارک میں پولیس پیٹرولنگ کی سخت ضرورت ہے اور اگر کوئی آدمی اکیلا اس پارک میں داخل ہو تو اس کی تمام تفصیلات متعقلہ محکموں کے پاس رجسٹرڈ ہونی چاہییں۔

صارف مہوش نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ایف نائن میں ڈیوٹی پر تعینات کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی سی ڈی اے کے سکیورٹی گارڈ کو یونیفارم پہننا چاہیے اور ان کے نام اور ان کے محکمانہ کارڈ نمایاں طور پر نظر آنے چاہییں۔

عریج نے لکھا ہے کہ ’ایف نائن پارک والا واقعہ اندوہناک ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ کچھ مردوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ غروب آفتاب کے بعد عورتوں کا پارکوں میں داخلہ بند کر دیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک خاتون کو اسلحے کی نوک پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا لیکن ہم اب بھی اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کیسے متاثرہ خاتون کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔‘

کچھ عرصہ قبل ایف نائن پارک میں ریپ کے ایک واقعے میں وہاں پر تعینات سی ڈی اے کے سکیورٹی گارڈ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم سی ڈی اے حکام کے بقول عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر سی ڈی اے اہلکار کو بری کردیا تھا۔

سکیورٹی کمیروں کی تنصیب

سی ڈی اے کے ڈائریکٹر پارکس عرفان نیازی کا کہنا تھا کہ ایف نائن پارک کے کھلنے اور بند ہونے کا وقت تو نہیں دیا گیا البتہ سردیوں میں رات نو بجے جبکہ گرمیوں میں رات دس بجے پارک میں داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایف نائن پارک میں سکیورٹی گارڈ تین شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور ایک شفٹ میں درجن سے زیادہ سکیورٹی گارڈ اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ صبح کے اوقات میں سکیورٹی گارڈ کے علاوہ مالی بھی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں جبکہ رات کے وقت سکیورٹی گارڈ کے علاوہ اور سی ڈی اے کا کوئی اہلکار پارک کے اندر ڈیوٹی پر نہیں ہوتا۔

عرفان نیازی کا کہنا تھا کہ ایف نائن پارک ساڑھے سات سو ایکٹر پر محیط ہے جبکہ اس کا صرف 240 ایکڑ رقبہ ڈویلپ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ لائٹس صرف انھی علاقوں میں لگائی گئی ہیں جہاں پر جاگنگ ٹریکس بنے ہوئے ہیں اور ڈویلپ ہو چکے ہیں جبکہ جنگل اور ویران جگہوں پر لائٹس نہیں لگائی گئیں۔

ڈائریکٹر پارکس کا کہنا تھا کہ سکیورٹی گارڈز مرکزی دروازے کے علاوہ جاگنگ ٹریکس پر تعینات ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایف نائن پارک میں ہونے والے اس واقعے کے بعد ایف نائن پارک میں سات سو سے زیادہ سکیورٹی کیمرے لگائے جارہے ہیں جنھیں سیف سٹی پروجیکٹ کے ساتھ لنک کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments