چپ رہا نہیں جاتا


تحریری سفر میں اچھا لکھنے کے لئے اچھا مطالعہ کرنا ایک بہترین ہمسفر اور ساتھی کی مانند ہوتا ہے جو آپ کے تحریری سفر کو خشک اور بے ربط نہیں رہنے دیتا بلکہ آپ کے تخلیقی سفر کو خوشگوار اور آسان بنا دیتا ہے۔ لکھنا آسان نہیں ہوتا، لیکن پڑھنا اس سے بھی مشکل ہوتا ہے، جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ جو لوگ مطالعہ جیسا مشکل کام نہیں کر پاتے وہ قدرے آسان (میری نظر میں ) لکھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ مطالعہ ایک لکھاری کی روح اور محبوبہ ہے جس کے ساتھ عشق کیے بغیر آپ کچھ دیرپا اور نادر تخلیقی شاہکار نہیں لکھ پاتے ہیں۔ میری خوشی قسمتی ہے کہ میرے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو اچھا لکھتے ہیں جن کو پڑھ یہ احساس مزید پختہ ہوجاتا ہے کہ مجھے مطالعے کی کس قدر شدید ضرورت ہے۔ اس وقت بھی میرے ہاتھ میں ایک ایسی ہی شخصیت کی کتاب ہے جو حقیقی طور پر علم و تحریر کے آدمی ہیں، جن کی تحریروں سے ان کی شخصیت، سوچ، افکار اور علم کی پیاس اور قلم کی آبیاری کی تڑپ عیاں ہوتی ہے۔ آج کے اس مضمون میں ادیب، مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی نئی کتاب ”چپ رہا نہیں جاتا“ پر بات کریں گے۔ یہ کتاب مصنف کی فکاہیہ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ کتاب میں سیاست، سماج اور شخصیات کے حوالے سے پرمزاح تحریریں شامل ہیں۔ یہ کتاب کراچی یونین آف جرنلسٹس کے زیراہتمام شائع کی گئی ہے، جو بہ طور ناشر کے یو جے کی شائع کردہ پہلی کتاب ہے۔ اس سے پہلے عثمان جامعی کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں فکاہیہ تحریروں کا انتخاب ”کہے بغیر“ شاعری کا مجموعہ ”میں بس اک دیوار“ اور ناول ”سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج“ شامل ہیں۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے ان خوبصورت الفاظ میں اپنی شریک حیات کے نام کیا ہے۔ ”سیدہ صائمہ عثمان کے نام جس نے بار بار میرے ٹوٹتے بکھرتے حوصلوں کو جوڑا اور مجھے لفظ تراشنے کے قابل بنایا۔“

584 صفحات پر مشتمل یہ کتاب کافی ضمیم ہے اور عام تاثر ہے کہ اتنی موٹی کتابیں کیسے پڑھیں گے، بے شک کتاب کے صفحات بہت زیادہ ہیں لیکن چونکہ یہ چھوٹی چھوٹی تحریروں کا مجموعہ ہے اس لئے اس کو پڑھتے ہوئے آپ کو بوریت نہیں ہوتی اور آپ تھوڑے تھوڑے ابواب پڑھ لیتے ہیں۔ کیونکہ میں نے اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہی کئی فکاہیہ سوشل میڈیا پر پڑھ چکا ہوں تو بھی مجھے کتاب پڑھ کر شدید حیرت ہوئی اور شاید آپ بھی اس بات سے اتفاق کریں گے۔ میں اس کتاب کو کافی حد تک پڑھ چکا ہوں اور جلد مکمل پڑھ لوں گا۔ اب تک کی رائے آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ اگر آپ عثمان جامعی صاحب سے زندگی میں مل چکے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ بہت ہی دھیمے مزاج، شائستہ شخصیت اور پرسکون طبیعت کے مالک انسان ہیں، ان سے مل کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اندر ایک شدید طوفان برپا کیے ہوئے ہیں، وہ معاشرے کی صورتحال پر اس قدر غصے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، میرے خیال میں عثمان جامعی صاحب نے اس شدت کا اظہار اپنی فکاہیہ تحریروں سے کیا ہے، یہ اپنے وجود اور ضمیر کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کتاب کے پیش لفظ ”یہ میرا احتجاج ہے“ میں لکھتے ہیں ”میرے نزدیک ظلم، منافقت اور ریاکاری پر خاموش رہنے والا قلم کار وہ بدترین مخلوق ہے جسے خدا نے لفظ گری کی نعمت دی اور وہ اس صلاحیت کو محض زرگری کا ذریعہ بنائے رکھے۔ ایسے قلم کار کے لئے بہتر ہے کہ وہ کسی جسم فروش کا سہولت کار بن جائے۔“

ہمارے معاشرے کی بدقسمتی دیکھیں یہاں جسم فروش کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ضمیر فروش خوب عزت پاتے ہیں۔

چونکہ یہ کتاب کسی خاص وقت میں نہیں لکھی گئی اس لئے اس میں گزشتہ انتہائی اہم اور بدلتے 20 سالوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی اور اخلاقی نشیب و فراز کی کہانی موجود ہے۔ بقول عثمان جامعی ”یہ کتاب گزشتہ تقریباً بیس سال کے دوران لکھے جانے والے بلاگز کا انتخاب ہے، جو مختلف ویب سائٹس، ڈان اردو، ایکسپریس نیوز، ہم سب، اے آر وائی نیوز، بادبان اور آوازہ پر شائع ہوئے۔

کتاب کے آخر میں ”خبروں کے ادھر ادھر“ کے زیر عنوان مختصر تحریریں شامل ہیں، جو بیتے دو عشروں کے دوران ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں چھپ چکی ہیں۔ میری زیادہ تر تحریریں کسی واقعے، خبر، کسی شخصیت کے بیان یا دعوے اور سیاست کے اتار چڑھاؤ اور سماج کی تبدیلیوں سے جڑی ہیں، یوں یہ مجموعہ ہمارے ملک اور گرد و پیش کی اختصار کے ساتھ بیان کردہ ”شگفتہ تاریخ“ بھی ہے۔ ”

131 فکاہیہ تحریروں پر مشتمل یہ کتاب خوبصورت رنگ، سرورق، ہارڈ بائنڈنگ اور پرنٹ سائز کی وجہ سے ایک معیاری کتاب ہے جو قیمت کے اعتبار سے انتہائی مناسب ہے۔ ہر فکاہیہ کا عنوان بہت پرکشش ہے، کئی جملے اتنے کا اٹ دار ہیں کہ آپ کو رک کر سوچنا پڑتا ہے کہ مصنف کتنی گہری بات اتنی آسانی اور سادگی سے لکھ گیا ہے، کئی ایک میں تو منظرکشی اور تصور کی ایسی شاندار الفاظ میں تصویر بنائی گئی ہے جس پر ویڈیو ڈاکیومنٹری کمال کی بن سکتی ہے۔ چند فقرے آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں :

”ہے کوئی کراچی جیسا تخلیقی شہر“ ، ”یہ ادب برائے ادب نہیں“ ادب برائے زندگی ”تھا، جسے بعض لوگ“ ادب بچائے زندگی ”کہتے تھے! (صفحہ 260 ) ۔

”نئی نسل کے لئے نیا اقبال“ (صفحہ 275 ) ، ہوا یہ کہ ”موم“ اور ”ڈیڈ“ نے اپنی کم زور انگلش کا انتقام انگریزی کو اپنے بچے کی کم زوری بنا کر لیا۔

بے چاری پی آئی اے عشروں تک اسی خودی کو آسمانوں میں ڈھونڈتی رہی پھر مایوس ہو کر بہت سی پروازیں بند کر دیں۔

”اگر بندروں میں ذہانت جاگ اٹھی!“ (صفحہ 579 ) بھئی سراغ لگانا ہے تو اس کا لگاؤ کہ سیاست دانوں اور حکم رانوں کی جینیات میں ایسا کیا شامل ہے کہ وہ ذہین انسانوں کو بھی بے وقوف بنا لیتے ہیں۔

”آپس کی بات ہے، اگر بندر بانٹ کا وعدہ کر لو تو ہم تمہیں ووٹ کا حق دے دیں گے“ ،
”میاں بکتا ہے۔ بولو خریدو گی!“ (صفحہ 582 )

خاتون کو چاہیے تھا کہ اس متن کا اشتہار دیتیں، ”میرے پاس ایک عدد خوب صورت، خوب سیرت، وفادار، سلیقہ مند، سعادت مند، منہ بند، اچھی ذات کا شوہر موجود ہے، جسے میں فروخت کرنا چاہتی ہوں، حالات کی مجبوری ہے، بیچنا بہت ضروری ہے۔

اس کاروبار میں ہو گا یہ کہ جس بیوی کا جتنا شریف پتی وہ اتنی ہی لکھ پتی ہو جائے گی۔

عثمان جامعی کی تقریر کو پڑھ کر حیرت بھی ہوتی اور ہنسی بھی آتی ہے، وہ ایسے سنجیدہ موضوعات کو اتنے سلیقہ اور عام فہم انداز میں بیان کر دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کے پاس شاباش اور داد دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ عثمان جامعی کی تحریریں عوامی مزاج اور سماجی رویوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ جہاں یہ تحریریں ایک طرف نوحہ ہیں وہیں یہ ایک لافٹر تھیراپی بھی ہیں، خود پر اور اپنے حالات پر ہنسی کی عادت، جس کے اب ہم سب عادی ہو چکے ہیں۔ عثمان جامعی کی تحریروں کا اسلوب اور طرز بیان بہت مختلف بھی ہے اور منفرد بھی ہے۔

میری اس تحریر کا مقصد آپ کو مصنف کی کاوش، تحریری اسلوب اور کتاب کے تعارف سے متعارف کروانا تھا۔ ایک آرٹسٹ کی سب سے بنیادی اور اولین ترجیح اس کے تخلیق کے حقیقی حقدار یعنی عوام الناس تک اس کو پہنچا ہوتا ہے تاکہ وہ اس سے استفادہ کر کے اسے صحیح اور موثر فیڈبیک سے آگاہ کرسکیں۔ میں نے اس ضمن میں اس تحریر کے ذریعے عثمان جامعی صاحب کے مقصد کو سہل بنانے میں ان کی معاونت کی ہے اور اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے۔ امید ہے آپ اس کتاب کو پڑھیں گے اور اپنی رائے کا اظہار کریں گے، مجھے شدت سے انتظار رہے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments