کیا آپ میاں احسان کو جانتے ہیں؟


6اگست 2007 کو ممبئی سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار انڈیا ٹائمز میں یہ خبر شہ سرخی سے شائع ہوئی کہ پاکستان کے شہر کراچی میں ایک دن پہلے یعنی اتوار، 5 اگست کی دوپہر میاں احسان الحق حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 92 سال تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ خبر پاکستان کے کسی اخبار نے شائع نہیں کی اور نہ ہی پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پراس کا کوئی ذکر ہوا۔ اس خبر میں میاں احسان الحق کی ناسازی طبع کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ وہ کئی دن سے جسم میں پانی کی کمی کا شکار تھے اور ان کو اتوار کی صبح ہی اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا لیکن وہ چند گھنٹے بعد ہی دنیا سے چل بسے۔

آخر یہ احسان الحق کون تھے؟ اور ان کی شخصیت میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ ہندوستان کے اخبارات نے تو ان کے انتقال کی خبر کو بڑی اہمیت دی لیکن پاکستان میں اس کا کوئی ذکر تک نہ ہوا۔

میاں احسان پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکٹ تھے۔ ان کے والد محمد سلیمان تقسیم ہند سے پہلے دہلی میونسپل کارپوریشن کے چیف انجینئر تھے۔ ان کے والد کو برٹش سرکار کی طرف سے خان بہادر کا خطاب اور آرڈر آف دا برٹش ایمپائر (E۔ B۔ O) کا میڈل بھی مل چکا تھا۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بیٹے میاں احسان بچپن میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہوں گے۔ میاں احسان نے ابتدائی تعلیم دہلی میں کانوینٹ اسکول سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔

ہندوستان واپس آ کر انہوں نے کاروبار کے سلسلے میں بمبئی کا رخ کیا۔ وہاں جاکر وہ فلمی دنیا سے منسلک ہو گئے اور انہوں نے ایک فلمساز ادارہ تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کر لیا۔ اس ادارے نے پہلی فلم ”اجالا“ کے نام سے بنانا شروع کی جس کی ہیروئن اس وقت کی حسین ترین اداکارہ تھیں۔ بدقسمتی سے یہ فلم پردہ سیمیں کی زینت بننے کے فوراً بعد ناکام ہو گئی۔ احسان صاحب کو بہت زبردست مالی نقصان ہوا اور انہیں اپنی فلم کمپنی کو بند ہی کرنا پڑا۔

تا ہم، اس کاروبار کے دوران وہ اپنا دل فلم کی ہیروئن کو دے بیٹھے۔ حسن اتفاق تھا کہ احسان صاحب کے لیے فلم کی ہیروئن اجنبی نہیں تھیں۔ یہ دونوں دہلی کے کانوینٹ اسکول میں ہم جماعت رہ چکے تھے اور ان کے بزرگوں کے آپس میں مراسم بھی تھے۔ لیکن جب احسان صاحب نے اپنے خاندان میں اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ان کی والدہ اور بہنوں نے اس شادی کی سخت مخالفت کی۔ میاں احسان اپنی بات پر اڑے رہے۔ خوش قسمتی سے احسان صاحب کے والد خان بہادر محمد سلمان صاحب کو اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں تھا اس لیے 1938 میں ان دونوں کی شادی عمل میں آ گئی۔

شادی کے بعد ان دونوں نے بمبئی کی فلمی دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میاں احسان نے اپنے کاروبار کو سمیٹا، ان کی نئی نویلی دلہن نے آئندہ فلموں میں کام نہ کرنے کا اعلان کر دیا اور دونوں اپنے آبائی شہر دہلی لوٹ گئے۔ تقریباً چار سال بعد 1942 میں ایک دن میاں احسان کے پرانے دوست، کاروباری شراکت دار اور اس زمانے کے مشہور پروڈیوسر ایس مکر جی ان سے ملنے کے لیے دہلی تشریف لائے۔ انہوں نے میاں احسان سے یہ درخواست کی کہ وہ اپنی بیگم کو دوبارہ فلموں میں کام کرنے کی اجازت دے دیں اور خود بھی بمبئی منتقل ہوجائیں کیونکہ فلمسازی کے کاروبار کے لیے وہاں حالات نہایت ساز گار ہیں۔

میاں احسان نے پہلے تو صاف انکار کر دیا، لیکن پھر نہ جانے کیوں رضامند ہو گئے اور اپنی بیگم کے ساتھ دوبارہ بمبئی پہنچ گئے۔ بمبئی پہنچ کر میاں احسان کی بیگم نے ایس مکرجی کی فلم ”چل چل رے نوجوان“ کی شوٹنگ میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے یہ فلم بھی ناکام ثابت ہوئی۔ البتہ میاں احسان نے اس دوران اپنی فلم کمپنی تاج محل پکچرز کو دوبارہ فعال کر لیا۔ اور اس کمپنی نے 1945 سے لے کر 1947 تک دو فلمیں ”ملاقات“ اور ”بیگم“ کے نام سے بنائیں۔ میاں احسان اس وقت تک دو بچوں کے والد بھی بن گئے تھے۔

1947 میں ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ایک نیا ملک پاکستان وجود میں آ گیا۔ بدقسمتی سے میاں احسان کا اپنا خاندان بھی دوسرے سینکڑوں خاندانوں کی طرح تقسیم کا شکار ہو گیا۔ قیام پاکستان کے فورا ”بعد دونوں ملکوں کے درمیان جبری اور فطری ہجرتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے میاں احسان پیدائشی مسلم لیگی تھے۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں بھی وہ مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ دہلی کی مسلم لیگ میں عہدیدار بھی رہے۔

پاکستان ان کے خوابوں کی تعبیر تھا اس لیے انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن ان کی بیوی کسی طور پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ دوسری طرف میاں احسان بھی اپنے فیصلے میں اٹل تھے۔ اس خاندانی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ میاں احسان نے اکیلے ہی پاکستان ہجرت کرنے کی ٹھان لی اور اپنے خوابوں کے وطن کی خاطر اپنے ذاتی بنے بنائے گھر کو تج کر ، پاکستان کے شہر لاہور کوچ کر گئے۔

لاہور پہنچ کر میاں احسان نے ایک ہوٹل کی عمارت جس کا نام امپیریل ہوٹل تھا، خرید لی۔ کچھ عرصے بعد اس ہوٹل کی عمارت کو گرا کر اس جگہ پر ایک جدید سینما تعمیر کیا جس کا نام انگولا سینما رکھا۔ میاں احسان پاکستان میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔ پاکستان میں انہوں نے کئی فلمیں بنائیں جن میں سب سے مشہور فلم“ وعدہ ”تھی۔ اس کے علاوہ گلنار، محل، شام ڈھلے، اور مکھڑا نامی فلمیں بھی بنائیں۔ مکھڑا 1958 میں ریلیز ہوئی اور بہت کامیاب رہی۔

میاں احسان چاہتے تھے کہ ان کی فلم گلنار میں ان کی بیگم کام کریں اور کسی طرح انہوں نے ان کو رضامند بھی کر لیا۔ وہ پاکستان آنے کو تیار بھی ہو گئیں لیکن جب وہ اپنے قیمتی زیورات سے لدی پھندی پاکستان آنے کے لیے ہندوستان کی سرحد پر پہنچیں تو ہندوستانی کسٹم حکام نے ان کو مطلع کیا کہ وہ اپنے قیمتی زیورات پاکستان نہیں لے جا سکتیں۔ نتیجتا انہوں نے پاکستان آنے کا ارادہ ترک کر دیا اور واپس بمبئی لوٹ گئیں۔

میاں احسان ایک زیرک کاروباری شخصیت تھے ان کا کاروبار پاکستان کے دونوں بازوؤں یعنی مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور کے گردونواح میں بھی انہوں نے کافی زمینی جائیداد خرید لی، مزید یہ کہ جیل روڈ پر ایک وسیع کوٹھی خرید کر اس میں رہائش اختیار کرلی۔ اپنے دیگر کاروبار کے علاوہ انہوں نے پاکستان میں بھی فلمیں پر ڈیوس کرنا شروع کر دیں لیکن وہ یہاں کے اداکاروں کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویوں سے کافی دلبرداشتہ ہو گئے۔

ایک دن تو حد یہ ہو گئی کہ میاں احسان جب فلم کی شوٹنگ پر پہنچے تو دیکھا کہ فلم کی شوٹنگ رکی ہوئی ہے فلم کا اسٹاف تو موجود ہے لیکن فلم کی ہیروئن غائب تھیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ہیروئن تیار نہیں ہیں اور میک اپ روم میں اپنا میک اپ کروا رہی ہیں۔ میاں احسان میک اپ روم میں گئے تو دیکھا فلم کی ہیروئن میک اپ سے بے نیاز گپ شپ کر رہی ہیں، میاں احسان نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے بمبئی میں تو ایسا نہیں ہوتا میں نے وہاں بھی فلمیں بنائی ہیں۔ فلم کی ہیروئن نے کہا یہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ میاں احسان کو فلم کی ہیروئن کا یہ رویہ سخت ناگوار گزرا انہوں نے اسی وقت فلم کے تمام نیگیٹو جلانے کا حکم دے دیا حالانکہ فلم آدھی سے زیادہ بن چکی تھی۔

اس کے بعد انہوں نے پاکستان میں فلمسازی کرنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا۔ لیکن ان کا پاکستان سے رومانس کم نہیں ہوا۔ ان تمام حالات کے باوجود میاں احسان نے پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دی حالانکہ ان کی بیگم کے علاوہ ان کی بیٹی بھی وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان کی بہت مشہور ہیروئن بن چکی تھی اور اس نے ان کو ہندوستان بلانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ گئے۔

البتہ انہوں نے ہندوستان میں مقیم اپنے خاندان سے جو ایک بیوی، ایک بیٹا اور بیٹی پر مشتمل تھا تعلق نہ چھوڑا۔ انہیں جب بھی موقع ملتا وہ اپنے بچھڑے خاندان سے ملنے بمبئی یاترا پر چلے جاتے۔ میاں احسان اپنے خاندان سے اس قدر گہرا تعلق رکھتے تھے کہ جب ان کی بیٹی کی پہلی فلم ”اپریل فول“ ہندوستان میں ریلیز ہونے وا لی تھی اور اس کی پبلسٹی کے پوسٹر شائع ہو گئے، میاں احسان نے جب یہ پوسٹر دیکھے تو انہیں پوسٹر میں ان کی بیٹی کا دکھایا گیا لباس نامناسب لگا، انہوں نے فلم کے پروڈیوسر سے کہا، جو اتفاق سے ان کے دوست ایس مکرجی تھے پوسٹر میں میری بیٹی کی تصویر بدل دی جائے۔ ایس مکرجی نے جواب دیا اب یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ پوسٹر تمام ہندوستان میں بھیجے جا چکے ہیں۔ میاں احسان نے کہا کہ آپ پورے ہندوستان سے یہ پوسٹر واپس منگوا لیجیے اور نئے پوسٹر چھپوا کر دوبارہ بھجوا دیجئے اس کا تمام خرچہ میں برداشت کروں گا۔

ان کی بیٹی کی سالگرہ کی تاریخ 23 اگست ہے۔ میاں احسان نے 2007 میں اپنی بیٹی کی سالگرہ میں شرکت کرنے کا مصمم ارادہ بھی کیا ہوا تھا اور اس سلسلے میں ویزہ بھی حاصل کر لیا تھا لیکن موت نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ 5 اگست 2007 میں کراچی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں انتقال کر گئے۔

آخر یہ میاں احسان کون تھے؟ موصوف اپنے وقت کی مشہور ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو کے شوہر، بولی ووڈ کے لیجنڈ اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار کے سسر، اور اپنے وقت کی بے انتہا حسین اداکارہ سائرہ بانو کے والد تھے۔ میاں احسان کے انتقال پر جب ممبئی میں اخباری نمائندوں نے ان کی بیٹی سائرہ بانو سے رابطہ کر کے ان کے تاثرات پوچھے تو انہوں نے کہا کہ میں یہ الم ناک خبر سن کر گہرے صد مے کی حالت میں ہوں اور کچھ بھی کہنے سے قا صر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments