حیرت بھری آنکھ میں چین


کتابیں پڑھنے کی چاٹ تو بہت بچپن ہی سے تھی۔ 80 کی دہائی کے اوائل میں سلمیٰ اعوان کا یہ میرا بلتستان اور میرا گلگت و ہنزہ پڑھا۔ دل میں انگڑائیاں اٹھتی رہیں کہ اڑ کر ہنزہ وادی چلی جاؤں۔ ایک دن کسی دکان سے ”تنہا“ خرید لائی بس اسے پڑھتے ہوئے خواہش پیدا ہوئی کہ رائٹر سے ملنا ہے۔ اس تمنا کو پورے ہونے میں بھی دس سال لگے۔ برسوں بعد دوبارہ ”تنہا“ پڑھنا شروع کیا تو اندر کے صفحے پر لکھے ایڈریس پر ملنے پہنچ گئی۔

رستے بھر دعائیں مانگتی رہی کہ وہ مل جائیں۔ گھر کے اندر داخل ہوئی تو ایک بڑا سادا لان تھا۔ اب یاد نہیں کس سے پوچھا کہ سلمیٰ اعوان یہاں رہتی ہیں۔ کہا ”جی! یہ سیڑھیاں اوپر چڑھ کر چلی جائیں۔“ دھوپ ساری ڈھل رہی تھی۔ میں اوپر پہنچی تو باورچی خانے میں کوئی خاتون کھانا بنا رہی تھیں۔ میں نے پوچھا سلمیٰ اعوان سے ملنا ہے۔ وہ بولیں جی میں ہی ہوں۔ میری آنکھیں خوشی و حیرانی سے پھیل گئیں۔ مجھے لگتا تھا اتنی بڑی رائٹر تو گھر کا کوئی کام وام کرتی نہیں ہوں گی۔

سلمیٰ آپا جس محبت سے ملیں اس کی گرمائش آج بھی میرے دل کو لو دیتی ہے۔ بس وہ دن اور آج کا دن ایک ماں جیسی چھتر چھایا ہیں وہ میرے لیے۔ میں سلمیٰ آپا کو عورتوں کا مستنصر حسین تارڑ کہتی ہوں تو خوب ہنستی ہیں۔ میرے اندر بھی ایک سیلانی روح بھٹکتی رہتی ہے۔ سلمیٰ اعوان کے سفر نامے پڑھنے والے کو مانو جیسے کھلی آنکھوں سے دیس دیس کی سیر انگلی تھام کے کروائے چلے جاتے ہیں۔ چند دن پہلے ان کے چین کے سفر نامے کا چرچا ہو رہا تھا۔

میں چونکہ کتابیں خود خریدتی ہوں سوچا کہ بک کارنر سے کتاب منگواؤں اتنے میں میرا چوکیدار ہاتھ میں ایک کتاب پکڑے لاؤنج میں آیا اور بولا کہ ”سلمیٰ باجی نے یہ کتاب بھیجی ہے۔“ حیرت بھری آنکھ میں چین ”کا پہلا صفحہ کھولا تو “ محبت سے پیاری مریم ارشد کے لیے سلمیٰ اعوان ”پڑھ کر دل کھل اٹھا۔ جب دل میں چھپی خواہش اچانک پوری ہو جائے تو آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔ کتاب کھلتی ہے تو چینی شاعری پر مشتمل چھوٹی چھوٹی نظمیں حوصلوں کو اڑنے کے لیے پنکھ دیتی ہیں۔

اسی صفحے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلمیٰ آپا کسی بھی ملک کی سیر سے پہلے اس ملک کے شاعروں، لکھاریوں، مؤرخوں، فنکاروں پر چھان پھٹک سے تحقیق کر کے لکھتی ہیں۔ اٹلی وہ تنہا ہی چلی گئیں۔ اللہ اللہ! اتنی دلیری تو ہم کبھی نوجوانی میں بھی نہ دکھا سکیں۔ ان کی سب کتابوں میں حساب کتاب اور خجل خواری کے چٹکلے بھی ساتھ ساتھ پڑھنے کو ملتے تھے۔ لیکن چین کا سفر نامہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اکلوتی بیٹی اور داماد نے کتنے لاڈوں اور محبت سے ماں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

چین پہنچتے ہی پہلی بسم اللہ بیجنگ سے ہوئی جہاں کوئی بھک منگا نہیں تھا۔ سڑکوں کے کنارے بنے سائیکل سٹینڈ مو جود ہیں جسے جہاں جانا ہے وہاں سے سائیکل لے اور اگلی جگہ پہنچ کر سائیکل وہیں چھوڑ دے۔ سلمیٰ آپا سب سے پہلے چینی ثقافت کے ICON“ دیوار چین ”کو دیکھنے پہنچیں۔ بے ڈھنگی بڑے بڑے پتھروں والی سیڑھیوں پر قدم رکھتی اوپر کی طرف چلتی چلی جا رہی تھیں جہاں چمکتے دمکتے، رنگ رنگیلے آرٹ کے شاہکاروں سے سجا ہوا پگوڈا تھا۔

رنگوں کی پچی کاریاں، دیواریں، چھت، گلیارے اور ستون سب آرٹ کے ہیروں سے سجے سنورے چینی ثقافت کی بھر پور نمائندگی کر رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر انہیں محسوس ہوا گویا ہاتھ بڑھا کر آسمان کو چھو لیں گی۔ دیوار چین چینیوں کی ثقافتی زندگی کی علامت اور چینیوں کے عزم و حوصلے کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ چینی بڑی پوسٹ پر بھی سادگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر تھانگ منگ شنگ سے ملنے گئیں تو حیران رہ گئیں کہ اکیسویں گریڈ کے افسر کے کمرے میں صرف ایک کمپیوٹر، پرنٹر اور ریسرچ پیپر تھے۔

اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ 80 کی دہائی میں 240 ڈالر فی کس آمدنی ایک پاکستانی کی ہوتی تھی اور چینی کی 40 فی کس۔ آج پاکستانی فی کس 1600 اور چینی کی 4000 ڈالر۔ 1960 میں کراچی جیسے شہر کو دیکھ کر چینی حسرت سے کہتے تھے کہ کاش ایسا ایک شہر ہمارے پاس بھی ہو۔ یہ ساری باتیں انہیں ڈاکٹر تھانگ نے بتائیں۔ ازلی محب وطن سلمیٰ اعوان اپنے وطن کی تنزلی کا سوال کیسے نہ کرتیں؟ پوچھا۔ جواب یوں تھا کہ آپ کی قوم ذہین ضرور ہے مگر پتہ مار کر کام کرنے کی عادی نہیں۔

چھوٹے راستوں کے ذریعے راتوں رات امیر بننا چاہتی ہے۔ سیاسی استحکام نہیں۔ مخلص اور ایماندارانہ لیڈر شپ کا بھی بحران رہا۔ کچھ کرشماتی لیڈر ملے مگر سازشوں سے ان کی بساط لپیٹ دی گئی۔ سلمیٰ آپا کے سفر ناموں میں وہاں کی تہذیب و تمدن کی تاریخ پر تحقیق بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ چین کی ترقی دیکھ کر چپکے سے ان کے گالوں پر آنسو بھی ٹپک پڑتے ہیں اور وہ خود سے کہتی ہیں کہ کم و بیش دو سال کے فرق سے ایک ساتھ آزاد ہونے والے دونوں ملکوں میں ایک آسمان کی بلندیوں کو چھونے کو تیار اور دوسرا پا تال میں گرنے کو ۔

ٹیرا کوٹہ میوزیم اور عظیم شہر سپاہ جیسا قابل فخر آٹھواں عجوبہ بھی دیکھا۔ سلمیٰ اعوان نے چینی قوم کی تہذیب کی جنم بھومی شی آن جو ایران، عرب اور وسطی ایشیا کا طلبا کا مرکز علم تھا، وہ بھی دیکھا۔ پرانے بیجنگ کی فوڈ سٹریٹ کی آرائش و زیبائش سے بھی اپنی آنکھوں کو طراوت بخشی۔ ماؤ کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ ساتھ یہ کتاب حیرت انگیز طور پر ماؤ کے منفی پہلوؤں سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ چین کے انقلابی اور مسٹی شاعروں کا ذکر بھی اس کتاب میں نظموں سمیت موجود ہے۔ سلمیٰ اعوان کا یہ منفرد سفر نامہ ہمارے ملک کے یار غار کے بارے میں معلوماتی کتاب ہے۔ اس پہ دستک دیجیے۔ چین آپ کے ہمراہ ہو گا۔ سلمیٰ اعوان سلامت رہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments