جب ہمارے ’گستاخانہ‘ خط کے جواب میں پرویز مشرف نے اپنی کتاب کا تحفہ بھیجا


پاکستان کی سیاسی و عسکری تاریخ کے سابق ’مرد آہن‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کی شخصیت، نظریات، سیاسی فیصلوں اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، البتہ ایسا کرنے کے لیے ایک تعصب سے پاک غیر جانب دارانہ ذہن کا حامل ہونا اور اس دور کے سماجی و زمینی حقائق اور عالمی سیاست کا ’سبالٹرن سٹڈیز‘ کے طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔ کیوں کہ بقول ڈاکٹر اجمل نیازی ”اختلاف رکھنے کا حق صرف اسے حاصل ہے جو سچے دل سے اعتراف کر سکے۔“

ذکر ہے 2007 ء کے اوائل کا۔ ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی کال کوٹھڑی میں لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب ’تاریخ عالم پر ایک نظر‘ کا تازہ تازہ ہم نے مطالعہ کیا تھا۔ پنڈت صاحب کی کتاب دراصل ان خطوط پر مشتمل تھی جو انہوں نے اپنے ایام اسیری کے دوران جیل سے اپنی صاحب زادی اندرا گاندھی کو تحریر کیے تھے۔ روزانہ شام کو خیر پور ڈاہا روڈ پر اپنے ’محرم راز‘ سید عامر لعل بخاری کے ساتھ آدھی آدھی رات تک ان کتابوں کے مندرجات، عالمی واقعات، ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت اور جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کے دور رس نتائج پر بحث ہوتی۔

اکثر اوقات یہ بحث و مباحثہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے تقابلی جائزہ میں تبدیل ہو جاتا۔ ان تمام ابحاث میں عامر کا کردار پرویز مشرف کے ’بہترین حامی‘ اور ہمارا کردار پرویز مشرف کے ’بدترین مخالف‘ کے طور پر سامنے آتا، اور جب رات گئے ہم ’عالی شان ہوٹل‘ سے چائے پی کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوتے تو گفتگو کی تلخی ہمارے رویوں پر غالب ہوتی اور بعض اوقات تو ہم ہاتھ ملائے بغیر ہی ناراضی سے رخصت ہو جاتے۔

انہی ایام میں صدر پرویز مشرف کی خود نوشت کتاب ’سب سے پہلے پاکستان‘ منصہ شہود پر آئی تو ہماری باہمی گفتگو اس کتاب کے مندرجات پر بھی ہونے لگی تھی جو ان دنوں اخبارات میں شائع ہو رہے تھے۔ مارچ 2007 ء کو صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا اور اس طرح صدر مشرف کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع ہو گئی، عامر اب بھی پرویز مشرف کی پالیسیوں کا دفاع کرتا جب کہ ہم نے افتخار محمد چودھری کی شکل میں ایک نیا ’ہیرو‘ تراش کر پرویز مشرف سے اپنی خود ساختہ ’نفرت‘ میں مزید اضافہ کر لیا۔

وہ وقت ذہنی طور پر ہماری سیاسی ناپختگی اور جذباتیت کا دور تھا۔ جب خواب دیکھنا، رومانس پالنا اور خط لکھنا اچھا لگتا تھا۔ ایک رات جب ہماری سیاسی بحث باہمی تلخی پر ختم ہونے لگی تو تنگ آ کر عامر نے کہا: ”نعیم بھائی! اگر آپ اپنے موقف میں سچے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ پرویز مشرف کو ایک خط لکھیں اور دلائل کے ساتھ شائستہ انداز میں ان سے کہیں کہ وہ غلط ہیں اور یہ کہ ان کی حکومت اور پالیسیوں سے ملک اور جمہوریت کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔“

ایک تو بھٹو صاحب اور پنڈت صاحب کے خطوط کا رومانس ہم پر طاری تھا، لہذا عامر کی یہ بات سیدھی ہمارے دل میں کھب گئی۔ اب یہ معمول بن گیا کہ روزانہ تاریخ، سیاسیات، سیاست دانوں کی خود نوشتوں میں ”منہ مار کر“ ہم خط کے ایک دو صفحات تحریر کرتے۔ شام کو عامر کے ساتھ خط کے طرز تحریر، نفس مضمون اور مواد پر تبادلہ خیال ہوتا، لکھے گئے معروضات پر کئی کئی گھنٹے بحث ہوتی اور پھر خط کے مزید صفحات لکھنے کے ارادے کے ساتھ ہی ہماری گفتگو تمام ہوتی۔

اسی طرح تین چار ماہ کی مغز ماری کے نتیجے میں 27 فل سائز صفحات پر اول فول لکھنے کے بعد جو ’محضر نامہ‘ پایہ تکمیل کو پہنچا تو ہم نے اس ’نامہ ہائے شوق‘ کا عنوان ”یتیم مملکت کے یتیم صدر کے نام ایک یتیم پاکستانی کا خط“ رکھا۔ مکمل خط پڑھ کر عامر تو اش اش کر اٹھا، اس کی داد اور حوصلہ افزائی یقیناً ہمارے لیے افتخار اور اعزاز کی بات تھی۔

پرویز مشرف کے نام لکھا گیا خط تو مکمل ہو گیا اور اب اسے بھیجنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ ہم ڈرتے تھے کہ اگر یہ خط پرویز مشرف کو بھیج دیا تو کہیں ہمیں ’غائب‘ نہ کر دیا جائے۔ ہٹلر، مسولینی، سٹالن اور ضیاء الحق جیسے ’آئیڈیل‘ آمروں کی داستانوں میں ہم نے پڑھا تھا کہ فوجی آمر اپنے اوپر کوئی تنقید برداشت کرنے کے روادار نہیں ہوتے اور ’بلڈی سویلین‘ کو ’غائب‘ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے البتہ اس ”آڑے وقت میں“ بھی عامر ہی ہماری مدد کو آیا۔ اس نے پرویز مشرف کی ’روشن خیالی‘ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اوپر تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جرات مند لیڈر ہیں، آپ کے خط اور تنقید سے انہیں خوشی ہو گی اور وہ لازمی مثبت جواب بھی دیں گے۔

بادل نخواستہ ہم نے صدر جنرل پرویز مشرف کے نام یہ ’طویل و عریض‘ خط پوسٹ کر دیا اور ایک طاقتور فوجی حکمران پر انتہائی سخت تنقید کرنے کے جرم میں ممکنہ نتائج بھگتنے کے لیے بھی خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگ گئے۔ خط بھیجنے کے چند دن بعد کا ذکر ہے، ہم مسجد مکتب سکول چونگی شکرانی میں نرسری کے بچوں کے ساتھ دماغ کھپانے میں مصروف تھے کہ اچانک ہمارے نوکیا کے 3310 موبائل کی ’بھدی‘ آواز سے فضا گونج اٹھی، ملگجی سکرین پر اسلام آباد کا سرکاری فون نمبر جھلملا رہا تھا۔

آموختہ دہراتے بچوں کو ’چھمک‘ لہرا کا خاموش رہنے کا اشارہ کیا، موبائل سگنلز کے ممکنہ اتار چڑھاؤ کے خدشات کو بھانپتے ہوئے اٹھ کر فون آن کیا تو دوسری طرف کوئی صاحب گویا تھے۔ صدر مملکت کے سٹاف افسر کے طور پر اپنا تعارف کراتے ہوئے ہمیں یہ ’مژدہ‘ سنایا کہ آپ کا خط صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف صاحب کو موصول ہو چکا ہے، انہوں نے اس خط پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فون کر کے ان کی طرف سے شکریہ ادا کروں۔ اس وقت تو ہمیں یقین ہی نہیں آیا جب سٹاف افسر صاحب نے ہمیں یہ ’خوش خبری‘ سنائی کہ صدر مملکت نے اپنی تصنیف ’سب سے پہلے پاکستان‘ آپ کو بھیجنے کا حکم دیا ہے، ان کا یہ تحفہ جلد ہی آپ تک پہنچ جائے گا۔

چند دنوں بعد ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی جب پوسٹ آفس اوچ شریف کا ڈاکیا عبدالکریم ایک پارسل ہمارے گھر دے گیا۔ لفافے پر ایوان صدر کا مخصوص مونوگرام چھپا ہوا تھا، بے تابی سے پارسل کھولا تو اس میں پرویز مشرف کی کتاب برآمد ہوئی۔ کتاب لے کر عامر کے پاس گیا تو اس نے یہی بات کہی کہ ”ہمارا جنرل آپ کی سوچ سے زیادہ جمہوری مزاج اور کھلے دل و دماغ کا مالک ہے اور اختلاف برداشت رکھنے کا ظرف بھی رکھتا ہے، اگر پرویز مشرف میں تنقید برداشت کرنے کی جرات نہ ہوتی تو وہ کبھی اپنے سٹاف افسر کے ذریعے آپ کے خط کا شکریہ ادا نہ کرتا اور نہ ہی آپ کو کتاب کے تحفے کے قابل سمجھتا۔ ویسے بھی آپ دونوں کی سالگرہ کا دن ( 11 اگست) ایک ہی ہے، لہذا آپ مشرف صاحب کے حوالے سے اپنی سوچ تبدیل کریں اور انہیں حقیقی معنوں میں ایک ’انقلابی‘ لیڈر سمجھیں۔“

’انقلابی‘ لیڈر تو ہم نے انہیں سمجھا اور نہ کبھی سمجھ پائے، البتہ ان کے سٹاف افسر کے فون اور کتاب کے تحفے کے بعد ’غائب‘ کیے جانے کا ہمارا خوف کافی حد تک دور ہو چکا تھا۔ ان کو بھیجے گئے خط کی فوٹو کاپی ہم نے اپنے پاس محفوظ رکھی تھی، عامر کی حوصلہ افزائی اور مشرف صاحب کی ’عالی ظرفی‘ سے ’گھائل‘ ہو کر ہم نے وہ مکمل خط دوبارہ لکھ کر روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کے پاس بھیج دیا۔ یہ خط ان کے پاس بھیجتے وقت ہمیں ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ وہ یہ طویل تحریر کھلے خط کے طور پر ’نوائے وقت‘ میں شائع کریں گے۔

ہمارے لیے افتخار کی بات تھی کہ ایک دن انہوں نے بھی فون کر کے تحریر کی بابت ہماری حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے کی تحریک دی۔ جب انہیں ہم نے بتایا کہ اس 23 سالہ نوجوان کے لیے آپ کے قیمتی الفاظ کسی اعزاز سے کم نہیں تو ’23 سال‘ کے الفاظ پر وہ چونک سے گئے، کہنے لگے : ”بیٹا! اتنی چھوٹی سی عمر میں جابر سلطان کے سامنے اس خط کی شکل میں اصل جہاد تو آپ نے کیا ہے، ہم بوڑھے تو صابر بنے جھک مار رہے ہیں۔“ مجید نظامی صاحب نے ہمارے اس خط کو ضروری قطع و برید کے ساتھ ’نوائے وقت‘ کے ادارتی صفحہ پر تین اقساط میں شائع کیا۔ بعد ازاں منصورہ میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں اس خط کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں۔

18 اگست 2008 کو صدر پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کر کے اپنے استعفی کا اعلان کیا تو انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام ”پاکستان کا خدا ہی حافظ“ کے الفاظ سے کیا۔ تمام تر سیاسی اختلافات، تنقید کے باوجود نجانے کیوں نہ چاہنے باوجود آنکھیں نم سی ہو گئی تھیں اور یقین سا آنے لگا تھا کہ واقعی ”اب پاکستان کا خدا ہی حافظ“ ہے۔ آنے والے چند سالوں نے اس فوجی آمر کے سیاسی الہام پر مہر مثبت کر دی تھی۔ ”حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments