مستقبل بینی اور شمیم قریشی


جاننا انسانی جبلت ہے اور آنے والے وقتوں کے بارے جانکاری حاصل کرنا ہمیشہ سے انسانی فطرت میں شامل رہا ہے اگر کسی انسان کو یہ علم حاصل ہو جائے کہ آنے والے کل حتی کہ آنے والے ایک گھنٹے میں کیا ہونے والا ہے تو وہ دنیا کا امیر ترین انسان بن سکتا ہے۔ ایسے سائنسی اور مخفی علوم موجود ہیں جن کے ذریعے انسان صدیوں سے مستقبل میں جھانکنے کی کوششیں کرتا چلا آ رہا ہے۔ ایک تجزیہ نگار آنے والے وقتوں کے بارے میں جو تجزیہ کرتا ہے اگر وہ درست ثابت ہو جائے تو اس کی ریٹنگ بڑھ جاتی ہے۔ ایک لیڈر اور معیشت دان اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں اپنے وطن کے لیے جو پالیسیاں بناتا ہے اگر آنے والا وقت انہیں درست ثابت کر دے تو وہ کامیاب ورنہ ناکام۔ طالب علم بھی آنے والے امتحان میں آنے والے سوالات کے امکان کا مختلف طریقوں سے اندازہ لگا کر تیاری کرتا ہے۔

”یوں کیا تو یوں ہو گا“
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

یہ انسان کا بہت بڑا سوال اور مخمصہ ہے۔ پامسٹری، آسٹرالوجی، فلکیات، موسمیات، رمل اور جفر، بصیرت اور دور بین بصارت وغیرہ کے ذریعے بھی صدیوں سے انسان مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گئے دنوں میں لوکل وزڈم کے ذریعے زمیندار ”پرے“ کی ہوا سے اندازہ لگا لیتے تھے کہ بارش آئے گی۔ بکرمی مہینے ”کاتک“ کی یکم تاریخ کو اگر ہلکی بارش ہو جائے تو زمیندار کہتے کہ اب اگلے 100 دن بارش نہیں ہو گی۔

نہ جاننے والے کے لیے شارٹ ہینڈ کیڑے مکوڑے ہیں جبکہ جاننے والے کے لیے ایک بامعنی عبارت۔

دست شناس بھی ہاتھ کی ساخت اور لکیروں کو پڑھ یا ڈی کوڈ کر کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہے اور یہ ہر انسان کا شوق ہے کہ اپنے مستقبل میں جھانک سکے۔

شمیم قریشی ان انسانوں میں نمایاں نام ہے جنہوں نے بیشمار لوگوں کو ان کے ہاتھ پڑھ کر مستقبل کے بارے میں بتایا جو بہت حد تک درست ثابت ہوا۔

شمیم قریشی کو لڑکپن میں جموں کے ایک مجذوب حکیم نے کہا ”تو بھی دیکھے گا تو بھی“

شمیم قریشی کوہ نور ملز میں ملازمت کرتے تھے۔ مل کے سیکرٹری مقبول حسین کی بیٹھک میں شمیم قریشی کی ملاقات نامور پامسٹ میر بشیر سے ہوئی۔ جب مقبول حسین گھر کے اندر گئے تو میر بشیر نے کہا ان کے ہاں بیٹا پیدا ہونے والا ہے سب کچھ اللہ کی رحمت سے خوش اسلوبی سے ہو جائے گا یہ خواہ مخواہ پریشان ہیں۔ تھوڑی دیر بعد مقبول حسین مسکراتے آئے اور کہا اللہ نے مجھے بیٹا دیا ہے۔ میر بشیر نے شمیم قریشی سے کہا کہ اللہ نے تمہیں مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت سے نوازا ہے لہٰذا تم ہماری فیلڈ میں آ جاؤ۔ پھر لندن سے انہوں نے شمیم قریشی کو کتابیں پارسل کیں۔

سیشن جج اٹک، معروف پامسٹ ایم اے ملک اور اٹک جیل کے سپرنٹنڈنٹ کرنل نے قتل کے ایک ملزم کا ہاتھ دیکھ کر متفقہ رائے دی کہ یہ بری ہو جائے گا لیکن قریشی صاحب نے کہا کہ یہ بے گناہ ہے مگر پھانسی چڑھ جائے گا۔ بعد ازاں ایسا ہی ہوا تو سیشن جج نے شمیم قریشی کو بلا کر پوچھا تو انہوں نے انہیں اس ملزم کے ہاتھ کا وہ نشان بتا دیا جس پر ان تینوں کی نظر نہیں پڑی۔

کوہ نور ملز کے ریسٹ ہاؤس میں ایک وزیر آ ٹھہرا۔ ایک روز شمیم قریشی نے اس کا ہاتھ دیکھ کر کہا کہ آپ کی ترقی آسمان چھو لے گی لیکن آپ کی موت جیل میں ہو گی۔ اس نوجوان وزیر نے غصے سے اپنا ہاتھ کھینچا اور گھورتا ہوا باہر چلا گیا، اس وزیر کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔

رئیس امروہی کا ہاتھ دیکھ کر شمیم قریشی نے کہا کہ آپ قتل ہو جائیں گے رئیس امروہی نے کہا نہ میں سیاست دان ہوں نہ سرمایہ دار میں تو بس نام کا رئیس ہوں مجھے کون مارے گا اور پھر وہ قتل ہو گئے۔

ایک پٹھان کا ہاتھ دیکھ کر بتایا کہ آپ 72 سال کی عمر میں حکمران بن جائیں گے۔ اس نے قہقہہ لگایا اور کہا 60 سال کے بعد تو بیوی بھی دھکے دے کر باہر نکال دیتی ہے اور تم مجھے بادشاہ بنا رہے ہو۔ 72 سال میں ابھی کئی دہائیاں حائل تھیں۔ اس پٹھان کا نام غلام اسحاق خان تھا۔

بنارس یونیورسٹی غیر مرئی علوم کی دنیا کی سب سے قدیم درس گاہ ہے۔

بنارس یونیورسٹی کی تاریخ کے پہلے مسلمان طالب علم شمیم قریشی نے ایم اے مخفی علوم کرنے کے بعد 1972 ء میں محمودہ احمد علی شاہ کے گھر سری نگر میں اندرا گاندھی کا ہاتھ دیکھ کر ان کے بیٹے سنجے گاندھی اور ان کی حادثاتی ہلاکت کے متعلق سب صاف صاف بتایا تو وہ اس گستاخی پر ناراض ہو گئیں۔ سنجے گاندھی کی ہلاکت پر جب بیگم محمودہ تعزیت کے لیے گئیں تو اندرا گاندھی نے بیگم محمودہ سے ساری پیش گوئیاں لکھ کر بھجوانے کی درخواست کی جو قریشی صاحب نے بھیج دیں۔ اندرا گاندھی قتل ہوئیں تو ان کے کاغذات میں سے جب یہ خط برآمد ہوا تو بھارتی خفیہ اداروں نے انکوائری شروع کر دی۔

1972 ء میں دہلی میں ایشین گیمز میں باسکٹ بال کا میچ دیکھ کر سٹیڈیم کے گیٹ پر شمیم قریشی نے پائلٹ راجیو گاندھی کا ہاتھ دیکھ کر کہا جناب آپ آئندہ تین برس تک اس ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ آپ کی عمر کم ہے اور آپ کی وفات بھی ویسے ہی ہو گی جیسے آپ کی والدہ کی۔ راجیو گاندھی نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا بھگوان ماتا جی کی عمر لمبی کرے میں ڈرائیور ہی ٹھیک ہوں۔ نزدیک کوئی اخباری رپورٹر بھی تھا لہٰذا اگلے روز یہ پیشگوئیاں اخبار میں شائع ہونے پر بھارت میں خاصا شور مچا۔

88 ء میں واپس پاکستان آئے تو مسعود ہاشمی روپڑی نے شمیم قریشی کو ایک ہاتھ کا پرنٹ دکھایا۔ قریشی صاحب نے مسعود کو بتایا یہ شخص کسی سٹیٹ کا ہیڈ ہے اور اس کی موت 62 سال کی عمر میں پانی میں ڈوبنے سے ہو گی۔ اس کا ایک بچہ سپیشل ہے۔

مسعود ہاشمی کے کہنے پر یہ لکھ کر دے دیا۔ وہ پرنٹ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کا تھا جو 17 اگست 88 ء کو بہاولپور دریا کے کنارے جاں بحق ہو گئے لیکن شمیم قریشی نے دو برس بعد یہی ہاتھ ایک جیتے جاگتے انسان کی کلائی سے جڑا دیکھا۔ وہی لکیریں، وہی ابھار، اور وہی سائز۔ انہوں نے کہا آپ بھی اپنے والد کی طرح بہت اوپر جائیں گے آپ کا تیسرا بچہ ابنارمل ہو گا اور آپ بھی اپنے والد کی طرح جان سے جائیں گے۔ اس کا نام اعجاز الحق تھا۔

نومبر 89 ء میں راجیو گاندھی نے لوک سبھا میں مڈٹرم انتخابات کا اعلان کیا تو لوک سبھا کے ایک ممبر نے کہا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نہیں جیت سکتے، آپ کی زندگی میں یہ الیکشن ہے ہی نہیں تو پھر آپ ہمیں کیوں مروا رہے ہیں۔ دوسرے اراکین نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا یہ بات بھی اسی پامسٹ شمیم قریشی نے کہی جس نے پائلٹ راجیو گاندھی کو وزیراعظم بننے کی خوشخبری سنائی تھی کہ راجیو گاندھی دوسری بار وزیراعظم نہیں بن سکتے ان کی عمر بھی کچھ زیادہ لمبی نہیں۔ اور وہ پامسٹ آج کل پاکستان میں ہے۔ تھوڑی مدت بعد راجیو گاندھی قتل ہو گیا تو پاکستان کے خفیہ اداروں نے قریشی صاحب کی انکوائری شروع کر دی وہ تین ماہ ان کی زندگی کا ایک پریشان کن دور تھا۔

قریشی صاحب نے ایک بچی کا ہاتھ دیکھ کر پیش گوئی کی کہ 16 برس کی عمر میں اس کی جنس تبدیل ہو جائے گی۔ وہ لڑکی بڑی ہو کر لڑکا بن گئی تو پامسٹری کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔

شمیم قریشی آگہی کے درد کا سفر کرتے کرتے 7 جولائی 2005 ء کو گھاٹی اتر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).