جاوید اختر ، گجرات کا قصائی اور کلبھوشن یادیو


پاکستانیوں کی بہت ساری بری عادتوں کے ساتھ ایک اچھی عادت بھی ہے۔ وہ یہ کے وہ مہمانوں کو سر پر بٹھاتے ہیں، عزت سے نوازتے ہیں، اب مہمان چاہے دشمن علاقے کا ہو یا دشمن ملک کا ۔ آج کل ہر روز سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے جس میں کوئی گورا وی لاگر پاکستانیوں کی مہمان نوازی پر حیران رہ جاتا ہے اور پھر پاکستانیوں کی مہمان نوازی پر بڑے بڑے کلمات کہتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مہمان نوازی کی ثقافت اب تک جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک ادبی میلہ سجا، جہاں بس ادب ہی ادب تھا اور محبت ہی محبت تھی، مگر حیرانی یوں ہوئی کہ ادب کی اس محفل میں برصغیر کے ایک بڑے ادیب نے نفرت اور دشمنی والی بات کردی۔ انڈیا کے معروف نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر نے اس محفل میں کہا کہ ”میں تکلف سے کام نہیں لوں گا، ہم نے تو نصرت فتح علی خان کے بڑے بڑے فنکشن منعقد کیے، مہدی حسن کے بڑے بڑے فنکشن منعقد کیے لیکن آپ کے ملک میں تو لتا منگیشکر کا کوئی فنکشن نہیں ہوا۔ انھوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ چلیے ہم ایک دوسرے کو الزام نہیں دیتے، اس سے حل نہیں نکلے گا۔ بات یہ ہے کہ آج کل جو اتنی گرم فضا (پاکستان اور بھارت کے درمیان) ہے وہ کم ہونی چاہیے۔

پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم بمبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا تھا، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے، نہ مصر سے آئے تھے وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں، تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ ”

یہ وہ الفاظ تھے جو انڈیا سے آئے ہوئے مہمان ادیب جناب جاوید اختر نے بہت میٹھے انداز میں کہی اور شرکائے محفل تالیاں پیٹتے رہ گئے۔ حیرت یہ تھی کہ اس پورے ہال میں ایسا کوئی موجود نہ تھا جو جاوید اختر صاحب کے سامنے ادب کے دائرے میں چند سوال پیش کر دیتا یاں پھر سب کے اعصاب پر جاوید اختر سوار ہو گئے تھے کہ کسی نے جرات نہ کی۔ ڈھکی چھپی بات تو ہے ہی نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہے اور اس میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے اور یہ معاملات یک طرفہ نہیں ہے۔

چلیں اچھی بات ہے جاوید اختر صاحب نے سوال اٹھائیں، لیکن کچھ سوالات ابھی بھی باقی ہے جو جاوید اختر صاحب کے فہم میں نہیں آئے یا پھر ان کی مجبوری ہے کیوں کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں آئے روز ان کے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے مگر ان کو نظر نہیں آتا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس سوالات ہوں گے مگر وہ یہ سوال کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کے ملک کا وزیراعظم گجرات کا قصائی ہے۔

جاوید اختر صاحب آپ کو 2008 کا حملہ تو یاد رہا مگر 2002 کا حملہ بھول گئے جو ریاست نے مذہب کے نام پر آپ کے ہم مذہب شہریوں کو قتل کیا تھا۔ وہ ہی قاتل آپ کے ملک کا وزیر اعظم ہے آج کل، یقیناً آپ نے مذمت کی ہوں گی مگر ہماری نظروں سے نہیں گزری کاش اس میلے میں آپ یہ سچ بول کر میلہ مزید لوٹ لیتے۔ خیر!

اچھا گجرات کے قصائی کا قتل و غارت اور آپ کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن اگر آپ دوران شدید سچ ذکر کلبھوشن یادیو بھی کر دیتے تو پھر کیا ہی بات تھی، یوں آپ کے سچ کو مزید چار چاند لگ جاتے۔ یا کم سے کم یہ بتا دیتے کہ کلبھوشن بھی ایک میلے میں شرکت کے لئے آیا تھا اور اس کو بے گناہ گرفتار کر لیا گیا۔ آپ تو اتنے بڑے شاعر ہیں کچھ تو بولتے یا پھر تخیل سے بھرپور کہانی اپنے دھیمی آواز میں سنا دیتے تاکہ کچھ تو سکون آتا کچھ تو اطمینان ہوتا۔

جناب جاوید اختر صاحب، آپ بلاشبہ ایک بڑے ادیب ہیں اور آپ کی ادب دوست زندگی کے ہم قدر دان بھی ہیں مگر یہ ادھوری باتیں آپ جیسے ادیب پر جچتی نہیں۔ ادیب تو امن کا سفیر ہوتا ہے اور آپ بے امنی والی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ بے شک سیاسی رہیں مگر ریاست کے بیانیے کو ادب کی آڑ میں نہ پھیلائیں۔ اگر آپ جیسے لوگ ادب کو اس بے ادبی سے استعمال کریں گے تو امن پسندی کے اس راستے کو نقصان پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments