احترام یا استحصال


اگر آپ عدنان کاکڑ اور وجاہت مسعود کے ساتھ اردو بلاگنگ کی کلاس نہیں لے رہے ہیں تو آپ بہت کچھ سیکھنے کا ایک نہایت اچھا موقع گنوا رہے ہیں۔ ہماری کلاس کے چند شاگردوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گھر میں کام کرنے والی ماسیوں کے بارے میں تبادلۂ خیال ہوا جس پر آج کا مضمون مبنی ہے۔

آفتاب

آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ جن کے پاس کام کرنے کے لیے ملازمین ہیں۔ ہم تو ایسے معاشرے میں آ بسے ہیں کہ جہاں سارے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔ ہم ہی کیا یہاں تو وزیر، مشیر، بیوروکریٹ اور سرمایہ دار بھی اپنے کام اپنے خود ہی کرتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں کہ نہ کوئی پروٹوکول اور نہ ہی اختیارات کا ناجائز استعمال۔ دفتر میں جب میٹنگ ہوتی ہے تو اس میٹنگ کے لیے چائے، کافی اور دیگر اشیاء کا انتظام باس نے کرنا ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ دفاتر میں نہ آفس بوائے ہے اور نہ ہی کال بیل۔

یہاں ڈاکٹر خود مریض کو ویٹنگ روم سے لے کر آتا ہے اور اس کے لیے دروازہ کھولتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر وطن عزیز کی یاد شدت سے ستاتی ہے کہ اگر ہم بھی وہاں ہوتے تو ہمارے آگے پیچھے بھی ملازمین گھوم رہے ہوتے۔ جان ملٹن شاید اسی لیے پیراڈائز لاسٹ میں کہتا ہے کہ جہنم میں حکومت کرنا، جنت میں خدمت کرنے سے بہتر ہے۔

فہمیدہ

اسی لئے باہر نہیں گئی میں کہ سب خود کرنا پڑے گا! ہنسنے والی ایموجی

لبنیٰ مرزا

میں اوکلاہوما میں رہتی ہوں۔ ہماری بھی ایک ماسی ہیں۔ ان کا نام لولا ہے۔ لولا ہسپانوی ہیں اور ان کو زیادہ انگلش بولنی نہیں آتی ہے۔ لولا صرف دو ہفتوں میں ایک دن کے لیے آتی ہیں اور سارا گھر صاف کرتی ہیں، برتن دھوتی ہیں۔ ان کی تنخواہ 150$ فی دن ہے۔ وہ ہر ہفتے شہر نہیں آتیں کہ پیٹرول کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ باقی سارا وقت میں خود اپنے گھر میں ایک مفت ماسی ہوں!

ابصار

میں نے سنا ہے کہ ماسی پنجابی میں والدہ کی بہن، خالہ کو کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس لفظ کا استعمال تعصب پر مبنی ہے۔ اہل علم کی رہنمائی درکار ہے۔

شیز

بہتر ہے کہ کام والی ماسی کہا جائے، گھروں میں ہم اکثر کام والی ماسی کو عزت سے خالہ بھی کہتے ہیں، اردو میں ماسی بھی شاید اسی تناظر میں کہا جاتا ہو گا۔

لبنیٰ مرزا

تنویر جہاں کی کلاس سے ہم نے سیکھا کہ ایک سائنسی تجربے میں تیسری چوتھی نسل کے بندر روایت پر چل رہے تھے لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ جو وہ کرتے ہیں اس کا مطلب اور مقصد کیا ہے یا یہ کیسے شروع ہوئی؟ آج ہم یہ ڈسکس کرتے ہیں کہ کہ گھر میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ماسی کا لفظ کہاں سے آیا؟ کیا گھر میں کام کرنے والی خواتین کو ماسی کہنا ان کی تضحیک کرنا ہے؟

جب ہم چھوٹے بچے تھے تو ہماری بھی سکھر میں ایک ماسی تھیں۔ یہ تو طے تھا کہ ماسیاں غریب ہیں تبھی ان کو ہمارے گھروں میں معمولی تنخواہ کے عوض برتن دھونے ہوتے ہیں اور صفائی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن ہماری ماسی رحیماں کے ساتھ سارے خاندان کا بہت اچھا برتاؤ تھا۔ وہ ساتھ میں بیٹھتی تھیں اور ساتھ میں کھانا کھاتی تھیں۔ ہمارے رشتہ دار بھی ماسی کو عیدی وغیرہ دیتے تھے اور تحفے بھجواتے تھے۔ میں نے کبھی اپنے والدین کو کسی بھی نوکر سے بدتمیزی کرتے نہیں دیکھا۔

ایک مرتبہ میں اتفاق سے ایک پڑوسن کے گھر گئی تو دیکھا کہ وہ خود چارپائی پر بیٹھی ہیں اور ماسی کو زمین پر بٹھایا ہوا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک عجیب و غریب نظارہ تھا۔ ایک مرتبہ یہ دیکھا کہ ایک گھر کے باہر ان کا ڈرائیور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر دو پلیٹوں میں روٹی اور سالن کھا رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر میں نے سخت تاسف محسوس کیا کیونکہ ان پڑوسیوں کے گھر میں ڈرائنگ روم اور ڈائننگ ٹیبل اس سے چند قدموں کے فاصلے پر اندر تھا جہاں وہ ایک انسان کی طرح بیٹھ کر کھانا کھا سکتا تھا۔ آپ کی کرسی اور میز پر ایک آدمی کے بیٹھ جانے سے وہ گھس نہیں جاتے ہیں۔

سندھ میں نئے بچوں کے سر ہڈیاں مکمل بن جانے تک ایک لکڑی کے خول میں رکھتے ہیں۔ ہماری ماسی کہتی تھیں کہ مہاجروں کے بچوں کے سر ٹیڑھے میڑھے ہوتے ہیں۔ جب میں پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنے سندھی اسٹائل سے میرا سر گول بنایا تھا۔ یہ کام باقی بہن بھائیوں پر نہ ہوسکا اس لیے وہ کہتی تھیں کہ صرف ایک بچی کا سر ٹھیک ہے باقی ٹیڑھے میڑھے ہیں۔ ایک چھوٹی سی اسٹیل کی پتیلی میں ماسی رحیماں دودھ گرم کر کے مجھے پلاتی تھیں۔ ہمارے بڑے ہو جانے کے بعد اس پتیلی میں چائے وغیرہ بنتی تھی۔

وہ پتیلی پٹسبرگ پینسلوانیا تک میرے ساتھ رہی جہاں میں نے انٹرنل میڈیسن میں ریزیڈنسی کی تھی۔ ایک مرتبہ اس میں کچھ جل گیا تھا۔ میں نے اس کو سنک کے نیچے چھپا دیا تھا کہ فارغ ہوئی تو اس کو کھرچ کر صاف کرلوں گی۔ لیکن گھر میں کسی نے اس کو فالتو سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیا۔ اس بات کا مجھے بہت صدمہ ہوا لیکن زندگی تو ایسے ہی ہے۔ چیزیں، لوگ، وقت سب کچھ ہاتھوں کی انگلیوں میں سے پھسل جاتا ہے۔

نائلہ

ماسی، ماں سی ہے اور اسی بنا پر خالہ کو کہا جاتا ہے، ہمارے گاؤں میں آج بھی خالہ کو ماسی ہی کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے استعمال پر تعصب کا الزام کب سے لگا؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ شاید تب جب سماج کی اخلاقی گراوٹ کے باعث گھریلو ملازمین کے لیے لہجوں اور انداز میں حقارت آ گئی۔ گھریلو کاموں میں مدد کے لیے موجود خواتین کو ماسی (ماں +سی) اسی لیے کہا جاتا تھا کہ وہ ماں کی طرح گھر اور بچوں کی دیکھ ریکھ کرتی تھیں، سرائیکی بیلٹ میں بھی ماسی ہی پکارا جاتا تھا/ہے۔

بہت سے گھرانوں میں روایت بھی تھی کہ لڑکی کی رخصتی کے وقت ماسی جی کو ہمراہ بھیجا جاتا تھا تاکہ نئے گھر میں جا کر لڑکی شرم و حیا کے باعث کچھ ریزرو رہے تو ماسی اس کے کھانے پینے کا خیال کرے۔ ماضی قریب تک اس رواج پر عمل ہوتا رہا ہے۔ ان گھرانوں میں (مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس میں اپنے گھر کو شامل کروں ) ماسی کا مقام تقریباً ماں جتنی تعظیم ہی رکھتا تھا۔ اگر آپ نے اسد محمد خان کا پر تاثیر افسانہ ”باسودے کی مریم“ پڑھ رکھا ہے، تو یقین کیجیے ہمارے ہر گھر میں ایک مریم بی بی تھیں اور ہم سب بچوں کا ان سے ایسا ہی رشتہ تھا جیسا افسانے کے بچے کا افسانے کی مریم سے۔

آفتاب

میرے خیال میں الفاظ کے حقیقی معانی کے علاوہ ان کے استعمال کا معاشرتی اور تہذیبی جائزہ بھی لینا چاہیے۔ ایک لفظ ہے ”میراثی“ جس کے معنی ہیں میراث پانے والا، وارث۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہ لفظ کسی کی تضحیک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مغربی معاشروں میں آپ کالی رنگت والے افراد کو ”کالا“ نہیں کہہ سکتے۔ کیوں کہ یہ نسل پرستی کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے پیچھے ایک بہت لمبی اور درد ناک کہانی چھپی ہوئی ہے۔

اسی طرح لفظ ”ماسی“ جو کہ اردو میں سنسکرت سے آیا ہے۔ جس کے معنی ہیں ماں کی بہن، خالہ اور گھریلو کام کاج کرنے والی۔ لیکن کچھ جگہوں پر اس لفظ کے استعمال کا مقصد کسی کو حیثیت اور رتبے میں کم دکھانا اور کسی کی تضحیک کرنا بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ تم کیا ماسی بنی ہوئی ہو۔ تم نے کیا ماسیوں جیسا حلیہ بنایا ہوا ہے۔

لبنیٰ مرزا

مجھے میرے کالے دوستوں نے کہا ہے کہ ہمیں بلیکس کہلانا برا لگتا ہے۔ ہمیں کالے لوگ کہا جائے۔ میرے بچے کالج میں ہیں۔ وہ ہوم ورک کر رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ میں نے انہیں اس پراجیکٹ کے بارے میں بتایا تو عائشہ نے اس بات کے بارے میں کچھ خیالات کا اظہار کیا۔ وہ میں نے شامل کیے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ نئی نسل کے بچے کیا سوچتے ہیں؟

Isha Balouch (Bachelor of Science Student at the University of Oklahoma)

At first, referring to individuals who cook, clean, or otherwise serve members of a household with terms of endearment such as ”mother, aunt, ma, grandmother, etc.“ seems like a completely normal and natural way to refer to those who work so closely with your private life. Cooking, cleaning, and childcare are roles in our lives that are incredibly intimate. Sharing these roles with individuals is, therefore, a highly intimate process. However, once you dig deeper into the connotation of referring to these individuals as family, it becomes apparent that referring to them with terms of endearment is just another level of ownership. This ultimately blurs the line of professionalism between employer and employee, opening the door for microaggressions, disrespectful behavior, and other problems to arise.

In the context of the United States, during the period in which African Americans were enslaved by their white counterparts, black women who worked in kitchens and homes as maids or caretakers were referred to as ”part of the family.“ This motherly role that black women were forced to play went so far that it became a stereotype for black women to be natural caretakers at a young age. Black girls are expected to be more mature at a younger age and to take care of themselves and others without batting an eye.

The famous syrup brand ”Aunt Jemima ’s“ even used this stereotype to advertise their syrup as having the ”Same great taste as Aunt Jemima‘s.“ This phrase, although it seems to be sweet, is extremely troubling, as it paints the picture that black women chose to have their roles within a white family ’s household when this role was systematically forced upon her, her ancestors, and her future children. Ultimately, it does not matter if you refer to individuals who work for you with terms of endearment or treat them as a part of the family. The truth is that they are not a part of the family and that they are paid significantly less than they deserve, giving the family cheap labor because they are in the poorest working-class sector within their country.

Imagine this: if your maid, driver, or servant was disabled, would you keep them around? Oh, but they are part of the family! The truth is that they would not be hired in the first place because they cannot do the expected tasks. Power has an interesting way of creeping into our households and creating dynamics seen as acceptable or usual. However, it is important to constantly question these dynamics to protect the vulnerable populations within our countries.

ظفر عمران

کراچی کی اردو میں ماسی اور موسی کے تلفظ میں تھوڑا فرق ہے۔ کراچی میں کام والی کو موسی کہا جاتا ہے۔

اسما

ہم اور ہمارے ارد گرد تو اکثر لوگ ماسی کے پیٹھ پیچھے ذکر کریں تو ماسی یا کام والی ماسی کہتے ہیں۔ ورنہ عموماً نام ہی لیتے ہیں۔

ثنا

درست۔ بلکہ اب تو ماسی، ملازمہ جیسے الفاظ ان معانوں میں کم ہوتے ہوتے متروک ہونے کے قریب ہیں۔ آج کل ”ہیلپر“ ’ان‘ ہے۔

رخسانہ

ارے ہم بھی اپنی خالہ کو ماسی اور پھوپھو کو بوا کہتے ہیں۔ اور اپنے بھتیجے لاڈ سے ہمیں ”بوئی امی“ کہتے ہیں۔

نازیہ

ہمارے ہاں بھی خالہ کو ماسی کہا جاتا ہے اور کام والی کو بھی ماسی یا خالہ نہ صرف کہا جاتا ہے بلکہ ان کو وہی عزت بھی دی جاتی ہے جو حقیقی خالہ اور ماسی کو دی جاتی ہے۔

خزینہ

چند برس پہلے میرے پاس ایک کل وقتی ملازمہ تھی۔ جو اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ہمارے گھر میں ہی رہائش پذیر تھی۔ مجھے ہمیشہ باجی یار کہہ کر مخاطب کرتی۔ گو کہ ان کا کھانے پینے کا سسٹم اپنا تھا لیکن جس وقت ہمارے گھر کا کام ہو رہا ہوتا تو جو بھی پکتا وہ بھی وہی کھاتی۔

اب اسے چائے کا نشہ تھا جو اس نے بڑی سہولت سے مجھے منتقل کر دیا۔ اب جب اس کا چائے کو دل کرتا ایک کپ میرے سامنے بھی رکھ دیتی۔ جب مجھے احساس ہو کہ میں زیادہ چائے کی عادی ہو رہی ہوں تو اسے کہا کہ خود پی لیا کرو پر مجھے ایک کپ سے زیادہ نا دیا کرو۔ حد تو یہ کہ کبھی کبھار میرے سے فرمائش کر کے بھی چائے بنواتی کہ باجی یار آج آپ کے ہاتھ کی چائے کو دل کر رہا ہے سو بنا کے دیتی کہ یہ بھی تو اتنی خدمت کرتی ہے۔

پھر ہوا یوں کہ کئی سال میرا کام کر کے اسے میرا کام چھوڑنا پڑا لیکن اس کا شوہر ہمارا ڈرائیور تھا اس نے کام جاری رکھا۔ اب ہمارا برتاؤ اپنے گھر کے ملازمین سے ہمیشہ ایسا رہا کہ وہ گھر کے فرد کی طرح ہو۔ اب خیر سے ہمارے ڈرائیور صاحب تھے تو ڈرائیور پر میری سبزی بنانی برتن دھونا پنکھے صاف کہنے کا مطلب کہ ہر کام میں بڑھ چڑھ کر مدد کرنا شامل تھا۔ اس سب سے اندازہ کریں کہ اس میں غرور اور تکبر بالکل نہیں تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ غرور اور تکبر کاہے کا؟

تو سنیں کہ وہ فارغ وقت میں ٹک ٹاک بناتا تھا اور بڑا مشہور ٹک ٹاکر تھا۔ اس کے چھ لاکھ فالوور تھے۔ میرے ساتھ سبزی منڈی جاتا تو لاگ اسے پہچان لیتے۔ لیکن یہ سب چراغ تلے اندھیرا والی بات تھی۔ ایک دن ہمارے گھر کوئی مہمان آئے جو یہ جانتے تھے کہ یہ کتنا بڑا ٹک ٹاکر ہے لیکن وہ ہمارے گھر میں برتن دھو رہا ہے تو بے ساختہ ہی کہہ اٹھے کہ ( پنجابی میں ) ایڈا وڈا ٹک ٹاکر چھ لکھ فالوور والا سلیبرٹی تے تسی اودے کولوں پانڈے تواندے پے او۔ ترجمہ کہ اتنا بڑا ٹک ٹاکر چھ لاکھ فالوور والا سلیبرٹی اور آپ اس سے برتن دھلوا رہے ہو۔

اب تصویر کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ کہ کیا ہماری ماسی یا گھریلو ملازمین کو اتنی اہمیت اور عزت دینی چاہیے کہ اگر وہ کہیں اور جائیں تو ایڈجسٹ ہی نا ہو پائیں۔ ہمارا ایک ڈرائیور تھا ہم نے گھر شفٹ کیا تو ہماری ضرورت اسے چوبیس گھنٹے رکھنے کی تھی کیونکہ وہ صبح بچوں کی ڈیوٹی کے ٹائم تک پہنچ نہیں پاتا تھا۔ اس کی بیوی اور ساس نے اسے اتنا مجبور کیا کہ اسے نوکری چھوڑنی پڑی لیں وہ پچھلے سال نومبر تک ہم سے رابطے میں تھا ہر دو تین ماہ بعد روتا ہوا کال کرتا کہ صاحب میں نے آپ کے پاس ہی آنا ہے مجھے رکھ لیں جس پہ اسے کہا جاتا کہ اپنی بیوی اور ساس سے پوچھ لو اگر اجازت میل گئی تو آ جانا لیکن وہ اجازت اسے کبھی نا ملی۔

نومبر میں ایک دن اس کی کال آئی تو رو رہا تھا کہ صاحب مجھے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے میں ہسپتال میں ہوں۔ مجھے سانس نہیں آتا میں نے مر جانا ہے۔ پھر صاحب اس کی خبر گیری کو گئے اسے دلاسہ دیا اور کچھ مالی مدد کی اور آ گئے۔ یکم دسمبر کی رات ایک کال آئی اور اس کے گھر والوں نے اطلاع دی کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔

سامیہ

بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جس پر عمل نہ کرے تو بھی دل پر اثر ضرور چھوڑ دیتی ہیں۔ ہمارے ایک مہربان انکل تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ہمارے محلے میں ایک مجبور بیوہ عورت دو بچیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ کبھی کبھی ہمارے گھر آتی اور اپنی روز مرہ ضرورت کی چیزیں لے کر جاتی تھی۔ ایک دن میں اکیلا تھا وہ اپنی بچیوں کے ساتھ ہمارے گھر آئی اور کھانے کا راشن مانگا۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے گھر والی گھر میں نہیں ہے لیکن میں گھر کا دروازہ کھول دیتا ہوں اور اسٹور میں چیزیں رکھی ہوئی ہیں وہاں سے خود اپنی ضرورت کی کھانے پینے کی چیزیں لے جائیں۔

جب اللہ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہو تو ہمارا رویہ ضرورت مند لوگوں کے ساتھ اس طرح ہونا چاہیے۔ یہاں ضرورت مند لوگوں سے میری مراد وہ لوگ ہیں جن کو پیٹ بھرنے کے لئے صرف روٹی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے اپنے ملازموں کے ساتھ بھی اس طرح کا رویہ ہونا چاہیے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ہمیں ملازموں پر کوئی روک ٹوک نہیں کرنی چاہیے۔ چاہیے وہ ریفریجریٹر سے نکال کر کھائے یا گھر سے کھائے اگر کھانے کی چیزیں چوری بھی کرے تو ہمیں نظرانداز کرنا چاہیے کیونکہ یہ کوئی سونا یا زیورات نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کو جینے کے لئے ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں پر بہت ہی کم پیسوں پر گھروں میں کام والی ہوتی ہیں۔ مہینہ میں اگر ایک کام کے حساب سے پیسے گنے جائے تو سو روپے بھی ایک دن کے حساب سے نہیں بنتے ہیں وہ ان پیسوں سے کیسے گزارہ کرتے ہوں گے اور کیسے اپنا گھر چلاتے ہوں گے ۔ ہمیں ان کے بارے میں یہ احساس ہونا چاہیے اور ان کی تنخواہ کے علاوہ اپنی گنجائش کے مطابق ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ ان کی دوسری گھریلو ضروریات پوری ہو جائیں۔ کام والی چھٹی کرے تو اس دن ہم بالکل اپاہج اور ادھورے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں کام والی کا شکر گزار ہونا چاہیے وہ ہمارے مشکل کام یعنی واش روم سے لے کر ڈسٹ بن تک صاف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی ہیں۔ ہمیں بھی اس کے بدلے میں اس کی بہت عزت کرنی چاہیے۔ اس کو اپنے گھر کا ایک فرد کی طرح سمجھنا چاہیے۔

میری شادی ہو کے جب میں سسرال میں آئی تو میری بہت چھوٹی عمر تھی۔ میرا سسرال بھی کافی بڑا تھا۔ چھوٹی ہونے کی وجہ سے سارا کام میں اکیلی خود ہی کرتی تھی۔ بچوں کو سنبھالنا اور گھر کا کام اور یہ میرے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا تھا صفائی والی تو شروع سے آتی تھی لیکن اب دوسرے کاموں کے لئے بھی رکھ لیا ہے۔ میں صرف سالن بناتی ہوں اور کپڑے خود دھوتی ہوں کیونکہ اب عمر کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان مسلسل کام کرتے ہوئے تھک جاتا ہے۔

باقی کام والی کو ماسی کہے یا کام والی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہے بلکہ ان لوگوں کی قدر دل میں بڑھ جاتی ہے۔ یہ لوگ کسی سے مانگنے کی بجائے گھروں میں کام کر کے اپنے حق حلال کی کمائی کھاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی اتنے ہی باعزت ہیں جیسے معاشرے میں دوسرے لوگ ہیں۔ یہ ہم لوگ ہی ہیں جو ان کا خیال رکھنے کی بجائے ان کی معمولی غلطیوں پر سرزنش کرتے ہیں اور ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments