ظلم کے دن تھوڑے ہیں


بحیثیت قوم ہم منفی، شرانگیز، پرتشدد، فرقہ وارانہ، انتہاپسندانہ، ظالمانہ اور نفرت انگیز واقعات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کو پھیلاتے ہیں آواز اٹھاتے ہیں، تنقید کرتے ہیں، ظلم و جبر اور زیادتی قرار دیتے ہیں۔

دوسری طرف بہت سارے امن، محبت، رواداری، بین المذہب و بین المسالک ہم آہنگی، انسانی ہمدردی سے بھرپور اور مثبت ترین پہلو ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں لیکن ہم اس کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتے نا اس پر اس طرح سے بات ہوتی ہے جیسے برے واقعات پر کی جاتی ہے۔

نتیجتاً پوری دنیا میں یہی تاثر جاتا ہے کہ ہمارے ملک عزیز پاکستان میں ہر طرف نفرت، انتہاپسندی اور جبر و تشدد ہی موجود ہے امن و رواداری اور محبت نام سے تو شاید یہ قوم واقف ہی نہیں۔ ہمارے ملک میں بسنے والے لوگ بھی مایوس ہیں اور انہیں بھی لگتا ہے کہ یہاں کوئی خیر سرے سے موجود نہیں صرف شر ہی شر ہے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ادارہ برائے امن و تعلیم نے میڈیا سے وابستہ لوگوں کو منتخب کر کے انہیں 4 روزہ تربیت دینے کا اہتمام کیا۔

ورکشاپ میں اردو زبان کا بھرپور استعمال اور سارا نصاب اردو میں دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی۔
بقول شاعر
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

پریس، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپنا اپنا اثر رکھنے والے مختلف پھولوں کو خوب محنت سے اکٹھا کر کے منتظم حسیب اقبال صاحب نے جو گلدستہ ترتیب دیا تھا وہ علم و امن کی مہک کا اک حسین امتزاج تھا۔

لاہور سے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر سعدیہ خالد صاحبہ کے دماغ کی بتی بغیر سموسے کھائے بھی اتنی اچھی جلتی رہتی تھی کہ وہ اپنے نت نئے خیالات اور تصورات سے حیرت کا جھٹکا دے دیتی تھیں کہ ہم اکثر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔

کے پی سے تشریف لائیں فاطمہ نازش صاحبہ کی عمر تھوڑی اور تجربات اس قدر تھے کہ چار دن کے ہر سیشن کے ہر پہلو کے ساتھ موصوفہ کا کوئی نا کوئی خوشگوار یا تلخ واقعہ اس قدر مناسبت اختیار کر جاتا تھا کہ وقت اپنی تنگی دامن کا شکوہ کرتا نظر آتا۔

جہاں معروف کالم نگار و اینکر سبوخ سید صاحب کی علمی و فکری قابلیت سے مستفید ہو رہے تھے وہیں ان کی زوجہ محترمہ کی غیر معمولی قابلیت کا عقدہ بھی کھلا کہ وہ بہت اچھی باورچی، لکھاری اور اڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی زبیدہ آپا بھی ہیں جن کے ٹوٹکوں سے دنیا کو مستفید ہونے کا موقع میسر آئے گا۔

شیخوپورہ سے مولانا قاسم آصف صاحب ایک مدرسے سے پڑھے ہوئے ہیں۔ اسلامو فوبیا پر ایم فل کر رہے ہیں۔ میٹرک سے لے کر ماسٹر تک پورے ملک میں ٹاپ کرنے کا سہرا ان کے سر پر ہے۔

گوجرانوالہ سے تشریف لائی مناہل سرفراز نے گوجرانوالہ کی مشہور سوغات ”چڑوں“ پر ہی پابندی لگوا رکھی ہے کیونکہ انہیں شک ہے کہ وہاں چڑوں کے نام پر نا جانے کیا کیا کھلایا جا رہا ہے۔

تحسین یوسف صاحبہ کی آواز میں جو جادو تھا وہ چار دن تک شرکاء کے سر چڑھ کر بولتا رہا۔

شکر گڑھ کی پہلی، ‏بہادر، نڈر، بے باک، واحد، منظم اور باقاعدہ پیشہ وارانہ مہارت سے بھرپور صحافی صباء چوہدری سے ملاقات ہوئی جس کو اپنے علاقے میں خواتین اور صحافیوں کے مسائل پر نوحہ گری کرتے دیکھا تو بہت خوشی محسوس ہوئی کہ میری دھرتی بانجھ نہیں ہے۔

اس دبلی پتلی اور نحیف لڑکی کو بہت ساری مشکلات، تکالیف اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اس کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیتی۔

چمن لعل صاحب مسیحی برادری کے نمائندہ اور تمام شرکاء کی محبتوں کا مرکز ٹھہرے۔

کراچی سے تشریف لائے سمیر کے ٹیکنالوجی امور پر سیشن نے جہاں سب کو بہت کچھ سیکھنے کو دیا وہیں حسین صاحب کے ”امن کیا ہے“ کے عنوان سے انتہائی علمی سیشن نے بہت ساری گتھیا سلجھا دیں۔

ادارہ علم و امن کے ڈائریکٹر حافظ غلام مرتضیٰ کی ذہانت کی داد نا دینا بددیانتی ہوگی کہ جنہوں نے اپنی مدبرانہ سوچ سے اس اہم ترین کارنامے کو سرانجام دیا اور مزید اس کو باقاعدگی سے آگے بڑھانے کا راستہ متعین کر دیا۔

مفکر و مدبر خورشید ندیم نے سنایا کہ انہوں نے کیسے دیوبندیت سے مودودیت اور پھر غامدیت کا سفر طے کیا اور اب یہاں ان کا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

کھانے کی ٹیبل پر ان کے ہماری نشست ہوئی جو کئی گھنٹے جمنے کے بعد بھی اپنی دلچسپی نا کھو سکی بالآخر ہوٹل انتظامیہ کو مداخلت کرنا پڑی۔

خورشید ندیم صاحب کی شخصیت میں جب مزاح کا مزاج خوب پایا تو عرض کیا کہ آپ کیوں اپنی گفتگو میں ہلکا ہلکا مزاح کا ٹچ نہیں دیتے تو انہوں نے کہا شکر ہے یہ ہی کہا تھا ورنہ میں سمجھ رہا تھا کہ کہو گے کہ آپ کیوں سہیل عزیزی صاحب کی طرح مزاحیہ پروگرام شروع نہیں کر دیتے۔

اس ورکشاپ سے ہر کوئی امن کا سفیر بن کر اپنے اپنے علاقے کو لوٹ گیا اس عزم کے ساتھ کہ اب اب نفرتوں کو محبتوں سے مارنے کے لیے محبتوں کا اتنا رواج کر دیں گے کہ نفرتیں انشاءاللہ کم پڑ جائیں گی۔

بقول شاعر
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اب ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments