قادیانی عبادت گاہ کے مینار اور بے بنیاد پروپیگنڈا


کراچی میں پریڈی اسٹریٹ صدر کے علاقے میں موبائل مارکیٹ کے پاس قادیانی عبادت گاہ کے میناروں کو مسمار کرنے پر سوشل میڈیا پر مذہبی جنونیت، اشتعال انگیزی کا ڈھنڈورا پیٹ کر قادیانیوں کے قانونی و آئینی حقوق کی پامالی و استحصال کا ایک عام تاثر دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے علاوہ کچھ اور فورمز پر بھی اس قسم کے مضامین پڑھنے کو ملے جن کی وجہ غالباً حقائق سے لاعلمی ہے۔ اسی بنیاد پر 06 فروری 2023 ء کو ”احمدی عبادت گاہوں پر منظم حملے اور ہماری بے حس خاموشی“ کے عنوان سے ”پاکستان مسلمانوں“ کے معاشرے کو انسانی معاشرے کی بجائے جانوروں کے ریوڑ سے تشبیہ دی ہے بلکہ وحشی اور خونخوار بھی کہہ دیا ہے۔

اس سے کہیں بڑھ کر ”کیا پاکستان میں احمدیوں کو ختنے کرنا جائز ہے؟“ کے عنوان سے ہرزہ سرائی کی ہے۔ موصوف کا کہنا ہے : ”ان (احمدیوں ) پر ہر اُس عمل پر پابندی عائد کی جا رہی ہے جو عمل اسلام اور سنت میں شامل ہو۔ جیسا کہ احمدی احباب مسلمانوں کی طرح اپنی عبادت نہیں کر سکتے۔ اپنی عبادت گاہوں پر مینار نہیں رکھ سکتے۔ وغیرہ وغیرہ کیوں کہ اس کی وجہ سے پاکستانی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ جن“ پاکستانی مسلمانوں ”کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو پھر وہ کچھ نہیں دیکھتے اور جلاؤ گھیراؤ اور مار پیٹ پر اتر آتے ہیں جیسا کہ انھوں نے احمدی عبادت گاہوں کے میناروں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا اور پھر وہاں جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیا۔ ان جذبات کو روکنے کے لیے پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی فورسز بھی ناکام رہی۔“ اور آخر میں نکاح سے قبل ختم نبوت پر حلف لینے سے متعلق قانون پر طنز کرتے ہوئے جہل مرکب کا عملی ثبوت کچھ یوں دیا ہے : ”اگر حکومت پاکستان کی طرف سے آئندہ دنوں ایک نیا قانون متعارف کروایا جاتا ہے جس میں احمدیوں کے ختنے کروانے کی بھی پابندی عائد ہو جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لاکھوں پاکستانی احمدیوں کے ختنے ہو چکے ہیں تو ان کے عضو تناسل کو واپس کافروں والا کیسے کیا جائے گا؟“

اس قسم کی گمراہ کن اور واہیات تحاریر کا مقصد ناموسِ ختم نبوت کے مسئلے سے اہل اسلام کی توجہ کو ہٹانا ہی ہو سکتا ہے۔ اب ہم اصل حقائق کی طرف آتے ہیں۔ مینار گرانے تک کا سفر ایک قانونی راستے سے مکمل کیا گیا ہے اور اس قانون کے بننے کا سفر بھی اپنی ایک پرامن جمہوری و سیاسی تاریخ رکھتا ہے۔ آئیے! اب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ شعائرِ اسلام کے استعمال یعنی ان میناروں کے حوالے سے 11 اگست 2022 ء کو تھانہ پریڈی اسٹریٹ میں عبدالقادر کی مدعیت میں ایک درخواست جمع کرائی گئی۔ سندھ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں زیر دفعہ 22۔ A سی آر پی سی درخواست نمبر 21۔ 86۔ 2022 ڈسٹرکٹ سیشن جج ساؤتھ میں جمع کرائی جس میں مدعا علیہان ایس ایچ او تھانہ پریڈی اسٹریٹ، ایس ایس پی ساؤتھ کراچی اور ڈی سی او ساؤتھ تھے۔ اس کے ضمن میں 29 ستمبر 2022 ء کو عدالت عالیہ کے احکامات کی روشنی میں مذکورہ ایس ایچ او نے ایف آئی آر نمبر 913۔ 2022 زیر دفعات 298۔ B اور 298۔ C/ 34 پاکستان پینل کے تحت درج کر لی۔ قادیانیوں نے اس مقدمہ کو سندھ ہائی کورٹ میں کریمنل درخواست 2022۔ 566 کے ذریعے چیلنج کیا جس پر جج صاحب نے 30 ستمبر 2022 ء کو مذکورہ آرڈر کو عارضی طور پر معطل کر کے 06 اکتوبر 2022 ء کی سماعت مقرر کی جس میں پولیس انکوائریز اور فریقین کے بیانات کی روشنی میں جسٹس آفتاب احمد گودڑ نے اس درخواست ( 2022۔ 566 ) کو خارج کر دیا۔ 07 اکتوبر 2022 ء کو قادیانیوں نے ایک اور آئینی درخواست پٹیشن نمبر 2022 / 6082 ڈویژن بینچ میں داخل کردی جس کو عدالتی کروائی کے بعد یکم نومبر 2022 ء کو خارج کر دیا گیا۔

اس تمام تر پولیس انکوائری اور قانون و آئینی عدالتی کارروائی کے بعد پولیس نے مجسٹریٹ کی کورٹ نمبر 25 ساؤتھ میں مع تمام ثبوت، تصاویر و کوائف کے چالان داخل کر دیا۔ قبل از گرفتاری عبوری ضمانت کے لیے عدالت میں درخواست نمبر 2022۔ 1979 داخل کرائی جس میں پہلے کی طرح موقف اختیار کیا کہ مذکورہ ایف آئی آر جھوٹ پر مبنی ہے اور ساتھ مذکورہ عبادت گاہ کی الاٹ منٹ کی کاپی بھی لگائی۔ جس سے متعلق حقائق کو جان کر آپ ہمیشہ سے جعل سازی پر یقین رکھنے والے اس گروہ کا مکروہ چہرہ شناخت کرسکیں گے جنھیں آخر میں گوش گزار کروں گا۔ مسلمانوں کے وکیل منظور احمد میو راجپوت نے پاکستان کے آئین، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کے اقتباسات اور حوالہ جات سے بحث کی اور اس الاٹمنٹ کا تمام تر حقیقت بھی آشکار کر دی۔ عدالتی کارروائی کے بعد 18 جنوری 2023 ء کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد سلیم جیسر نے قادیانیوں کی ضمانتیں خارج کر کے ان پر فردِ جرم عائد کر دی۔

ایک عام فہم آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ جن لوگوں پر مذہبی جنونیت اور درندگی کا الزام لگا یا جا رہا ہے کیا انھوں نے قادیانی عبادت گاہ کے میناروں کو اس قانونی و آئینی جدوجہد کے بغیر گرایا ہے؟ جناب! تحریک ختم نبوت ایک سیاسی، جمہوری، قانونی اور آئینی جدوجہد کا نام ہے۔ شاید آپ سیکریٹری دفاع سکندر مرزا کے فرعونی آرڈر کو بھول رہے ہیں : ”مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ کوئی ہنگامہ ختم کر دیا گیا ہے بلکہ مجھے یہ بتایا جائے کہ وہاں کتنی لاشیں گرائی گئی ہیں۔“

1953 ء فروری ہی کا مہینہ تھا مجاہدین ختم نبوت رضاکارانہ گرفتاریاں دے رہے تھے۔ گرفتاریوں، لاٹھی چارج اور شیلنگ ہی پر بس نہ کیا 05 فروری 1953 ء کو 2 پولیس افسران نے گوالمنڈی لاہور میں لاتعداد لوگوں کو مسلسل فائرنگ سے شہید کر دیا۔ شہدائے ختم نبوت یعنی ”پاکستانی مسلمانوں“ کو ٹرکوں میں لاد کر چھانگا مانگا کے جنگل میں اجتماعی قبروں میں ڈال کر تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی۔ کیا یہ لوگ وحشی و خونخوار نہ تھے۔ 03 مارچ کو قادیانی نواز امریکی کٹھ پتلی حکومت کے ایما پر لاہور میں فوج آن پہنچی اور نہتے ”پاکستانی مسلمانوں“ کے سینوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ 06 مارچ 1953 ء کو لاہور میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ زہرہ نگار کا مصرعہ تک ذہن میں نہ لایا گیا کہ ”سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے“ اور جمہوری حق یعنی جمہوری طرز پر احتجاج کرنے پر دس ہزار 10000 نہتے معصوم ”پاکستانی مسلمانوں“ کو خون میں نہلا دیا گیا۔ ہزاروں بے گناہوں کو شاہی قلعہ اور جیلوں میں ڈال کر پولیس کے وحشی درندوں کے سامنے ڈال دیا گیا۔

کیا یہ مذہبی جنونیت نہیں تھی کہ قادیانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان مئی 1952 ء کو کراچی میں ایک مذہبی اجتماع میں قادیانیت کو خدا کا لگایا ہوا پودا اور اسلام کو سوکھا ہوا درخت کہتا ہے؟ قادیانی فرقان بٹالین نے 1965 ء کی جنگ میں کیا کارنامہ سرانجام دیا تھا؟ جنرل اختر ملک قادیانی نے پاک فوج پر کیا داغ لگائے تھے؟ مملکتِ خدا داد کے ایٹمی راز امریکہ و برطانیہ کی جھولی میں کس نے ڈالے تھے؟ کیا یہ سب مذہبی منافرت و جنونیت نہ تھی؟ پاکستانی مسلمان قانونی و آئینی جد و جہد پر یقین رکھتے تھے اور رکھتے ہیں، آج بھی پولیس اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور جب کبھی ناموس ِ رسالت یا شعائر اسلام کی توہین کی گئی تو عدالتوں ہی کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ لیکن کیا مذکورہ بالا خونی داستان کا آپ کے پاس کوئی جواز ہے؟ اگر ہے تو بتائیے! سر ظفراللہ خان کے دور میں پاکستان کی جانب دارانہ خارجہ پالیسی اور نتیجتاً امریکی غلامی، سیٹو اور سینٹو جیسے رسوائے زمانہ معاہدے اور پاکستان ایمبیسیز کا قادیانیت کی تبلیغ کرنا کس قانون کے تحت تھا؟

پاکستان میں ہندو، سکھ اور عیسائی بھی آباد ہیں جن کی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ عیسائیوں کو 01 سال کا مشنری ویزہ دیا جاتا ہے۔ سکھ یاتریوں کو ہر قسم کی سہولیات دی گئی ہیں، کرتار پور راہ داری جس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح باقی اقلیتی مذاہب کے پیرو کاروں کو بھی تمام حقوق حاصل ہیں۔ یہاں لاہور جیسے شہر میں عیسائیوں کی رہائشی سوسائٹیاں موجود ہیں۔ لیکن قادیانی روزِ اول سے تشدد و مذہبی جنونیت ہی پر یقین رکھتے ہیں۔ ملکی سالمیت و وفاداری اور ملک کے قانون و آئین کا احترام ان کی جبلت میں داخل ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہ خود کو اقلیت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اس صور حال میں بھی ریاست کے آئینی ادارے ان کو قانونی جد و جہد کا موقع فراہم کرتے ہیں اور پاکستانی مسلمان بھی ان سے قانونی کشا کش سے ہی لڑتے ہیں۔

ان ہم مذکورہ بالا لیز الاٹمنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اس الاٹمنٹ ڈاکیومنٹ کی تاریخ 01 اگست 1863 ء ہے اور یہ ”احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن“ کے نام پر ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی 1835 ء میں پیدا ہوئے، 1864 ء سے 1868 ء تک سیالکوٹ کچہری میں چپڑاسی تھے اور جب کہ انھوں نے قادیانی جماعت کی بنیاد 1889 ء میں رکھی۔ لہٰذا یہ ڈاکیومنٹ جعلی ہے۔ یہ جگہ دوبارہ 1962 ء میں ایسوسی ایشن سے ایک فرد ایس عبدالخالق کے نام پر لیز ہوئی۔ بتائیں ایک جماعت کا پراپرٹی لیز ایک فرد کے نام ٹرانسفر کیسے ہوا؟ محض جعل سازی ہے۔

حوالہ جات:

In 1889, he took a pledge of allegiance from forty of his supporters at Ludhiana and formed a community of followers upon what he claimed was divine instruction.

[Wikipedia]
The Ahmadyyia religious group was founded in 1889 by Prophet Mirza Ghulam Ahmad.

[Petren G., H. Cull, J. McBride and D. Ravindran, (Geneva: Lawyers Committee for Human Rights, 1986) p. 103]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments