سول بالادستی کا سہانا خواب اور تاریخ کا کڑوا سچ


اگرچہ اس وقت ملک کا سب سے اہم مسئلہ گہری کھائی میں گر چکی معیشت ہے۔ اور شاید اس سے بھی بڑا مسئلہ دہشتگردی کا پھن لہراتا ہوا زہریلا سانپ ہے جو اک دفع پھر بے قابو ہو نے کو ہے۔ لیکن ان سب مسائل کو جنہوں نے حل کرنا ہے وہ اپنی پوری توانائیاں عوام کو بے وقوف بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔ ایک طرف پی ٹی آئی ہے جو اپنی حکومت کی برطرفی پر طاقتور اداروں سے ناراض ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت ہے جو اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ پر عمران خان کی سابقہ حکومت کی حمایت کا الزام دہرائے جا رہی ہے۔ چودہ جماعتوں کی سیاسی قیادت کے پاس عوام کو یہ بتانے کے سوا کچھ نہیں کہ ”پراجیکٹ عمران خان“ نے جس کا کل دورانیہ ہی ساڑھے تین سال تھا پچھلے ستر برس کی ”بے مثال معاشی ترقی“ پر پانی پھیر دیا ہے۔

تاثر یہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے کسی کے سر پر ہاتھ رکھا ہو اور جیسے اس سے پہلے تمام حکومتیں خالص جمہوری عمل کے نتیجے میں برسراقتدار آتی رہی ہوں۔ لیکن عوام کو مغالطے میں رکھنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ کوئی بھی ذی شعور شہری تاریخ پراک سرسری سی نظر ڈالتے ہی اس مغالطے سے فوراً نکل آتا ہے۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد محض چھ سال کے مختصر عرصے میں خواجہ ناظم الدین سے لے کر سر فیروز خان نون تک بالترتیب سات وزرا اعظم مسند حکومت پر براجمان ہوئے اور پھر رخصت کر دیے گئے۔ چلیں اس ابتدائی دور کو عبوری عرصہ مان لیتے ہیں۔ جمہوری ڈھانچہ تشکیل کے ابتدائی مراحل میں تھا اور عام انتخابات کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا۔ لیکن بعد ازاں 1973 کے آئین کے تحت باقاعدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والے وزرا اعظم کے احوال کا بھی جائزہ لیا جائے تو حقیقت آپ سے آپ واضح ہو جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں محمد نواز شریف تک الیکشن کے پیچھے سلیکشن کا کھیل صاف نظر آتا ہے۔ مقتدر قوتوں کی سرپرستی اور جوابی تابعداری دراصل وہ تاریخی حقیقت ہے جسے ماضی کے آئینے میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

قائد جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے میدان میں آمد کیسے ہوئی اس کو بھٹو خاندان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایک قدرے غیر معروف جاگیردار سے ملک کے وزیرخارجہ تک کے سفر کو کسی بھی طرح ان کے سیاسی سفرنامے سے حذف نہیں کیا جا سکتا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل فیلڈ مارشل ایوب خان کی تابعداری لاکھ کوشش کے باوجود بھلائی نہیں جا سکتی۔ 1970 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات مان بھی لیے جائیں تب بھی جنرل محمد یحییٰ خان کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کی واضح برتری کو نہ ماننا کسی صورت جمہوری عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہ تلخ تاریخی حقیقت بھی بھلائی نہیں جا سکتی کہ اس غیر جمہوری ضد کا خمیازہ ہمیں ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا۔ جنرل محمد ضیا الحق کی نا انصافیاں قابل مذمت اور بھٹو صاحب کی پھانسی بالکل ناجائز لیکن معذرت کے ساتھ کیا ان مظالم کی بنیاد پر ماضی کی غیر جمہوری روایت کو جھٹلایا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

بدقسمتی سے شخصیات بدلتی رہیں لیکن روایات برقرار رہیں۔ انھی غیر جمہوری روایات کے تسلسل کے لیے ایک کے بعد ایک نئے چہرے کی رونمائی ہوتی رہی اور جمہوریت کا کھیل جاری رہا۔ پیر صاحب پگارا کے مرید خاص محمد خان جونیجو کو تو آسانی سے سلیکٹڈ وزیراعظم مان لیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی وارث دفاع کے لیے موجود نہیں لیکن میاں محمد نواز شریف کو کیا کہا جائے کہ جن کا سیاسی ظہور ہی مارشل لاء کی گود میں ہوا اور پھر انہوں نے سلیکٹڈ جمہوریت کے میدان میں تابعداری کی وہ لازوال مثالیں قائم کیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انھوں نے محترمہ بینظیر کی کردارکشی کے لیے وہ گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کیے کہ ان کو دہرانا کسی شریف النفس کو زیب نہیں دیتا۔

چلیں پرانی باتیں چھوڑ دیتے ہیں کہ انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے اور توبہ کا دروازہ تو قدرت بھی بند نہیں کرتی۔ مان لیتے ہیں کہ انھوں نے حقیقی جمہوریت کی جانب رجوع کر لیا ہو گا اور یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ میثاق جمہوریت دونوں بڑی پارٹیوں کا ناقابل فراموش جمہوری کارنامہ ہے۔ لیکن اس تجدید عہد وفا کے بعد جو کچھ انھوں نے سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کیا اسے کس کھاتے میں ڈالا جائے۔ اس لانگ مارچ کو کیسے فراموش کریں جب شیر ماڈل ٹاؤن سے دھاڑتا ہوا نکلا تھا اور اٹک پل پر ایک مقتدر ہستی کی فون کال پر فتح کے شادیانے بجائے گئے تھے۔ اس کالے کوٹ کو کیسے بھول جائیں جسے پہن کر وہ جمہوریت کے خلاف مقدمہ لڑنے بنفس نفیس عدالت پہنچے تھے۔ ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے منتخب جمہوری وزیر اعظم کی برطرفی پر بھنگڑوں کے مناظر ابھی تک عوام کی یاداشت سے محو نہیں ہو سکے۔

ہمیں یہ کہانی پسند آئے یا نہ آئے لیکن ہم حقیقت سے آنکھیں چرا نہیں سکتے۔ اب بھی چہرے بدلے ہیں روایات نہیں بدلیں۔ انہیں دھاندلی زدہ اسمبلیوں میں اسی سلیکٹڈ حکومت کے سابقہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر برسراقتدار آجانا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ روایت بدلنے کے لیے ہرگز نہیں تھا۔ یہ تو پرانے چہروں ”کی جانب سے“ نیا چہرہ ”لانے پر خفگی کا اک اظہار دلبرانہ تھا۔

حقیقی جمہوریت اور سول بالادستی کا نعرہ دلکش مگر پہلے عوام کو یہ یقین دلانا پڑے گا کہ ان پرکشش نعروں کے پیچھے ذاتی مقاصد کارفرما نہیں ہیں۔ اور یہ یقین تب آ سکتا ہے جب سیاسی جماعتیں خود پہلے جمہوری عمل تطہیر سے گزر کر جمہوری اقدار سے وفاداری کا ثبوت دیں۔ سیاسی قائدین ہمت کر کے ماضی کی تمام غلطیوں کا کھل کر اعتراف کریں اور سیاسی مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر قوم سے پورا سچ بولیں۔ اب یہ چال کارگر نہیں ہو سکتی کہ سلیکشن ہماری ہو تو وہ عین جمہوریت ہے اور اگر کسی دوسرے کی ہو تو پھروہ جمہوریت دشمنی ٹھہرے گی۔

جمہوریت بلاشبہ ایک خوبصورت تصور حکومت ہے لیکن حقیقی جمہوریت کا خواب ایک نام نہاد انقلابی طرز کی شعبدہ بازی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ مقصد ایک ارتقائی عمل کے ذریعے بتدریج حاصل ہو گا۔ اس کے لیے ایک مسلسل اصلاحی عمل کی ضرورت ہے جو صبر و تحمل اور پرخلوص ایثار کے جذبے کے ساتھ روپذیر ہو۔ اگر سیاسی قیادت دیانتداری کے ساتھ سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرے اور اپنی اہلیت کو ثابت کرے تو مقتدر قوتوں کو بھی شاید آئینی دائرہ کار میں واپس جانے میں کوئی تامل نہ ہو۔

یہ ممکن نہیں کہ ایک صبح ہم جاگیں اور برطانیہ جیسی جمہوریت پاکستان میں نافذ ہو چکی ہو۔ اگر سیاستدان چاہتے ہیں کہ طاقت کے ڈھانچے میں ان کو وہی معتبر مقام حاصل ہو جو آج کی جدید ریاستوں میں سول حکومتوں کو حاصل ہوتا ہے تو انہیں پہلے اپنی اہلیت ثابت کرنا ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کرپٹ عناصر کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں اور کرپشن پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہوں۔ سیاسی خانوادوں کی جگہ سیاسی پارٹیاں تشکیل دیں۔

پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت کو متعارف کروائیں اور موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی کریں۔ خالص جمہوری عمل کے نتیجے میں نوجوان قیادت کو سامنے آنے کا موقع دیں۔ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر انتخابات کو شفاف اور غیر متنازعہ بنانے پر اتفاق کریں۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر ایسی انتخابی اصلاحات نافذ کریں کہ کم از کم انتخابی عمل کی حد تک تو ہماری جمہوریت سرخرو ہو سکے۔ صرف اسی صورت میں ہم سول بالادستی کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments