مادری زبان کا عالمی دن اور ہمارے رویے!


ہر سال 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کثیر لسانی اور کثیر الثقافتی معاشرے اپنی زبانوں کے ذریعے وجود میں آتے ہیں، جو روایتی علم اور ثقافتوں کو پائیدار طریقے سے منتقل اور محفوظ کرتے ہیں۔ مادری زبان کا عالمی دن بھی ہر سال لسانی اور ثقافتی تنوع اور کثیر لسانی کو فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے دن، ہفتے، یا سال بنیادی طور پر عوام کو تشویش ناک مسائل سے آگاہ کرنے، ابھرتے ہوئے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیاسی ارادے اور وسائل کو متحرک کرنے، انسانیت کی کامیابیوں کو منانے اور تقویت دینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی دنوں کا وجود اقوام متحدہ کے قیام سے پہلے سے چلا آ رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے انہیں ایک طاقتور وکالت کے آلے کے طور پر قبول کیا ہے۔

کسی بھی معاشرے کی سماجی ترقی کے لیے زبان اور ثقافت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زبان رابطے اور اظہار کا اہم ذریعہ ہے اور حقائق اور مشاہدات کی عکاسی اور اظہار کرتی ہے، بلکہ یہ انسانی رویوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس طرح یہ معاشرتی ترقی کی بنیادی شرائط کا اہم جزو ہے۔ زبان چونکہ ثقافت کا اظہار کرتی ہے، اسے تقویت دیتی ہے، ثقافت کے اندر رہنے والے انسانوں کی ذاتی شناخت کو متاثر کرتی ہے، اور رویوں کی حدود پیدا کرتی ہے، اس لیے زبان کو قوموں کی ثقافتی اقدار کو محفوظ کرنے کے لیے اہم مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی ترقی کے راستے پر گامزن ممالک اور اقوام اپنے وطن کی قومی اور علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج و ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں، اور وہاں برسر اقتدار اور اقتدار سے باہر سیاسی و سماجی قوتیں اسے برابر اہمیت دیتی ہیں۔

مجموعی طور پر دنیا میں مقامی زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں کی مادری زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے مادری زبان، یا ماں بولی، جسے انگریزی میں مدر لینگویج کہتے ہیں، وہ زبان ہوتی ہے جو بچے کو پیدائش کے بعد سننے کو ملتی ہے، اور ہمارے احساسات اور خیالات کو ایک خاص شکل دینے میں مدد دیتی ہے۔ یہ کسی بھی انسان کے آبا و اجداد اور اس کی دھرتی کی زبان ہوتی ہے۔ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تنقیدی سوچ میں مہارت حاصل کرنے، دیگر زبانوں کو سیکھنے، شرح خواندگی کو بڑھانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

دنیا بھر کے تعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے تو بہترین نتائج نکلتے ہیں۔ اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر پاتے ہیں۔ اس کے برعکس، قومی زبان کسی ملک کی اکائیوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنے اور وہاں کے عوام کے درمیان کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے کسی بھی ملک میں بولی جانے والی مقامی زبانوں میں سے سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کو ہی قومی زبان کا درجہ دیا جاتا ہے۔

جبکہ ملک کی تمام زبانوں کو ترقی دینے اور بنیادی تعلیم کا ذریعہ بنانے کے برابر مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہوتی ہیں، مثلاً سوٹزرلینڈ میں تین قومی زبانیں اور روس میں چار قومی زبانیں ہیں۔ اس لیے یہ تصور سراسر غلط ہے کہ پاکستانیت اور ملکی سطح پر ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ایسی زبان کو قومی زبان بنا دیا جائے جو ملک کے کسی بھی حصے کی مقامی یا پھر مادری زبان ہی نہ ہو۔ بلکہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے اگر آپ ملک کے چاروں صوبوں میں ساری پاکستانی زبانیں پڑھائیں تو شاید بہتر نتائج نکلیں۔ اس لیے اپنی زمین سے، اپنی زبان سے اور اپنی ثقافت سے جڑنے سے محبت، یگانگت اور قومی یکجہتی بڑھتی ہے، نہ کہ کم ہوتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فیصد آبادی کو اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں تقریباً 7000 زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن لسانی تنوع کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ زبانیں خطرناک حد تک ختم ہو رہی ہیں۔ جب کوئی زبان معدوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک مکمل ثقافتی اور فکری ورثہ لے جاتی ہے۔ مقامی زبانیں کسی بھی معاشرے میں شناخت، مواصلات، سماجی انضمام، تعلیم اور ترقی کے لیے اپنے پیچیدہ مضمرات کے ساتھ وہاں کے لوگوں اور معاشروں کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

اس کے باوجود عالمگیریت کے عمل کی وجہ سے وہ تیزی سے خطرے میں ہیں، یا مکمل طور پر غائب ہو رہی ہیں۔ جب زبانیں ختم ہو جاتی ہیں، تو دنیا کی ثقافتی تنوع کی بھرپور افزائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ مواقع، روایات، یادداشت، سوچ اور اظہار کے انوکھے طریقے، اور بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قیمتی وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دینا ہی تعلیمی عمل میں سب سے زیادہ شمولیت اور سیکھنے کا بہترین معیار سمجھی جاتی ہے، اور مادری زبان بچوں میں سیکھنے کے معیار اور ان کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ ایسا کرنا بالخصوص پرائمری اسکولوں میں علم کے خلاء سے بچنے، اور سیکھنے سمجھنے کی رفتار کو بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔ مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنانے سے بچے بہتر انداز میں اور تیزی سے سیکھتے ہیں، اور بہتر انداز میں سمجھ پاتے ہیں۔

وہ سکول سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اپنے سکول کو گھر کی طرح ہی مخصوص کرتے ہیں اور ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم جب آگے بڑھ کر قومی اور عالمی زبانوں سے ملاپ کرتی ہے تو اس سے علمی اور فکری ترقی میں مدد ملتی ہے۔ یہ دوسری زبانیں سیکھنے میں مدد کرتی ہے، آپ کو اپنی ثقافت اور لوگوں سے جڑنے میں مدد دیتی ہے، اور پیشہ وارانہ مہارت اور تجارتی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے۔

اس کے باوجود کہ عالمی سطح پر آبادی کے ایک بڑے حصے کو ان کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ اپنی پیدائش سے بولتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن کثیر لسانی تعلیم، بالخصوص ابتدائی تعلیم میں اس کی اہمیت اور عوامی زندگی میں اس کی ترقی کے لیے زیادہ عزم کے ساتھ پیش رفت کی جا رہی ہے۔ مادری زبان کا عالمی دن منانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ زبانیں کثیر لسانی شمولیت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اور کسی کے پیچھے نہ چھوڑنے سے ہی پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ یونیسکو، مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی اور اسے فروغ دینے کی لیے کوششیں کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی قسم کی تعلیم ہے جو اس زبان میں شروع ہوتی ہے، جس میں سیکھنے والا پہلے سے ہی مہارت رکھتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو دوسری زبانوں سے متعارف کرواتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر سیکھنے والوں کو اس قابل بناتا ہے کہ جن کی مادری زبان تدریس کی زبان سے مختلف ہے، وہ گھر اور اسکول کے درمیان فرق کو ختم کرنے، اسکول کے ماحول کو ایک مانوس زبان میں دریافت کرنے اور اس طرح بہتر طریقے سے سیکھنے کے قابل بن پائیں۔ کثیر لسانیات جامع معاشروں کی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے، جو متعدد ثقافتوں، علمی نظریات اور علم کے نظام کو ایک ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

اس بات کا خدشہ بڑی شدت سے موجود ہے کہ آج کی کم از کم 50 فیصد بولی جانے والی زبانیں 2100 ء تک معدوم ہو جائیں گیں، یا پھر سنگین خطرے میں پڑ جائیں گیں۔ زیادہ مایوس کن، لیکن حقیقت پسندانہ اندازوں کا دعویٰ ہے کہ اس صد کے آخر تک 90۔ 95 فیصد زبانیں معدوم ہو جائیں گیں، ان میں سے زیادہ تر زبانیں دیسی، یا مقامی زبانیں ہیں۔ اس طرح انسانیت کے پاس صرف 600۔ 300 زبانیں باقی رہ پائیں گیں، جو اس صدی کے آخر تک خطرے سے پاک ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022 ء اور 2032 ء کے درمیانی عرصے کو مقامی زبانوں کی بین الاقوامی دہائی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے تا کہ بہت سی مقامی زبانوں کی نازک صورت حال پر عوامی شعور اجاگر کیا جا سکے، عالمی توجہ مبذول کروائی جا سکے اور ان کے تحفظ، احیاء اور فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور وسائل کو متحرک کیا جا سکے۔ اس سال کے بین الاقوامی یوم مادری زبان کا تھیم، ”کثیر لسانی تعلیم۔ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت“ ہے، جو ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔

مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دنیا بھر کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور ان کی شمولیت کے لیے سہولت فراہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جان بوجھ کر پنجابی بولنے والوں میں احساس محرومی پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں، یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی بھی یہ رائے بن چکی ہے کہ پنجابی بولنا جاہل ہونے کے مترادف ہے، جس کی وجہ سے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ شخص بھی خود کو مہذب ظاہر کرنے کے لیے اردو بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ پنجابی مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے منع کرتی ہیں، اور پنجابی بولنے پر بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اپنی مادری زبان کی ترویج و ترقی اور اسے استعمال پر فخر کرنے کی بجائے ہم نے تو خود ہی پنجابی بولنے کو غیر مہذب زبان کا درجہ دے دیا ہے۔

جب برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ کر کے یہاں کی عوام کو غلام بنایا، تو سب سے پہلے انہوں نے یہاں کی مقامی خودکار صنعت کو تباہ کیا، تاکہ برصغیر متحدہ ہندوستان پر اپنے تسلط کو دوام بخش سکے، یہاں کے وسائل اور خام مال لوٹ سکے، اور اسے اپنی صنعتی پیداوار کی منڈی بنا سکے۔ سامراجی ممالک جس بھی ملک میں جاتے ہیں، سب سے پہلے اس ملک کی مقامی زبانوں اور ثقافت کو تباہ کرتے ہیں، تاکہ وہاں کے عوام کو ذہنی طور ہر پر غلام بنا سکیں اور ان کی سوچوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھال سکیں۔

جب 1849 ء میں انگریز پنجاب میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہاں مادری زبان کے فروغ کے تمام تر مطالبوں کے باوجود یہاں اردو لاگو کر دی۔ انگریزوں نے ہی یہاں دارالاشاعت پنجاب بنایا اور یہاں نامور اردو شعراء کو لایا اور یہاں اردو کو فروغ دیا۔ جب اگست 1947 ء میں برصغیر کا بٹوارہ ہوا تو پاکستان کے اقتدار پر بیوروکریسی اور جاگیرداروں نے قبضہ کر لیا۔ انہوں نے ملک میں سب سے زیادہ پولی جانے والی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بجائے اردو کو قومی زبان بنا دیا، جو کہ ملک کے کسی حصے کی مقامی زبان نہ تھی۔

حالانکہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی بنگالی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھی، جبکہ دوسری بڑی زبان پنجابی اور ملک کی سب سے قدیم ترین زبان بلوچی تھی۔ ہماری بیوروکریسی چونکہ برطانوی راج کی پیداوار اور انہی کے مفادات کی محافظ تھی، اس لیے انہوں نے علیحدہ ملک بننے کے باوجود کارسرکار اور ملکی وسائل پر جاگیردارانہ تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے سامراجی نظام کو جوں کا توں رکھا اور ان پر اشرافیہ اور بیوروکریسی کی سٹیٹس سمبل والی زبان مسلط کر دی۔

پاکستان ایک علیحدہ ریاست کے طور پر وجود میں آیا تو یہ مختلف نسلی اور لسانی اکائیوں پر مشتمل تھا، جس میں جغرافیائی طور پر غیر متصل مشرقی بنگال صوبہ بنیادی طور پر بنگالی آبادی پر مشتمل تھا۔ جب 1948 ء میں حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان کی اسلامائزیشن یا عربائزیشن کے حصے کے طور پر حکم دیا کہ اردو واحد قومی زبان ہو گی، اور متبادل کے طور پر عربی رسم الخط یا رومن رسم الخط میں بنگالی لکھی جائے گی، تو اس نے مشرقی پاکستان کی بنگالی بولنے والی اکثریت، جو کہ ملکی آبادی کے 58 فیصد سے بھی زیادہ تھی، میں وسیع پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔

مشرقی پاکستان کے عوام کا یہ مطالبہ یقیناً جائز تھا کہ بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ ملکی بیوروکریسی کے زیر اثر سرکار کے اس حکم کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی اور بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کو کچلنے کے لیے عوامی جلسوں اور ریلیوں کو غیرقانونی قرار دے دیا، یعنی قیام پاکستان کے ساتھ ہے ملکی حکمرانوں نے عوام کے جمہوری حقوق کو تسلیم کرنے اور ان کی آواز کو سننے کی بجائے عوام کو برطانوی سامراج کے انداز میں کنٹرول کرنے کی روش اپنائی۔

اس کے جواب میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء اور دیگر سیاسی کارکنوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 21 فروری 1952 ء کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ تحریک اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب اس دن پولیس نے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہاسٹل کے باہر احتجاج کرنے والے پرامن طلباء پر گولی چلا دی، جس سے 7 طالب علم ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ ان ہلاکتوں نے بڑے پیمانے پر شہری بدامنی کو ہوا دی اور اپنی زبان کے تحفظ اور مقام دلانے کی یہ آواز ملکی سطح کی تحریک بن گئی۔

آگے چل کر اس تحریک نے مشرقی پاکستان کے عوام میں ایک نئی قوم پرستی کو جنم دیا۔ ہمارے بنگالی بھائی صوبہ حکومت کے امور میں بنگالی زبان کا استعمال اور اسے ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اسے میڈیا، کرنسی، ڈاک ٹکٹوں میں اس کا استعمال، اور بنگالی رسم الخط میں اس کی تحریر کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ برسوں کی کشمکش کے بعد مرکزی حکومت نے 1956 ء میں اردو کے بعد بنگالی زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔

اپنی زبان کی اہمیت کو منوانے کی اس تحریک نے مشرقی پاکستان میں بنگالی قومی شناخت کے دعوے کو متحرک کیا، اور یہ بالآخر بنگالی قوم پرست تحریکوں اور حقوق کی جنگ کا پیش خیمہ بن گئی۔ قوم پرستی کی یہی تحریک بعد ازاں 6 نکاتی ایجنڈے کے طور پر نمودار ہوئی، جو بعد ازاں بنگلہ دیش کی آزادی کا سبب بنی۔ بعد ازاں بنگالی زبان تحریک کے شہیدوں کی یادگار، شہید مینار ڈھاکہ میڈیکل کالج کے قریب تعمیر لیا گیا اور 21 فروری کو بنگالی زبان کے احیاء کے طور پر کی گئی تھی۔

زبان کی شناخت کی یہ تحریک دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد مثال تھی۔ علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے بڑھتے ہوئے بحران اور رولنگ اشرافیہ کی بے حسی کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے زبان کی تحریک اور دنیا بھر کے لوگوں کے نسلی، لسانی حقوق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 1999 ء میں یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں مادری زبان کا عالمی دن کے طور پر بنگلہ دیش کی پہل پر 21 فروری کا ہی انتخاب کیا۔

اس سال کے بین الاقوامی یوم مادری زبان کا تھیم، ”لسانی کثیر تعلیم۔ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت“ ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دنیا بھی کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور ان کی شمولیت کے لیے سہولت فراہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments