بھارتی مسلم قیادت کی بے وقعتی اور قوم کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی


گزشتہ چند دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں میں قیادت کے بحران کے ساتھ مسلم قائدین کی بے وقعتی اور ناکامی کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں، حالیہ دنوں اس میں کچھ زیادہ شدت محسوس کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ملت، بالخصوص نوجوانوں میں مایوسی کی کیفیت ہے۔ کئی بین الاقوامی رپورٹوں میں بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے بے انتہا مصائب کا سامنا کیا ہے۔ مگر اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلم قیادت ملت اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

قیادت کی اس بے وقعتی کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام ملی تنظیمیں جو قیادت فراہم کرتی ہیں یا بزعم خود قیادت کی دعویدار ہیں ان میں جمہوری اقدار (شورائیت ) اور طریقہ کا رکا فقدان ہے۔ اسی وجہ سے بڑے اور اہم مناصب پر خاندان کا اس طرح قبضہ ہو چکا ہے کہ اب وہ موروثیت کے دائرے میں آ چکی ہیں۔ بیشتر ملی و قومی تنظیموں کا یہ روایتی اور موروثی طریقہ کار باصلاحیت قیادت کو پنپنے نہیں دے سکتا۔ ظاہر ہے کہ جب باپ کے بعد ہر حال میں بیٹے کو ہی قیادت سنبھالنی ہے قطع نظر اس سے کہ وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں اور اسے وقت کی نزاکتوں کی سمجھ بھی ہے یا نہیں تو پھر ایسی صورت حال میں قیادت کے طور طریق میں تبدیلیاں بھلا کیوں کر آ سکتی ہیں، حالانکہ باصلاحیت انسان بھی ہر طرح کی ذمہ داریوں کے لائق نہیں ہوتا۔ ایسی ذمہ داریوں اور عہدوں کے لیے خاص طرح کے تجربات، سمجھ اور خاص طرح کی تیز حس کی ضرورت ہوتی ہے اور موروثیت میں یہ سب چیزیں نہیں دیکھی جاتیں۔ اسی لیے امت اور خاص کر نوجوانوں میں موروثی قیادت کے خلاف بے اعتمادی پیدا ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ حوصلے کی پستی اور بے کاری کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

مسلم قیادت کی اس بے بضاعتی کے پس پردہ ایک اہم عنصر ان کے حلقوں میں جدید تعلیم کی کمی اور جدید وسائل کا فقدان بھی ہے۔ مسلم قائدین کی اکثریت ٹیکنالوجی، سائنس اور معاشیات کے میدان میں ہونے والی تازہ ترین تحقیقات اور تبدیلیوں سے واقف نہیں ہے اور اگر تھوڑی بہت واقفیت ہے بھی تو کما حقہ استفادہ کرنے کا مزاج اور اہلیت نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلم قیادت میں جو افراد اور طبقات جدید تعلیم کے حامل ہیں، جدید سائنس، ٹیکنالوجی اور معاشیات میں مہارتیں رکھتے ہیں وہ دینی و ملی شعور سے بے بہرہ ہیں۔

ان کے رجحانات مختلف ہیں اور ترجیحات میں ملی کاز اس طرح شامل نہیں جس طرح انہیں ہونا چاہیے۔ ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم قوم میں مختلف طرح کی قیادت کے مابین قومی یا ملی کسی بھی مسئلے پر بمشکل تمام ہی اتفاق پیدا ہو پاتا ہے، اس عدم اتفاق اور نان کوآپریٹو رجحان نے خود قیادتوں کے اندر ہی باہمی کشمکش، مخالفت، تذبذب، نزاع اور بے عملی کو جنم دیا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ مسلمان ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی اور نسلی گروہوں میں سے ایک ہیں، حکومت میں ان کی نمائندگی صرف چند افراد ہی کرتے نظر آتے ہیں، یعنی جب معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے کی بات آتی ہے تو سیاسی معاملات میں اثر و رسوخ رکھنے والے مسلم رہنما کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ جب جب بھی الیکشن آتے ہیں تو ہر محلے اور ہر گلی سے دس دس اور بیس بیس رہنما برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں اور کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آواز میں نعرے لگاتے اور سلوگن گاتے پھرتے ہیں ”ہمارا نیتا کیسا ہو۔

فلاں فلاں جیسا ہو“ ”دیکھو دیکھو کون آیا۔ شیر آیا شیر آیا“ ۔ مگر جب عملی اقدام کی بات آتی ہے اور امت کو سخت حالات درپیش ہوتے ہیں تو میدان میں نہ شیر نظر آتا ہے اور نہ ہی نیتا۔ پھر ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم ہوتا ہے۔ مسلم قیادت کی طرف سے بھرپور اور پر اعتماد نمائندگی کی کمی کی وجہ سے عام طور پر مسلمانوں کے مسائل اور تحفظات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

یہ دیکھ کر مزید افسوس ہوتا ہے کہ مسلم رہنماؤں میں زیادہ تر ایسے ہیں جو برسراقتدار سیاسی جماعتوں یا مقتدر طبقے کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور اپنی قوم کے ساتھ جڑنے اور اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے ایک مضبوط تحریک چلانے میں کوئی دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے، اس کے برعکس وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر حکمراں طبقے سے سودے بازی اور چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں۔

کاروبار اور کارپوریٹ کی دنیا میں ناکامی کے بارے میں بھی ہمارے قائدین کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے۔ ان کو اکثر بڑی کمپنیوں میں فیصلہ سازی کے عہدوں سے باہر دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے مجموعی طور پر اقتصادی اور کاروباری مواقع کی کمی ہے اور اثر و رسوخ رکھنے والے مسلمان بھی مرکزی دھارے کی کاروباری دنیا سے باہر ہیں۔ یہ حضرات مجموعی طور پر اپنی قوم کو شکایات کا اظہار کرنے اور ان کے لیے اہم مسائل پر بات کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

ہمارے رہنما ملک میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور فرقہ وارانہ منافرت کا مقابلہ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ وہ متحدہ آواز اور متحدہ موقف کے ساتھ آگے آنے اور ملک میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت و تعصب کے خلاف موثر اقدام کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ ہماری قوم اور خاص کر قیادت کی اس سرد مہری اور بے توجہی سے اقلیت مخالف قوتوں کو مزید حوصلہ ملا ہے اور مسلم کمیونٹی کے خلاف دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دوسروں کے سر پر الزام رکھنے کی عادت اور اپنی کوتاہیوں کو نظرانداز کرنے کا رویہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں کسی قوم پر ظلم و ستم کے خلاف پرامن احتجاج کا بھی راستہ کھلا ہوا ہوتا ہے، اس کے علاوہ قانونی چارہ جوئی کے مواقع اور آپشن، نیز نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا اور عوامی رابطے کے پلیٹ فارمز بھی موجود ہوتے ہیں، جن کے سہارے ظالم قوتوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جاسکتا ہی اور ان کے خلاف عالمی دباؤ بنایا جا سکتا ہے، لیکن جب ہم اپنی قیادت کو اس حوالے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مایوسی یہاں بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی۔

مسلم قیادت کی کارکردگی خاص ان میدانوں میں بھی غیر منظم اور غیر موثر نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس قیادت کی طرف سے بعض اوقات تو ’سب ٹھیک ہے‘ اور ’سب چنگا سی‘ کہہ کر اور بتا کر جو تشویش جتانا چاہتے ہیں انھیں بھی گمراہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جبکہ اسی ملک میں بہت چھوٹی اقلیت پر مشتمل قومیں یہاں تک کہ سکھ اور عیسائی جن کی آبادی کا فیصد مسلمانوں کے مقابلے کافی کم ہے، وہ بھی اپنے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کا مقابلہ بہادری، دانشمندی اور باہم دگر تعاون اور متفقہ رجحان اور پلان کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے پاس تھنک ٹینک ہیں جوان کے سیاسی و معاشی مسائل پر ریسرچ اور تحقیق کرتے ہیں اور دنیا کو بتلاتے ہیں کہ ان کے خلاف کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ مگر مسلمانوں کی کوئی تنظیم، کوئی ادارہ یا مجلس ایسی نہیں جو اس انداز میں کام کر رہی ہو۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مایوس کن حالات میں قوم کس کے پاس جائے، کس سے داد رسی چاہے، درپیش مسائل کا حل کہاں تلاش کرے۔ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ خود مسلمان اور خاص طور پر ان کی قیادت ملک میں اپنی اہمیت اور حیثیت کو سمجھے، اپنے اندر خلوص اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، دین و سیاست کے بارے میں صحیح سوجھ بوجھ اور شعور پیدا کرے، اپنے ذاتی مفادات پر ملی مفادات اور کاز کو ترجیح دے، دستیاب وسائل کے بہتر اور مناسب استعمال کے بارے میں سوچے، اپنے نوجوانوں کو اس کے لیے تیار کرے اور سب سے بڑی بات یہ کہ موروثیت کو ختم کرے، نیز تاعمر عہدوں سے چپکے رہنے اور کرسی پر بنے رہنے کی ہوس ترک کردے۔

اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو حالات مزید بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔ کیوں کہ جدیدیت اور ترقی کے نام پر جو ہوا چلی ہے وہ بہت سے تناور درختوں کو بھی اکھاڑ پھینک رہی ہے۔ مذہب کے تئیں تشکیک کا ماحول عروج پر ہے۔ ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ اس تباہی کا شکار ہو چکا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خود مسلمان بچے اور بچیاں اس سے محفوظ نہیں ہیں، آئے دن ہماری بچیاں ہندو لڑکوں سے شادی کر رہی ہیں، نوجوان ارتداد کا شکار ہیں اور گاؤں دیہات میں مسلمانوں کے مذہب کو تبدیل کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments