ڈھبہ


1998 میں ایک ڈاکیومینٹری بنانے کا اتفاق ہوا اس کا نام تھا۔ پانی زندگی ہے۔

چینل 7 ایڈورٹائزنگ کا پروجیکٹ تھا ایک این جی او کے لئے بنانا تھا۔ ٹیکنیکل سہولیات نسیم چغتائی بھائی میڈیا ویژن سے لی گئیں تھیں کیمرہ مین شہباز تھا ایڈیٹر شکیل تھا اور باقی ذمہ داریاں میری اور میرے دوست زمن ارمغان حاضر کی تھیں۔ ڈاکومینٹری تلہ گنگ کے گاؤں ڈھبہ پر تھی۔ جو پچنند قصبہ کے ساتھ واقعہ تھا۔ یہ میانوالی روڈ پر واقعہ قصبہ تھا اب تحصیل لاوا کے زیر انتظام آتا ہے۔

گاؤں کا نام ڈھبہ امرال تھا شاید۔
فلم بنانے کا مقصد گاؤں کی یوتھ کونسل تھی۔

کمال نوجوان تھے جو سب کام اپنی مدد آپ کے تحت کرتے تھے اور ان کی انسپائریشن انڈیا کا کوئی گاؤں تھا جب ایک نوجوان کرکٹ میچ دیکھنے انڈیا گیا اور وہاں کے ایک گاؤں کی یوتھ کونسل کو دیکھا جو اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں کا انتظام چلاتے ہیں اور اس نے پاکستان واپس آ کر اسی طرز پر انجمن نوجوانان ڈھبہ بنائی اور گاؤں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔

سب سے پہلا پراجیکٹ اسی ہزار کی مدد سے مکمل کیا گیا

سکھ دور سے گاؤں میں ایک کنواں تھا جس سے گاؤں میں پینے کے پانی کی ضروریات پوری ہوتیں تھیں۔ گاؤں کی خواتین اور بچیاں سارا دن پانی لانے میں مصروف رہتیں تھیں۔ نوجوانوں نے فی گھر کچھ پیسے اکٹھے کر کے اس کنواں پر ٹربائن لگائی اور سارے گاؤں کو پلاسٹک کے پائپ لگا کر پانی دینا شروع کر دیا۔ لیکن پانی جلد ختم ہوجاتا تھا تو انھوں نے آدھے گاؤں کو صبح اور آدھے گاؤں کو شام کو پانی دینا شروع کر دیا۔ اس ایک کام سے گاؤں کی تقدیر ہی بدل گئی۔

سارے گھروں میں پانی مناسب مقدار میں ملنا شروع ہو گیا فی گھر خرچہ 40 روپے آتا جس سے ٹربائن کا ڈیزل اور اس کے آپریٹر کی تنخواہ کا خرچہ نکل جاتا۔ جب پانی گھروں میں آنے لگا تو سب خواتین کی کل وقتی مصروفیت پانی لانا بالکل ختم ہو گئی۔ اب بچیاں سب فارغ تھیں اور گاؤں میں سکول نہیں تھا انھوں نے دو سوزوکی کیری ڈھبے چندے سے خریدے اور اب بچیاں ساتھ گاؤں پچنند میں جانا شروع ہو گئیں۔ جب پانی کا استعمال بڑھا تو پانی گھروں سے نکل کر گلیوں میں آنا شروع ہو گیا۔

جس کی وجہ سے ان نوجوانوں نے سارے گاؤں میں پختہ نالیوں کا نظام بنایا اور گاؤں کی شکل بدلنا شروع ہو گئی اور اگلا مرحلہ گاؤں کی پختہ گلیاں تھیں اور پھر ایک چھوٹا سا کمیونٹی سنٹر اور نوجوانان ڈھبہ کا دفتر بھی بنا لیا گیا۔ جہاں سب بچے اور بچیوں کو مفت ٹیوشن دی جاتی تھی۔ اس ایک نوجوان کی وجہ سے سارے گاؤں کا ماحول اپنی مدد آپ کے تحت بدل گیا تھا۔ گاؤں کے ایک نوجوان کے پاس گیس سلنڈر کی ایجنسی تھی ساتھ قصبہ میں، جس کی وجہ سے سارا گاؤں گیس کے چولہوں پر منتقل ہو چکا تھا۔

موٹروے نئی نئی بنی تھی ہم چالیس منٹ میں تلہ گنگ والے ٹال پلازہ سے نکلتے تھے اور 25 کلومیٹر دور ڈھبہ پہنچ جاتے تھے ساتھ والے قصبہ پچنند میں گورنمنٹ آف پنجاب کا بڑا پانی کا منصوبہ تھا جو غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے بند پڑا تھا۔ اور یہ گاؤں دن بہ دن ترقی کر رہا تھا۔ آج یہ سب ایسے یاد آیا کہ اس گاؤں کی پڑھی لکھی بیٹی جو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں آرٹ اینڈ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ میں کوارڈینیٹر ہے سے ملاقات ہوئی۔

پوچھا بیٹا آپ کا تعلق کہاں سے ہے سر شاید آپ کو پتہ ہو ضلع تلہ گنگ تحصیل لاوا سے میانوالی روڈ پر ہمارا گاؤں ہے ڈھبہ۔ مجھے سب یاد آ گیا پوچھا بیٹا وہاں کی یوتھ کونسل کیسی چل رہی ہے۔ سر آپ کیسے جانتے ہیں۔ بتایا کہ انجمن نوجوانان ڈھبہ کے پانی کے پراجیکٹ پر ایک ڈاکیومینٹری بنائی تھی۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں سر جی وہ میرے والد صاحب نے بنائی تھی اور ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کے والد کے لئے دل سے دعائیں بھی نکلیں اور ان کی انتھک محنت کا ثمر ایک پڑھی لکھی بیٹی کی شکل میں جو میرے سامنے بیٹھی تھی۔

کل کی کوششوں کا اجر دیکھ کر دل خوش ہو گیا اور میں واپس اس دور میں چلا گیا۔ بہت سی دعائیں یوتھ کونسل ڈھبہ کے لئے اور پاکستان کے سب نوجوانان سے درخواست ہے اس ماڈل ویلج کو دیکھیں اور اپنے گاؤں کی تقدیر بدلیں سب کام گورنمنٹ کے کرنے کے نہیں ہوتے کچھ ہم نے خود بھی کرنے ہوتے ہیں۔ اپنے لیے اپنی اگلی نسلوں کے لئے۔ پاکستان زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments