طالبان کا افغانستان


جب انسان کو چاروں اطراف سے مصیبتیں گھیر لیتی ہیں تو وہ خود کو نا امیدی کی چوکھٹ پہ کھڑا پاتا ہے، لیکن پھر سے زندہ رہنے کی خواہش امید کی ایک کرن بن جاتی ہے اور نا امیدی میں انسان ایک نئی اور خوشحال صبح کا منتظر رہتا ہے۔ دنیا کی کئی اقوام کی طرح افغان بھی مجموعی طور پر اسی حالت میں رہ رہے ہیں۔ صدیوں سے وہ ایک خوبصورت صبح کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں جو ابھی تک پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ افغان سرزمین اور افغانستان کے باسیوں کی حالت، ان کی مزاج، ان پر بیتی مصیبتوں کی روداد پہ سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ مگر میری نظر میں دو ہی ایسے مصنف گزرے ہیں جنہوں نے صحیح معنوں میں افغانیوں کی نمائندگی کی ہے، ایک خالد حسینی اور دوسرا کرسٹینا لیمب۔

”طالبان کا افغانستان“ مس کرسٹینا لیمب کی تصنیف ہے جو پیشے کے اعتبار سے برطانوی صحافی تھے۔ افغان ایشو اور افغان قوم کی حالت زار پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے۔ ہو سکتا ہے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ افغان قوم کی مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہوجائیں، مگر ایک بات یاد رکھیں کہ قومیں اس سے بد تر حالات میں زندہ اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں کامیاب رہی ہیں۔

افغانستان ایک ایسا ملک ہو جو وجود میں آتے ہی جنگ کی آگ میں سلگتا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ امن نامی شے سے نا آشنا ہیں۔ کبھی کبھی مختصر مدت کے لئے امن قائم رہا تو وہ اس ملک کی تاریخ میں سہانے خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں جب گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ اسے کامیابی و خوشحالی کی نہیں بلکہ زندہ رہنے کی دعائیں دیتے ہیں کیونکہ یہاں بہت کم لوگ اپنی موت مرتے ہیں بلکہ اکثریت کی موت گولیوں کی نوک پہ لکھی ہوتی ہے۔

ظاہر سی بات ہے اب ایسی سرزمین پہ رہ کر حکمرانی کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام نہ روس کر سکا، نہ امریکہ اور نہ خود کوئی افغان۔ احمد شاہ ابدالی سے لے کر آج تک کوئی بھی سکون سے افغانستان پر حکومت نہیں کر سکا۔ پھر سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ دنیا کی ہر سپر پاور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اپنا حق سمجھتی ہے۔ دوسروں کو چھوڑیں پاکستان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہا۔

کرسٹینا لیمب نے اس چھوٹی سی کتاب میں افغانستان کی تمام بادشاہوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے پہلی 1988 کو براستہ کوئٹہ افغانستان پہنچی، جس وقت ملا فرنٹ روس کے خلاف برسر پیکار تھا۔

یہ پوری کتاب اس کی اپنی روئیداد ہے۔ افغانستان کو اپنی دو مختلف دوروں کے دوران اس نے جیسا دیکھا ویسا ہی لکھا۔ یہاں کے باسیوں کے خیالات کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا۔ بیرونی دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی تھی اور اصل میں معاملات کیا تھے، یہ سب چیزیں آپ کو اس چھوٹی سی کتاب میں ملیں گی۔ کہانی شروع ہوتی ہے 1988 سے، پھر روس کی زوال سے ہوتے ہوئے نائن الیون کے واقعے تک پہنچتی ہے۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی تباہ کاریوں سے لے کر امریکی بمبار طیاروں کی آمد تک پورا ایک زمانہ گزرتا دکھائی دیتا ہے۔

جنگ دوسروں کی تھی مگر مرے افغان، لٹ گئے افغان، بے گھر ہو گئے افغان۔ ان کو کبھی ان کے حال پہ رہنے نہیں دیا گیا۔ آج بھی افغانستان کی یہی حالت ہے۔ طالبان آئے، طالبان گئے، پھر سے امریکہ نواز افغان حکومت بنی، یہ نہ ٹک سکی تو پھر ایک بار طالبان آئے مگر افغان پبلک وہیں کی وہیں رہ گئی۔ ان کی کس کو پڑی ہے؟ اہمیت تو اس زمین کی ہے اس کے باسیوں کی نہیں۔

کئی دفعہ کتاب پڑھتے وقت میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ جن طاقتوں کو افغانی اپنا دشمن سمجھتے ہیں وہی طاقتیں ہماری تباہی کا بھی سامان مہیا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments