پختون قوم پرستوں کی ناکامی!
انیسویں صدی کے اواخر میں ایک عظیم ماں نے ایک عظیم بیٹے کو جنم دیا۔ یہ عظیم ہستی ہشتنگر کے اتمانزئی گاؤں میں ایک خان کے گھر پیدا ہوئی۔ پٹھان قوم میں بڑے بڑے خان ہوتے تھے۔ ان کو خان اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی بڑی بڑی زمینیں ہوا کرتی تھیں جن کا ان کو بھی حدود اربع معلوم نہیں ہوتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پختون قوم آپس کی دشمنی میں مبتلا، سیاسی شعور سے بیزار اور تعلیم سے غافل تھی۔ ایک دن ان کو جلسے کا صدر بنایا گیا تو پٹھانوں نے یہ سمجھا کہ یہ تو پٹھانوں کے بادشاہ بنا دیے گئے ہیں اسی وجہ سے ان کو ”بادشاہ خان“ کا لقب ملا جو بعد میں ”باچا خان“ میں تبدیل ہوا۔ حالانکہ ان کا اصل نام عبدالغفار خان تھا۔
عبدالغفار خان نے اپنے پوری زندگی پشتون قوم کی خدمت میں گزار دی۔ ان کا مقصد پٹھانوں کو ایک قوم بنانا، ان میں ملی یکجہتی کو فروغ دینا، سیاسی شعور پیدا کرنا اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔ ان کے مطابق ان کا نصب العین صرف یہ تھا کہ پٹھانوں کے گھر سنور جائیں، دشمنی کی جگہ دوستی، تفرقہ بازی اور دھڑے بندی کی جگہ اتحاد اور یگانگت اور تخریب کاری کی جگہ تعمیری جذبات پیدا ہو جائیں۔ خان عبدالغفار خان واقعی پختون قوم کے ہیرو تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کاوشوں سے پختون قوم میں سیاسی شعور بھی آیا، تعلیم کی اہمیت بھی بڑھ گئی لیکن حیف صد حیف! یہ قوم ”ایک“ نہ ہو سکی۔ جس اتفاق اور اتحاد کو باچا خان نے اس قوم میں پیدا کرنے کی کوشش کی وہ آج بھی ناپید ہے۔
باچا خان کے بعد ان کے بیٹے عبدالوالی خان کافی عرصہ تک سیاست سے وابستہ رہے۔ خان عبدالوالی خان بھی اپنے والد کی طرح ایک قوم پرست سیاسی رہنما تھے۔ یہ خان صاحب قومی اور صوبائی دونوں سیٹوں پر کامیاب ہوتے رہے لیکن آخر کار پختون قوم نے ان سے اپنا منہ موڑ لیا۔ 1990 ء میں ان کو جمعیت علماء اسلام کے مولانا حسن جان کے ہاتھوں عام انتخابات میں شکست ہوئی جس کی بنیادی وجہ پختون قوم کی تقسیم ہے۔ پختون قوم پختون ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان اور پاکستانی بھی ہے۔
پختون شاید ہی ایک ہو جائیں کیونکہ ان پر مذہب کا رنگ غالب ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ہونے کا رنگ بھی غالب ہے۔ چونکہ قوم پرستی کو اسلام میں ناپسند کیا جاتا ہے اسی لیے پختونوں میں اکثر لوگ قوم پرستی سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پختونوں کی بھاری اکثریت پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری ملک سمجھتے ہیں اور بطور جواز دو قومی نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی صرف اس بنیاد پر ہوئی کہ ہم مسلمان تھے اور وہ ہندو۔
پختون قوم کا یہ گروہ سارے پاکستانیوں کو ایک قوم سمجھتا ہے۔ ان کے لیے پنجابی، سندھی، بلوچی، گلگتی اور کشمیری سب ایک ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جو کہ ایک قوم پرست جماعت ہے خیبر پختونخوا میں مسلسل اپنے قوم پرست بیانیے کی وجہ سے ناکام نظر آتی ہے۔ حال ہی میں ان کے صدر ایمل والی خان کو اپنے ہی حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
اسی طرح پختون قوم پرستی کی وجہ سے آج کل منظور پشتین کے لیے باچا خان بطور استعارہ استعمال ہوتے ہیں۔ پختون قوم پرست ان کو ”آج کا باچا خان“ بھی کہتے ہیں۔ منظور پشتین کا تعلق جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے ہے۔ منظور پشتین ایک قوم پرست غیر پارلیمانی ”پختون تحفظ موومنٹ“ کے بانی اور سربراہ ہیں۔ منظور پشتین بھی باچا خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پختونوں کو ایک کرنے کے لیے دن رات جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ ہر عوامی جلسے میں پختون قوم پرستی کا سبق دیتے ہوئے پختونوں کی ترقی پختون قوم پرستی میں ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پختون ایک مظلوم قوم ہے۔
منظور پشتین کے اس نظریے کے ساتھ بہت سارے لوگ اتفاق بھی کرتے ہیں لیکن جہاں کافی پختون ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں وہیں کچھ پختون ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ان کو پاکستان کا دشمن، افغانستان کا اتحادی اور را کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔
جس طرح باچا خان پختون قوم کو ”ایک“ کرنے میں ناکام ہوئے بالکل اسی طرح منظور پشتین بھی آخر کار پختونوں کو ”ایک“ کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ لوگ منظور پشتین کے خیالات سے اختلاف کریں گے۔ ثبوت کے طور پر ہم محسن داوڑ کی مثال لیتے ہیں۔ محسن داوڑ، جو پختون تحفظ موومنٹ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے آج ان سے الگ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ”نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ“ نامی ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بنالی ہے اور پارلیمانی سیاست پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
منظور پشتین ایک موثر لیڈر ہیں لیکن پختون قوم پرستی کی وجہ سے ناکام ہو جائیں گے۔ جو جدوجہد منظور پشتین پختون قوم پرستی اور مظلوم پٹھانوں کی آواز بن کر کر رہے ہیں اگر یہی جدوجہد پشتین صاحب پورے پاکستانیوں کے مظلوم طبقے کو ایک کرنے کے لیے کریں تو قوی امید ہے کہ بہت جلد کامیاب ہو جائیں گے۔ پاکستان میں اگرچہ مظلوم زیادہ تر پختون ہیں لیکن ملک کی باقی اقوام بھی ظالم کے جبر سے محفوظ نہیں۔ اس ظلم کے خلاف جب سارا مظلوم طبقہ ایک ہو گا تب کہیں جا کے ظالم کا مقابلہ ہو سکتا ہے ورنہ باچا خان اور منظور پشتین جیسے اور بھی کئی آئیں گے اور ناکام ہوتے رہیں گے۔
- ناگزیر تشکیل نو - 15/05/2023
- ناول: فردوس بریں۔ مصنف: مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی۔ تبصرہ - 15/03/2023
- پختون قوم پرستوں کی ناکامی! - 25/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).