( 2 ) بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور سید فخرالدین بلے فیملی


میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج، مجھے دیا لکھنا

جو کونپلیں پھوٹیں، جو گلاب کھلے۔ اس سے ہمارا گلستان ادب مہک اٹھا۔

پھر اچانک یوں ہوا، ہجرتوں کے درمیان، کچھ اور نہیں، حوا کے نام، چہار چمن، پروا، دوسرا دروازہ، سامان وجود، اک ہنس کا جوڑا، فٹ پاتھ کی گھاس، شہر لازوال آباد ویرانے، توجہ کی طالب، آتش زیرپا، سدھراں، مردا بریشم، ایک دن، شہر بے مثال، بازگشت، چھوٹا شہر بڑے لوگ، آخر میں ہی کیوں؟ ، موم کی گلیاں، دست بستہ، سورج مکھی، موم کا پتلا، دوسرا قدم، حاصل گھاٹ، اور راجہ گدھ خوبصورت کہانیوں کی ایسی کتابیں ہیں، جن میں انسانی نفسیات کی کار فرمائیاں بھی ہیں اور زندگی کی سچائیاں بھی، تخلیقی توانائیاں بھی ہیں اور تخلیات کی بلند پروازیاں بھی، مخصوص زاویہ فکرو نگاہ کی رعنائیاں بھی ہیں اور معرفت کی عقدہ کشائیاں بھی۔

آپ کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بڑا واضح پیغام ملے گا۔ راجہ گدھ پر بہت کچھ لکھا گیا، اس کی بہت سی فکری اور تخلیقی جہتیں بھی ناقدین نے دریافت کیں۔ اگر آپ غور کریں تو مرکزی خیال رزق حلال ہے اور رزق حلال کمانے کا پیغام اتنی خوبصورتی کے ساتھ دیا گیا ہے کہ یہ دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ کا فلسفہ یہ ہے کہ رزق حلال کا پیغام ہی اسلام کی روح ہے، جو اسے تمام ادیان عالم سے ممتاز کرتا ہے۔ میں نے تو انہیں یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے، جس نے رزق حلال کمانے کا حکم دیا۔ ان کی یہی بات سن کر ان کے گھر آنے والے امریکی مہمان نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

قافلے کے ایک اور پڑاؤ میں بانو آپا اشفاق احمد کے ساتھ آئیں۔ سید فخرالدین بلے اور اشفاق احمد خان صاحب میں تصوف پر خوب مکالمہ ہوا۔ دونوں ہی دریائے تصوف کے شناور تھے۔ اشفاق صاحب کے سوالات کانٹے کے تھے اور فخرالدین بلے کے جوابات بھی۔ منور سعید، بیگم منور سعید، شائستہ سعید کے ساتھ ڈاکٹر وحید قریشی، بیدار سرمدی، کرامت بخاری، ڈاکٹر انور سدید، سرفراز سید، کنول فیروز، ڈاکٹر خواجہ ذکریا، ڈاکٹر اجمل نیازی، علامہ غلام شبیر بخاری، حسین مجروح، افتخار ایلی، اسرار زیدی، شاہد واسطی، میرزا ادیب، ظفر علی راجا، ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹر وزیر آغا، حسن رضوی، نجمی نیگنوی، غلام الثلقین نقوی، نسرین شیراز اور آمنہ آصف سمیت تمام شرکائے قافلہ اشفاق احمد اور فخرالدین بلے کے مابین ہونے والے مکالمے سے خوب محظوظ ہوئے۔ اختتام پر علامہ غلام شبیر بخاری نے سید فخرالدین بلے کی غزل کا یہ مصرع پڑھ کر بحث سمیٹی۔ سوال خوب تھا، لیکن جواب کیسا ہے؟

بانو آپا یہ کہہ کر قافلے کے پڑاؤ سے اٹھیں کہ آج بڑی خوب صورت گفتگو سننے کو ملی ہے۔ ایسی محفلیں سجاتے رہو اور ہمیں بلاتے رہو۔

سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علیگڑھ داتا کی نگری میں تشریف لائے توان کے اعزاز میں قافلے نے پڑاؤ ٔڈالا، رات کو میرے والد سید فخرالدین بلے نے ان کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا۔ نامور ادبی جوڑا بھی خصوصی دعوت پر شریک محفل ہوا۔ بات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہوتی ہوئی تربیت گاہوں تک پہنچ گئی۔ بانو آپا نے کھل کر گفتگو کی۔ کہنے لگیں علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اپنے رنگ ڈھنگ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

یہ بولیں تو ان کی تربیت بھی بولتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے ہیں لیکن تربیتی ادارے نہیں ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں کو تربیت گاہوں میں تبدیل کر کے سماجی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا بڑا اچھا لگا، مجھے ہی نہیں بھارت سے آئے ہوئے مہمان سید حامد کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments