فیض میلے کا جاوید اختر


تو کیا کلبھوشن یادیو جرمنی سے آیا تھا؟ تو کیا ابھینندن ناروے سے آیا تھا؟ تو کیا سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ مصر میں پیش آیا تھا؟ جاوید اختر بھارتی گیت کار اپنے کام کی وجہ سے اس خطے میں جانے جاتے ہیں۔ فیض میلے میں جاوید اختر صاحب کو بلایا گیا۔ ہم تو دل والے لوگ ہیں۔ ہم سمجھے کہ وہ اپنی پوٹلی میں محبت اور امن کے پھول لائے ہوں گے۔ مگر یہ کیا ان کی پٹاری میں سے تو نفرت کے کانٹے نکل آئے جو شاید وہ اپنے کالر میں سجا کر لائے تھے بس ہمیں استقبال کے وقت دکھائی نہیں دیے۔

مصنفہ نیلم احمد بشیر امن کی پیامبر ہیں وہ بھی اس پروگرام میں شریک تھیں۔ انہوں نے ایک پیار بھرا معصومانہ سوال کیا ”آپ کئی بار پاکستان آچکے ہیں۔ میں بھی آپ کے گھر جا چکی ہوں۔ میں کہنا چاہ رہی ہوں کہ پاکستان ماشا االلہ ایک بڑا فرینڈلی، لونگ اور پوزیٹو ملک ہے۔ لیکن ہندوستان میں ہمارا ایک جو امیج ہے وہ اچھا نہیں ہے تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ آپ واپس جا کر بتاتے ہیں کہ وہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں۔ جگہ جگہ بم نہیں مارتے۔ ہمیں پھول بھی پہناتے ہیں اور پیار بھی کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس ریجن میں اچھے حالات ہوں اور ہم ترقی کریں۔

جواب میں جاوید اختر نے کہا آپ درست کہہ رہی ہیں۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ لاہور اور امرتسر میں صرف 30 کلو میٹر فاصلے کے باوجود ان دونوں شہروں میں لا علمی حیرت انگیز ہے۔ یہ مت سمجھیے کہ آپ ہندوستان کے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں۔ یہاں اب میں تکلف سے کام نہیں لوں گا۔ ہم نے تو نصرت فتح اور مہدی حسن کے بڑے بڑے فنکشن کیے۔ مگر آپ نے تو کبھی لتا جی کا کوئی پروگرام نہیں کیا۔

اس بات پر ناظرین ہوٹنگ کرتے ہوئے تالیاں پیٹتے ہیں۔ قصور تو ہمارا ہے، ہمارے بیچارے نوجوانوں کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ لتا جی تو خود ہی کبھی پاکستان آنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ ان کے مر جانے پر ہر آنکھ یہاں اشکبار تھی۔ دوسرے ہم نے تو دلیپ کمار صاحب اور سائرہ بانو کو ریاست کے لیول پر صدر پاکستان کی طرف سے بلایا تھا۔ عامر خان، سونو نگم، رشی کپور، رندھیر کپور، ارمیلا، دلیر مہدی، ہنس راج، ہیم لتا، ونود کھنہ آئے اور محبتیں سمیٹ کر واپس گئے۔

اوم پوری صاحب بھی شوق سے آئے تھے۔ گلزار صاحب اپنے وطن دینہ آئے ہم نے آنکھیں بچھا دیں۔ واپس گئے تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوا سب نے دیکھا۔ شتروگھن سنہا کو تو ہمارے جنرل ضیا نے منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا۔ نصرت فتح علی نے آپ کا آفریں گا کر آپ کو شہرت دلوائی۔ آپ نے کہا ہم تو ممبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر میں کیسے حملہ ہوا تھا۔ تو وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے نہ ہی مصر سے آئے تھے۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے شہر میں گھوم رہے ہیں۔

یہ شکایت اگر ہندوستانی کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔ اس بات پر پھر حاضرین محفل نے تالیاں بجائیں۔ بحیثیت پاکستانی کیا ہم اتنے بے شرم یا لاعلم ہیں کہ 26 / 11 کے حملے پر ہماری بے عزتی ہو رہی تھی اور وہاں جشن جاری رہا۔ افسوس! بجائے ان کی مذمت ہوتی عدیل ہاشمی نے مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا ہم لتا جی کا کنسرٹ تو نہیں کر سکے مگر آج ہمارے پاس جاوید اختر ہے۔ میں حیران ہوں کہ عدیل نے جواب میں ان کو یہ کیوں نہ یاد دلایا کہ 2018 میں جب ان کی والدہ منیزہ ہاشمی 72 سال کی عمر میں پندرہویں ایشیا میڈیا سمٹ میں نئی دہلی گئیں تو انہیں یہ باور کرایا گیا کہ ان کے لیے نہ تو کوئی کمرہ بک ہے اور نہ ہی کوئی پاکستانی وہاں مدعو ہے۔

یاد رہے منیزہ ہاشمی صاحبہ فیض فاؤنڈیشن کی ٹرسٹی بھی ہیں اور کشف فاؤنڈیشن کی سربراہ کی حیثیت سے وہاں گئی تھیں۔ عدیل کو بھی تکلف بر طرف کر کے پوچھنا چاہیے تھا کہ نظریاتی شاعر فیض کی بیٹی کو وہاں کیسے بے فیض کر دیا گیا۔ منیزہ ہاشمی نے پھر بھی کہا تھا: پاکستانیوں کی طرف بھارتی حکومت کا یہ دوست مخالف رویہ ہونے کے باوجود ہم فیض فیسٹیول میں اپنے بھارتی دوستوں کو بلاتے رہیں گے۔ اس سفاک رویے کے باوجود منیزہ صاحبہ نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو پھر سے بلایا۔

غور کریں تو بھارت ازل سے ہی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا شوقین رہا ہے۔ کلبھوشن کے اپنے جرائم کو قبول کرنے کا اعترافی بیان موجود ہے۔ 27 فروری 2019 کو ابھینندن کو ہماری عظیم فوج نے نہلا دھلا کر گرما گرم چائے پلا کر واہگہ بارڈر کے رستے واپس بھجوایا۔ یہ ہے ہمارے پاکستان کا امن پسند چمکتا چہرہ۔ ہمارے بہت سے فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں نے اس بات پر جاوید اختر کی بہت مذمت کی۔ ہماری فلم انڈسٹری کی شان اداکار شان صاحب نے کیا خوب صورت تشبیہ دی ہے کہ جاوید اختر ہمارے مہمان بن کر آئے اور الفاظ گردی کر کے چلے گئے۔

ادھر بھارت والوں نے ان کی واپسی پر خوب جے جے کار کی جیسے وہ کوئی قلعہ فتح کر کے آئے ہیں۔ جاوید اختر نے وہاں اپنے نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا وہاں ایک مہیلا نے مجھ سے سوال کیا۔ اب کیا کہیے حضور کہ آپ شاعر ہوتے ہوئے یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ ہماری نامور مصنفہ اور شاعرہ ہیں۔ وہی جنہوں نے“ گوانڈنے گوانڈنے ”لکھا۔ چلیں آپ اپنی لا علمی کا اعتراف خود ہی کر گئے۔ افسوس تو اپنے پاکستانیوں پر ہے کہ جواب میں تالیاں بجتی رہیں۔ ہوٹنگ ہوتی رہی۔ دراصل ان کا تو ظرف ہی اتنا چھوٹا تھا کہ ان سے یہ عزت سمیٹی نہ گئی۔ دوسرے انہیں واپس جا کر اپنا منہ بھی دکھانا تھا۔ شاعر لوگ تو سخی اور سچے ہوتے ہیں۔ ہم تو سمجھے تھے کہ کڑی دھوپ میں یہ شاید ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہو مگر آپ تو پیار کی میٹھی دھوپ میں کڑوی بارش برسا گئے۔ اب مت آئیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments